تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     02-09-2016

لندن پلان…(5)

لندن میں آخری شام بیرسٹر نتاشا اور ان کے کشمیری شوہر‘ قاسم کی طرف سے ڈنر تھا۔ قاسم کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر راجوری سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ ان کی جانب سے حیران کن انکشاف یہ تھا کہ بیرونِ ملک پیدا ہونے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت سرکار وادی میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ مجھ سے پوچھا: راجوری شہر کے باہر نالے کے پار پاکستان کا کون سا علاقہ ہے؟ میں نے بتایا: وہاں آزاد کشمیر کا ضلع کوٹلی واقع ہے۔ راجوری کا جو حصہ آزاد ہوا وہ تحصیل نکیال کہلاتا ہے۔ ایک اونچی پہاڑی پر ان کا گاؤں تھکیالہ ہے۔ اس پہاڑی پر کھڑے ہو کر میں نے راجوری کا نظارہ کر رکھا ہے۔ بیرسٹر نتاشا ترقی پسند تحریک سے متاثر ہیں‘ اور پاکستان کے بارے میں جاننے کی خاصی خواہش مند۔ یہ نوجوان جوڑی یو کے میں ہی پیدا ہوئی تھی اور ابھی دو ماہ پہلے شادی کے بندھن میں بندھی ہے۔ بیرسٹر نتاشا کے والد ڈاکٹر لیاقت ملک یورپ کے معروف فوجداری وکیل اور ساتھ ساتھ ایک بڑے یورپین براڈ کاسٹنگ ہاؤس کے مالک بھی ہیں۔
اگلی صبح عبدالحسیب ناشتے کے فوراً بعد ہوٹل آئے۔ میں اور عبدالرحمن ان کے ہمراہ مانچسٹر چلے گئے۔ فیملی کے باقی لوگ لندن پلان سے علیحدہ ہو کر واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے‘ جس کی وجہ بچوں کے تعلیمی ادارے کھل جانا ٹھہرا۔ گریٹر مانچسٹر کے سابق لارڈ میئر جناب نعیم اور یورپی یونین پارلیمنٹ کے منتخب رکن افضل خان کمال مہربانی سے ملنے تشریف لائے۔ پاکستانی مسلم کمیونٹی کے دونوں بڑوں سے بامعنی ملاقات ہوئی۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کی ترجیحات تفصیلی موضوعات تھے۔ مانچسٹر میں قیام کا پہلا دن (Sunny) تھا۔ چمکیلی روشن دھوپ، گہرا نیلا آسمان، کئی روز کی مسلسل بارش کے اثرات۔ موسم‘ دھوپ اور سردی کا حسین امتزاج۔ چیتم ہِل کے پارک ایریا کے پیچھے وسیع فارم ہاؤسز اور پہاڑیاں کسی سگھڑ خاتون کے ڈرائنگ روم میں سجے خوبصورت گلدانوں کی مانند ہیں۔ میرے تین پسندیدہ درخت کئی کئی سو سال پرانے ہیں: چنار، چیڑھ اور سلور اوکس۔ لاکھوں کی تعداد میں اور سینکڑوں فٹ اونچے۔ جب یہ کروڑوں پودے لہراتے ہیں تو یوں لگتا ہے آکسیجن کا سونامی گندم کی خشک فصل میں زندگی کی نئی لہر دوڑانے آیا ہو۔ اس سے اچھی موسیقی اور اتنی سریلی دھن دنیا کا کوئی بھی موسیقار ترتیب نہیں دے سکتا۔ مانچسٹر سے کچھ باہر بینٹلے گاڑیوں کا شوروم ہے۔ ذرا آگے بوئنگ جہازوں کے انجن بنانے والی کمپنی ''رولز رائس‘‘ موٹر کاریں بناتی ہے‘ جس کے سب سے چھوٹے انجن کی طاقت 5000 سی سی ہوتی ہے۔ انگریز انجینئر، کار ڈیلرز اور کمپنی والے اسے 5000 سی سی نہیں بلکہ 5 لٹر انجن کا نام دیتے ہیں۔ 
برمنگھم کی طرح مانچسٹر بھی صنعتی شہر ہے۔ لندن، ویلز، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی صنعتی ضروریات تقریباً یہی دونوں شہر پوری کرتے ہیں۔ دونوں شہروں میں گوروں کا علاقہ اور ایشین کا علاقہ کہلانے والے محلے بھی ہیں۔ زون (ضلع) بھی اور وسیع و عریض مارکیٹیں بھی۔ 90 فیصد سے زیادہ ایشیائی ''کھابے‘‘ بنانے والے ایشین ہی ہیں۔ بعض مارکیٹوں میں جا کر یوں لگتا ہے جس طرح اسلام آباد کا آبپارہ، پشاور کی نمک منڈی، لاہور کا لکشمی چوک یا کراچی کی لی مارکیٹ انگلینڈ شفٹ ہو گئی ہے۔
پچھلے بریگزٹ ریفرنڈم نے ایشیائی شہریوں میں بے یقینی کی گہری لہر دوڑا دی ہے۔ نئی برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے ایشیائی باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا پہلا مرحلہ شروع بھی کر دیا ہے‘ جس کا شکار ایشیائی طالب علم ہیں۔ پاکستان کے ہزاروں طلبہ و طالبات وہاں مقیم ہیں‘ جن کی مہنگی پڑھائی کا واحد ذریعہ ان کا پارٹ ٹائم روزگار ہے۔ میں نے سفارتحانے کے ایک ذمہ دار سے پوچھا: ان پاکستانی طلبہ و طالبات کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں‘ جو تازہ ترین کریک ڈاؤن کا شکار ہو رہے ہیں؟ آپ اسے مبالغہ آرائی مت سمجھیں‘ لیکن اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے تین بڑے انگلش اخباروں کے نام لیے اور کہا: یہ خبر ان میں سرخ پٹی سے چھپ رہی ہے۔ اس پر وہ شرمندہ ہوئے اور کچھ نہ کہہ سکے۔ ایشیائی کمیونٹی بھی خاموش ہے۔ لیکن پورے انگلستان کی یونیورسٹیاں اس کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کے لیے حکومت کے سامنے آ چکی ہیں۔ انہوں نے اس غیر منصفانہ فیصلے کو غیر ضروری قرار دیا ہے‘ کیونکہ اس کریک ڈاؤن کے لیے نہ تو کوئی قانون بنایا گیا اور نہ ہی پارلیمان سے اس ایکشن کی اجازت لی گئی۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے: ایشیائی طالب علموں کی وجہ سے ہی اربوں پاؤنڈ کا تعلیمی ریونیو ملتا ہے‘ اگر یہ ریونیو کم ہوا تو پھر گورے تعلیمی ادارے برطانوی بچوں کو ہائیر ایجوکیشن کے بہت سے مضامین پڑھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس ہنگامے میں میرے لیے خوش کن حیرانی کا ایک پہلو بھی تھا۔ یہی کہ انگلستان کی سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیاں جو کچھ ایشیائی طالب علموں کی پڑھائی سے کماتی ہیں اس کا ایک خاصا بڑا حصہ یہ یونیورسٹیاں اپنے ملک کے بچوں کو مفت تعلیم،کتابیں، کپڑے اور خوراک مہیا کرنے پر خرچ کر دیتی ہیں۔ رنج کی بات یہ ہے اپنے ہاں امیروں کا دھیان ادھر نہیں جاتا۔ لامحدود دولت پر غریبوں کے حق کو بیان تو کیا جاتا ہے‘ تسلیم نہیں۔ 
مانچسٹر میں بہت سے عجائب گھر ہیں۔ صنعتی ترقی، جنگ کا میوزیم بلکہ مانچسٹر کے نواحی علاقے ٹرینٹ میں تو کمہار برادری کے نام پر پوری بستی موجود ہے۔ یہ بستی برتن سازی کے شوقین سیاحوں کی دلچسپی کا خاص مرکز بن چکی ہے۔ مانچسٹر کے خوشحال لوگ نواحی علاقے کے فارم ہاؤسز میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ فارم ہاؤس کے مالکان پر پابندی ہے کہ وہ چھوٹے سائز کا گھر تعمیر کریں۔ جو بیسمنٹ کے علاوہ دو منزلوں پر مشتمل ہو۔ فارم کی بقیہ زمین گھوڑے پال کلبوں یا دیگر زرعی سرگرمیوں اور مویشی پال مقاصد کے لیے مختص ہوتی ہے۔ اسی لیے مانچسٹر کا ماحول شدید گرمی کے دنوں میں بھی لندن کے مقابلے میں ٹھنڈا رہتا ہے۔ جنگل اور درخت بہت زیادہ بارش کھینچ کر لاتے ہیں۔
ایک اور ناقابلِ یقین بات بھی سن لیں۔ گھروں، گلیوں اور فارم ہاؤسز پر درختوں کی باقاعدہ انشورنس کی جاتی ہے۔ درخت کاٹنے کی بالکل اجازت نہیں۔ ہاں البتہ اسے شفٹ کیا جا سکتا ہے‘ یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے پھر لگا دینا۔ لندن کی ایک معروف پاکستانی فیملی نے‘ جن کا تعلق کراچی سے ہے‘ حال ہی میں ایک درخت بچایا۔ ان کے اس کارنامے کو پریس میں بھی پذیرائی ملی۔
لندن اور مانچسٹر کی میونسپل کمیٹیاں اور حکمران ہر سال شہریوں کے لیے کوئی نہ کوئی نیا کارنامہ کرتے ہیں۔ لندن میں ہر علاقے میں سائیکل کرائے پر لینے کے سٹینڈ بن گئے ہیں۔ ہر طرح کی سائیکلیں سٹینڈ پر کھڑی ہیں۔ طرح طرح کی ماڈرن ترین سائیکلیں۔ جتنی دیر کے لیے سائیکل چاہیے کرایہ ادا کریں اور سائیکل لے جائیں۔ مانچسٹر ڈیڑھ سال بعد جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں چین کی نقل میں سڑک کے ساتھ 10 فٹ کا گرین سائیکل ٹریک بن گیا ہے‘ اور اس سے آگے 8 فٹ چوڑا فٹ پاتھ۔ کچھ پب، کافی ہاؤسز اور ریسٹورنٹ شام کو کرسیاں باہر نکالنے کی اجازت لے لیتے ہیں‘ لیکن وہ بھی پیدل چلنے والے کا رستہ نہیں روک سکتے۔ عجیب لوگ ہیں! سائیکل کو پراڈو سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ کبوتر سڑک پر پیدل چہل قدمی کرے تو ٹریفک روک دیتے ہیں۔ انجمنِ تاجران کے سیاسی انویسٹرز کی بجائے پیدل عوام کو یاد رکھتے ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved