تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     03-09-2016

مچھر کا کاٹا

کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈسا پانی نہیں مانگتا حالانکہ اکثر سانپ بے ضرر ہوتے ہیں۔ اسی طرح مچھر کی ساڑھے تین ہزار اقسام ہیں جن میں کاٹنے والے مچھر کی اقسام دو سو کے لگ بھگ ہیں۔ ہر سال لاکھوں لوگ مچھر کے پھیلائے ہوئے وائرس سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ گزشتہ عشرے میں ساٹھ لاکھ افراد ملیریا سے مارے گئے۔ بل گیٹس وضاحت کرتے ہیں کہ اس بیماری سے آدھی دنیا کے ناپید ہونے کا اندیشہ ہے اور سالانہ اربوں ڈالر کی پیداواری صلاحیت ضائع ہوتی ہے۔ فلوریڈا میں زیکا وائرس کے پھیلنے سے حاملہ عورتیں خطرے میں گھر گئی ہیں اور ان میں سے کچھ '' شاہ دولے شاہ‘‘ کے ''چوہے‘‘ پیدا کرنے والی ہیں۔ اب تک سارے امریکہ میں سترہ ہزار مریضوں کی اطلاع دی گئی ہے اور ان میں سے اٹھارہ ہزار کیس ملک کے ایک ساحل سے دوسرے تک رپورٹ ہوئے ہیں۔ مچھر مغربی نیل کا وائرس‘ ڈینگی بخار اور دوسری وبائیں پھیلانے کے قصوروار سمجھے جاتے ہیں۔
پاکستان میں مون سون زوروں پر ہے۔ کراچی‘ لاہور اور دوسرے شہروں میں بارش ہوتی ہے تو نکاسی آب کا نظام اگر ہے تو جواب دے جاتا ہے اور جگہ جگہ گندے پانی کے چھو ٹے بڑے جوہڑ پیدا ہوتے ہیں۔ عام رائے کے مطابق کاٹنے والے مچھر گرم موسم اور نمناک جگہوں کو دلکش پاتے ہیں یعنی ٹھہرے ہوئے پانی کو انڈے دینے کے لئے موزوں خیال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس سے مچھر کی آبادی میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بہت سی اقسام کو افزائش کے لئے کوئی جوہڑ درکار نہیں ہوتا۔ ان کے لئے انسان کا قرب کافی ہے۔ انہیں انسان کا خون پینا ہوتا ہے۔ مچھر کی ایک قسم پرانی بالٹیوں یا برتنوں میں‘ جن میں پانی کھڑا ہوتا ہے اور جن کے کنارے خالی ہوتے ہیں‘ انڈے دے دیتی ہے۔ وہ از کار رفتہ گملوں‘ ٹائروں‘ کھلونوں اور خالی کوڑے دانوں کو‘ جو ہمارے گھر کے پچھواڑے پڑے رہتے ہیں‘ افزائش نسل کے لے ضروری سمجھتے ہیں۔ جونہی انڈے سیتے ہیں‘ لاروا گندے پانی میں گر جاتا ہے جہاں مچھر پلتے بڑھتے ہیں۔
مادہ مچھر یہ نہیں دیکھتی کہ وہ مرد کو کاٹ رہی ہے یا عورت کو‘ وہ تو خون چوسنے کے لئے نکلتی ہے جو انڈہ دینے کے لئے ضروری ہے۔ ایک ٹیلی وژن نے وضاحت کی کہ کاٹنے والے مچھر تو CO2 پر آتے ہیں جو ہم سب خود بخود پیدا کرتے ہیں۔ویب سائٹ بگ آف ڈاٹ کام کا کہنا ہے کہ یہ محض افسانہ ہے کہ مچھر اپنا شکار چنتے ہیں مگر تحقیق سے پتہ چلا کہ کچھ مچھر بعض اقسام کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے بنیادی طور پر شکار کرنے کے لئے بو پر انحصار کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مادہ مچھر انسانی جسم سے اٹھنے والے بو پر اڑ کر جاتی ہے اور ایک مطالعہ کے مطابق حاملہ عورت اسے زیادہ مرغوب ہے جو ملیریا کے جراثیم اٹھائے پھرتی ہے۔ ایک اور مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ بیر کا استعمال شکار کی دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جسم کی بو کے لئے اپنی خوراک میں تبدیلی کر لیں۔ مثال کے طور پر آپ لہسن کا استعمال بڑھا کر یا وٹا من بی کھا کر مچھر سے بھاگ نہیں سکتے۔ پھر بھی اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ بعض لوگ کیوں دوسروں سے زیادہ مچھر کا شکار ہوتے ہیں۔
زیکا کی وبا پھیلی تو امریکی محکمہ صحت نے حاملہ عورتوں کو اندر رہنے کا مشورہ دیا۔ بیشتر عمارتیں ائرکنڈیشنڈ تھیں مگر پاکستان کی طرح فلوریڈا‘ ٹیکسس اور پورٹو ریکو میں زیادہ تر گھر ائرکنڈیشنڈ نہیں تھے۔ کچھ مثلاً Aedes Aegypti مچھر‘ جو ڈینگی کا وائرس لے کر اڑتا ہے‘ گھروں اور یارڈوں کے کونوں کھدروں میں رہ سکتے ہیں۔ ایک شخص نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا: ''ان دنوں مچھروں کی یلغار گھر کے باہر کی نسبت گھر کے اندر زیادہ ہے۔ ہمارے گھر میں مچھر دانیاں ہیں۔ ہم گھر کو بند رکھتے ہیں اور کھڑکیاں بھی نہیں کھولتے مگر یہ اندر سے نکل پڑتے ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ خطرناک علاقوں میں لوگوں بالخصوص بچوں کو مچھر دانیوں میں سونے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں غریبوں کو مچھر دانیاں میسر نہیں اور وہ مچھروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ عیدالاضحی سے قبل شہر شہر قربانی کے جا نوروں کی جو عارضی منڈیاں لگی ہیں وہاں مچھروں کی بھرمار ہے مگر رکھوالے باہر سونے پر مجبور۔
انٹرنیٹ مچھر کو بھگانے کی ترکیبوں سے پْر ہے۔ اس سلسلے میں چائنا ایلی منٹ کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ الیکٹرک سٹوو کے ایلی منٹ سے ملتا جلتا ہے مگر اس آہنی چکر کے مقابلے میں آگ لگانے والے مواد سے بنتا ہے اور بہت کمزور ہوتا ہے۔ مچھر مارنے کے معاملے میں بھی لاغر ثابت ہوتا ہے۔ کیمیکلز میں سٹرونیلا تیل اور موم بتیوں کا نام آتا ہے۔ میرے والد‘ جو حکمت کرتے تھے‘ بچوں کو تیل کی ما لش کا مشورہ دیتے تھے۔ تیل کا تو پتہ نہیں مگر موم بتی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک تیل صرف موم بتی کی حفاظت کرتا ہے۔ ایک ہدایت یہ ہے کہ پانی کا ایک کٹورا لو اس پر لسٹرین کا چھڑکاؤ کرو یا لیموں نچوڑو اور سرہانے رکھ کر مچھروں کو بھول جاؤ۔ مچھر پھر بھی آپ کے کان پر گنگنانے لگتے ہیں۔سنتے ہیں کہ الْو مچھر کو کھا جاتے ہیں مگر ایک الْو کتنے مچھر کھائے گا اور عام آدمی اتنے الْو کہاں سے پکڑے گا؟
محکمہ ماحولیات کے‘ جو اب پاکستان میں بھی ہے‘ منظور کردہ جسم کے سپرے البتہ کچھ کام دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ ایک ماہر نے کہا‘ دنیا بھر میں کی جانے والے تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نباتات پر مبنی چھڑکاؤ کم تحفظ مہیا کرتے ہیں۔ بہ نسبت پکارڈین Picaridin کے‘ جو مچھروں کو بھگانے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ کافی نہیں کہ مچھر کے کاٹے کی حفاظت سوتے وقت ہی کی جائے۔ مچھروں کی بعض اقسام مثلاً مغربی نیل کا وائرس چھوڑنے والے مچھر اندھیرا ہوتے ہی انسان پر حملہ کر دیں گے لیکن کئی دوسرے جن میں ملیریا کا جرثومہ پھیلانے والے مچھر بھی شامل ہیں‘ دن دیہاڑے کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔
جانی اتلاف اور اقتصادی زیاں سے خیال آتا ہے کہ کیوں نہ مچھر کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے؟ مگر ایسا کرنا بھی پْرخطر ہو گا۔ پہلی بات یہ کہ سب مچھر انسان کو نہیں کاٹتے۔ دوم‘ مچھر کی حیات میں خاصی لچک ہے۔ سوم وہ انسانی بستیوں سے گہرے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان سب کو مارنے کے لئے محکمہ ماحول کے سپرے کافی نہیں کیونکہ ان کے غلط استعمال سے قدرتی ماحول اور انسانی صحت کو بھاری خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں جینیاتی عمل کے ذریعے مچھر کی بعض اقسام کو بانجھ کر دیا جائے مگر یہ بھی ایک چیلنج ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved