تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     02-09-2016

نائن زیرو

کراچی میں پیر الٰہی بخش کالونی میں گھانچی شادی ہال کے ساتھ والی گلی کی چوڑائی اتنی ہی ہے کہ اگر اس میں ایک گاڑی داخل ہوجائے تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو گزرنے کا راستہ نہ ملے ۔ قیام پاکستان کے بعد جب یہ کالونی بنی تھی تو اس میں اکثر مکانات ایک سو پچانوے گز (تقریباًسوا چھ مرلے) کے تھے۔ بعد میں جب یہ مکان دوسری اور تیسری نسل کو منتقل ہوئے تو ان کا رقبہ بھی کم ہوگیا ۔ اس لیے اب یہاں اکثر مکانات کا رقبہ اسی گز (تقریباً ڈھائی مرلے) ہے۔ جس گلی کی بات ہورہی ہے اس میں شاید ایک ہی مکان ہے جو آج بھی ایک سو پچانوے گز پر قائم ہے ، اس کی بیرونی دیوار پر متحدہ قومی موومنٹ کے پرچم کے رنگوں سے سجی ایک تختی بتاتی ہے کہ اس مکان میں ڈاکٹر فاروق ستار رہتے ہیں۔ یہ دو منزلہ مکان ان کے والد نے بنوایا تھا، چونکہ ڈاکٹر فاروق ستار اپنے والد کی واحد نرینہ اولاد ہیں اس لیے ان کا مکان بغیر کسی تقسیم سے گزرے اپنے اصل رقبے کے ساتھ انہیں مل گیا۔ فاروق ستار کی والدہ بھی ان کے ساتھ اسی مکان میں رہتی ہیں اور جب سے متحدہ قومی موومنٹ کا دفتر نائن زیرو بند ہوا ہے ، سخت پریشان ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مکان جو ان کے شوہر نے اپنے چھوٹے سے خاندان کے لیے بنایا تھا آج کل متحدہ قومی موومنٹ کا مرکزی دفتر بن چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکن اس گھر میں دندناتے پھرتے ہیں اور یہ بزرگ گجراتی خاتون انہیں اردو میں ڈانٹتی رہتی ہیں ، اگر فاروق ستار نظر آجائیں تو انہیں گجراتی میں صلواتیں سناتی ہیں کہ چھوٹا سا گھر تھا‘اسے بھی دفتر بنا دیا۔
اس نام نہاد دفتر میں اگرچہ فاروق ستار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کی نوعیت عام سیاسی رہنماؤں سے بالکل الگ ہے۔ وہ ہر مسئلہ بڑی توجہ سے سنتے ہیں، ساتھیوں سے مشورہ مانگتے ہیں اوراپنا فیصلہ بھی مشورے کی صورت میں ہی دیتے ہیں، گویا پوچھنے والا قبول کرلے تو ٹھیک اور اگر اپنی مرضی کرنا چاہے تو بھی ٹھیک۔ وہ جماعت جو چند دن پہلے تک الطاف حسین کے اشارئہ ابرو پر چلتی تھی، اب باہمی مشاورت پر چل رہی ہے۔ وہ لوگ جو پہلے صرف سنتے اور مان لیتے تھے اب اپنی بات کرتے ہیں ، اپنے نئے سربراہ کے تجزیے سے کھل کر اختلاف کرتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں اور آخر میں جو فیصلہ ہوتا ہے اسے خوش دلی سے مان لیتے ہیں۔ یہ اندازِ کار ایم کیو ایم کے اکثر کارکنوں کے لیے نیا بھی ہے اور حوصلہ افزا بھی۔ مشاورت در مشاورت کی وجہ سے وہ کارکن بھی جو الطاف حسین کے سوا کسی دوسرے کا نام تک سننے کے لیے تیار نہیں تھے ، اب فاروق بھائی ، فاروق بھائی کرتے نظر آتے ہیں، اور وہ لوگ جوپارٹی ڈسپلن کے نام پر بے جا جکڑ بندیوں سے نالاں ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے تھے‘ اب واپس آرہے ہیں ۔ 
ایم کیو ایم کے کارکن خود کو ایسے منجدھا ر سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں اس کے قائد نے انہیں لا پھنسایا ہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور پارٹی کے سرکردہ اراکین اپنی جان مار کر کارکنوں کو متحد رکھ کر قدم قدم آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسے ستم ظریفی کے سوا کیا کہیے کہ پارٹی کو یہاں تک لانے میں الطاف حسین کے پاس تو ہر قسم کے مالی و مادی وسائل موجود تھے لیکن اس مصیبت سے نکالنے والوں کو ان وسائل کا عشرِ عشیر بھی میسر نہیں۔ مثال کے طور پر ایم کیو ایم کی ذیلی تنظیم خدمتِ خلق فاؤنڈیشن کوملنے والے چندے کا کچھ حصہ سیاسی کاموں کے لیے استعمال ہوتا تھا جو اب دسترس میں نہیں رہا۔ اس لیے پارٹی کے روز مرہ اخراجات کے لیے بھی لیڈروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کا مرکزی دفتر نائن زیرو بند ہونے سے وہاں کا سارا انفراسٹرکچر کسی دوسری جگہ بنانے کے لیے بھی کثیر وسائل درکار ہیں ، جو فی الحال دستیاب نہیں۔ اس مشکل کا اندازہ یوں لگائیے کہ نائن زیرو کے شہرت یافتہ میڈیا سیل کی جگہ اب عطیے میں ملی تین ٹی وی اسکرینیں ایک کارکن کے گھر میں لگا کر کام چلایا جارہا ہے۔ اس طرح سٹیشنری، ریکارڈ، کمپیوٹر، ذمہ داروں کے بیٹھنے کی جگہ ، اجلاس کرنے کے لیے کسی مناسب کمرے سمیت کچھ بھی ۔ان کے پاس موجود نہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ نائن زیرو پارٹی طاقت کا مظہر بھی ہے اور جب تک یہ نہیں ملتا پارٹی کی طاقت اور اس پرنئے رہنماؤں کی گرفت کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ 
نائن زیرو کے بارے میں فاروق ستار اور ان کے رفقاء کی رائے تو یہ ہے کہ اسے فوراً ان کے حوالے کردیا جائے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نزدیک یہ عمارت اور اس کے گردو نواح کے کچھ مکانات صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی نہیں بلکہ مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ان اداروں کے پاس کچھ ایسے شواہد بھی ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ نائن زیروہ ہمیشہ سے مجرمانہ سرگرمیوں سے کسی نہ کسی طرح جڑا رہا ہے۔ اسی لیے آج سے چھ مہینے پہلے جب رینجرز نے نائن زیرو پر چھاپا مارا تھا تو اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین نے رینجرز پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ اسے ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے۔ اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے سندھ کے گورنرڈاکٹر عشرت العباد حرکت میں آئے اور انہوں نے نائن زیرو پر تالے ڈالنے کے خواہشمندوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ان کی کوششوں کا آخری حصہ وہ ٹیلیفون کال تھی جو انہوں نے سندھ رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل بلال اکبر کو کی۔ گورنر ہاؤس اورجناح کورٹس (سندھ رینجرز کا ہیڈ کوارٹر) کے درمیان ہونے والی اس دس منٹ دورانیے کی کال میں فیصلہ ہوگیا کہ نائن زیرو کو مستقل بندکرنے کی بجائے واپس ایم کیو ایم کے حوالے کر دیا جائے گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو توقع تھی کہ نائن زیرو پر چھاپے کے بعد ایم کیو ایم اپنے مرکز کو ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمی سے پاک کردے گی لیکن اس طرح کی اطلاعات ملتی رہیں کہ اس مرکز کے گردو نواح کے کچھ مکانات میں ایسے لوگوں کی آمدو رفت ہے ، جو کسی نہ کسی جرم میں پولیس کو مطلوب ہیں۔ الطاف حسین کی بائیس اگست کو انتہائی متنازع تقریراور نعروں نے ایک بار پھر وہ موقع پیدا کردیا کہ نائن زیرو ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکل گیا۔ 
اس بار بھی کراچی اور اسلام آباد کی حکومتوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ایم کیو ایم کی طرف سے الطاف حسین کے ساتھ لاتعلقی کے اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور ایم کیو ایم پر مستقل طور پر پابندی لگوانے میں ناکامی کے بعد اہلِ اختیار کو نائن زیرو ہمیشہ کے لیے سیل کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس طرح کے مشوروںکو صوبائی حکومت کوئی اہمیت دے رہی ہے نہ وفاقی حکومت اور ان دونوں حکومتوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ نائن زیرو بدستور ایم کیو ایم کی تحویل میں رہے گا اور آئندہ چند ہفتوں میں اپنے ساز وسامان سمیت فاروق ستار کے حوالے کر دیا جائے گا۔ پھر ایم کیو ایم کارکنوں کو فاروق ستار کی والدہ کی ڈانٹ بھی نہیں سننا پڑے گی اور وہ اپنے دفتر سے اپنی پارٹی کے معاملات قانون اور دستور کے دائرے میں چلانے لگیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved