تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     02-09-2016

اٹھارہویں ترمیم اور مالی حکمتِ عملی

2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مالیاتی محاذ پر مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ مرکز کو عام وسیع البنیاد محصولات اکٹھا کرنے کا اختیار حاصل ہونے کے باوجود مالیاتی خسارے کا سامنا رہتا ہے۔ دوسری طرف صوبوں کا تمام تر انحصار این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی رقم پر ہے جو اُن کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ ضروری انفراسٹرکچر سے لے کر صحت، تعلیم، نقل و حمل، صاف پانی، رہائش وغیرہ کے لیے وسائل کی کمی اور دستیاب رقم کا زیاں، قرضہ جات (بیرونی اور اندرونی)کا بڑھتا ہوا حجم، خوفناک مالیاتی خسارہ اور اس جیسے دیگر بہت سے مسائل حکومت کے لیے کھلا چیلنج ہیں۔ بدقسمتی سے ان سے نمٹنے کے لیے کوئی مختصر یا طویل مدتی حکمت عملی موجود نہیں۔ مذکورہ بالا مشکلات کے علاوہ ریاست میں بدعنوانی، نااہلیت، اقربا پروری، اشرافیہ کے مکمل کنٹرول، صحت مندانہ مسابقت کے فقدان، آزاد مارکیٹ کی عدم دستیابی، قانون شکنی کے رجحان، انصاف کی عدم فراہمی، قرضوں پر انحصار کی پالیسی اور غیر ذمہ دارانہ اخراجات نے معیشت کو مفلوج کر رکھا ہے۔ 
اٹھارہویں آئینی ترمیم کا سب سے ضروری پہلو مقامی حکومتوں کا قیام (آرٹیکل 140A) ہے۔ چھ سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود تمام صوبائی حکومتیں خود مختار اور موثر مقامی نظامت قائم نہیں کر سکیں۔ یہ بات اب بالکل عیاں ہے کہ مقامی سطح پر انتظامی، مالیاتی اور سیاسی اختیارات تفویض کرنے کے لیے صوبائی حکومتیں تیار نہیں۔ یہ آرٹیکل 140A کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اب ایک طرف مالیاتی معاملات کے حوالے سے تصویر انتہائی تشویشناک ہے تو دوسری طرف عام لوگوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ مقامی سطح پر یہ سہولیات آرٹیکل 140A کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں۔ مقامی حکومتوں کو اپنے محصولات خود اکٹھے کرنے اور اپنے شہریوں پر خرچ کرنے کا اختیار دے کرکے مذکورہ آرٹیکل کے اصل مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 
مرکز میں ایف بی آر مکمل طور پر ناکام ادارہ بن چکا ہے۔ یہ آج تک اصل ہدف، جو آٹھ کھرب روپے ہو سکتا ہے، حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی ناکامی معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہماری برآمدات کو تباہ کرنے میں ایف بی آر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ادارہ ریفنڈز کو بلا جواز روک کر برآمدی صنعتوں کو مشکل حالات سے دوچار کر دیتا ہے۔ اب محترم وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اکیس ارب کے ریفنڈز ادا کرکے گویا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بہت بڑا احسان کیا گیا۔ درحقیقت 350 
ارب روپے سے زیادہ کے ریفنڈز ہنوز واجب الادا ہیں۔ اس کی کارکردگی اور پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ آنے والے پانچ برسوں میں بھی ایف بی آر چھ کھرب روپے جمع نہیں کر پائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہمارا مالیاتی خسارہ اور قرضوں پر 
انحصار مزید بڑھے گا۔ محصولات میں مزید اضافے سے مزید لوگ سطح غربت سے نیچے دھکیل دیے جائیں گے اور معاشی ترقی کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکے گا۔ 
اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو ہم مالیاتی خسارے اور معاشی بحران سے کبھی نہیں نکل سکیں گے کیونکہ مزید قرضے کا مطلب مزید قرض کی ادائیگی ہو گا۔ مالیاتی خسارہ میں مسلسل اضافہ حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ ہم صوبوں کو مکمل مالیاتی خود مختاری دیں اور مقامی حکومتوں کے نظام کو آرٹیکل 140A کی اصل روح کے مطابق قائم کریں۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں کو اپنے محصولات خود اکٹھے کرکے اپنے لوگوں کی بہتری اور خوشحالی پر خرچ کرنے ہوں گے، تاکہ ترقی اور خوشحالی سب کے لیے ہو، نہ کہ مخصوص افراد اور علاقوںکے لیے۔ 
مالی مرکزیت ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ مقامی سطح پر محصولات کا حصول اور مصرف خود احتسابی کے ساتھ لازم ہے۔ تمام شہریوں کو بنیادی ضروریات کے ضمن میں برابر استحقاق دیے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ معاشرتی اور معاشی حقوق کو پورا کیے بغیر ہم پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ ملک نہیں بنا سکتے۔ نمائندگی کے بغیر ٹیکس نہ لگانے کا اصول بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ حاصل شدہ محصولات کو تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے، نہ کہ صرف مخصوص علاقوں میں رہنے والی اشرافیہ کے عیش و عشرت پر۔ 
شہریوں کے لیے برابر سہولیات کا اصول اور قومی ذرائع پر سب کا حق محض تصورات نہیں ہیں۔ آئین کے اندر ان کو بنیادی حقوق کا درجہ حاصل ہے اور ان کی نفی سنگین معاملہ ہے۔ مالیاتی خسارہ اور دوسرے معاشی معاملات کا حل ممکن ہے اگر ہم محصولات میں خاطر خواہ اضافہ کریں اور غیر ضروری اخراجات سے گریز کی پالیسی اپنائیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روشنی میں پلاننگ کمیشن کا کردار مختلف ہونا چاہیے۔ قومی سطح پر معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کو اب نیشنل اکنامک کونسل (این ایف سی) کے ذریعے طے پانا چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو اپنی استعداد بڑھانی چاہیے۔ ہمیں مرکزیت کی بجائے وفاقیت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ این ایف سی بھی اب کونسل آف کامن انٹرسٹ کی طرز پر ہے، اس لیے پلاننگ کمیشن کو قومی ادارہ نہ بنا کر مرکزی ادارہ کے طور پر چلانا چاہیے۔
وزیر اعظم این ایف سی کی صدارت کرتے ہیں۔ ان کو پلاننگ کمیشن کی صدارت کی ضرورت نہیں۔ اس ادارے کا چیئرمین سی سی آئی کو مقرر کرنا چاہیے تاکہ وفاق کی مکمل نمائندگی ہو سکے۔ مرکز کو صوبوں کو مکمل نمائندگی دینا ہو گی۔ محصولات میں اضافے کے لیے انکم ٹیکس بشمول زرعی انکم ٹیکس صرف دس فیصد کے حساب سے ان تمام لوگوں سے لیا جائے جن کی آمدنی سالانہ چھ لاکھ یا زائد ہو۔ یہ اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہونا چاہئے۔ اشیا اور خدمات پر سیلز ٹیکس لگانے کا اختیار صوبوں کے پاس ہونا چاہیے مگر صرف ایک ہی ہم آہنگ ٹیکس تمام پاکستان کے لئے ہو۔ اور اس کی شرح آٹھ فیصد ہونی چاہیے۔ یہ دو ٹیکس اگر ایک قومی ادارے نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے ذریعے موثر انداز میں اکٹھے کیے جائیں تو دس کھرب روپے بہ آسانی حاصل ہو سکتے ہیں‘ جو تمام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اس طرح پاکستان اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات حا صل کر لے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved