تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     03-09-2016

متفرقات

بے ہنگم ریوڑ:آج کل ہمارا میڈیا قوم کوسَمت ومقصد سے عاری نامعلوم منزل کی طرف لیے جارہا ہے ،اچانک کسی مسئلے پر میڈیا میں مسابقت کی ایک روچل پڑتی ہے اور شوروغوغا میں کچھ سنائی نہیں دیتا،اِسی کو ہمارے اردو محاورے میں ''بھیڑچال ‘‘کہتے ہیں۔ ہمارے اکابر میں سے ایک بڑے عالم علامہ مُلا علی القاری نے ''شفاقاضی عیاض‘‘کی شرح میں لکھا ہے:ایک روایت میں ہے : لوگ دو قسم کے ہیں،ایک وہ جو صاحبانِ علم ہیں اور دوسرے وہ جو طالبانِ علم ہیں ۔ان کے علاوہ ایک تیسرا طبقہ بڑی تعداد میں ہے جو ایک بے سَمت ریوڑ کی مانند ہے ،جس کا کوئی چرواہا نہ ہواور وہ سب ایک دوسرے کے پیچھے سوچے سمجھے بغیر چل رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی کوئی پروا نہیں ہے ۔سنن دارمی:323 میں اِسی سے ملتے جلتے الفاظ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن معدان کے اقوال نقل کیے گئے ہیں ،حضرت علی سے کسی نے پوچھا:''العامّۃ ‘‘سے مراد کون لوگ ہیں؟،آپ نے فرمایا:انسانوں کا ایسا ریوڑ جس کا کوئی چرواہا نہ ہواور اُن کا حال یہ ہو کہ ہر آواز دینے والے کے پیچھے چل پڑیں اور انہوں نے علم کی کوئی روشنی حاصل نہ کی ہو اور نہ ہی کسی رہنما یا پیشوا سے پختگی کے ساتھ وابستہ ہوں ،(حلیۃ الاولیاء:243)‘‘۔ایسے لوگوں کے لیے ''غوغا‘‘کا لفظ بھی تجویز کیا گیا ہے ، جو فضول گفتگو میں ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کریں اور جب ایک دوسرے سے جدا ہوں تو معلوم نہ ہو کہ کیا حاصل ہوا۔ ''الغوغا‘‘عربی میں ''غوغائُ الجَراد‘‘(یعنی ٹڈیوں کا لشکر)سے ماخوذ ہے ،جوبے ہنگم اور بے مقصدایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں ،جب پلٹتے ہیں تو ماحَصَل کچھ نہیں ہوتا۔علامہ اقبال نے ہماری عید کا نقشہ بھی انہی الفاظ میں کھینچا ہے:
عیدِ آزاداں، شِکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں، ہجومِ مؤمنیں
جنابِ عمران خان سے اُن کے جاں نثاروںکا گلہ:جنابِ عمران خان تبدیلی اور احتساب کے نعرے کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اُن کی خوش قسمتی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اُن کے ہمدرد اور جاں نثار کافی تعداد میں موجود ہیں ۔اقتصادی بدحالی اورصنعتی زوال کے اس دور میں قومی معیشت کے جو شعبے غیر معمولی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ،اُن میں آزاد الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا ، پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم کی تجارت وصنعت ، صحت کی صنعت ، ریئل اسٹیٹ اور آئی ٹی کی صنعت شامل ہیں ۔اِن پر بارانِ رحمت کی طرح اِس تیزی سے ہُن برس رہا ہے کہ اکیسویں صدی سے پہلے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔بعض خوش نصیب لوگوں کے لیے یہ تبدیلی ناقابلِ یقین حد تک نعمتِ عُظمٰی بن کر نمودار ہوئی اوردانش فروشوں کا لشکرِ جرّار پورے طمطراق کے ساتھ حملہ آور ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری صحافت کے ماضی کے ہیرو ،مثلاً: مولانا محمد علی جوہر ،مولانا ظفر علی خان اورجنابِ حمید نظامی اگر آج ہوتے تو اِن اہلِ دانش کے سامنے پانی بھر رہے ہوتے اور روزی روٹی کے لیے کسی اور شعبے میں پائے جاتے ،وہ اپنے آپ کواِس شعبے میں Unfit یا Misfitسمجھ کرگوشہ نشین ہوجاتے۔
قرونِ اُولیٰ میں جب جنگی سورما تیروتفنگ اور شمشیر وسناںکے ساتھ آمنے سامنے نبرد آزما ہوتے تولشکر کے کئی حصے ہوتے تھے : ایک مَیمنہ(Right wing)،دوسرا مَیْسَرہ(Left wing)،تیسرا قلب یعنی لشکر کا مرکزیہ یا دل،چوتھا عَقَب(Backing Troops) اور سب سے اہم مُقَدِّمۃُ الْجَیش (Advance Troops)ہوتا ۔مُقَدِّمَۃُ الْجَیش لشکر کے آگے جاتا، دشمن کی ریکی کرتا، میدانِ جنگ اور مورچے کے لیے مناسب جگہ کی رہنمائی کرتا ،دشمن کی پوزیشن سے آگاہ کرتا اور دشمن کا سامنا ہونے کی صورت میں جنگ کرتا،یہ لشکر کا ایک اہم حصہ ہوتا تھا ۔آج کل جنابِ عمران خان کے مُقَدِّمَۃ الجیش ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مورچوں میں تشریف فرما ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک ماہر تجزیہ کار اینکر پرسن پی ٹی آئی کے ترجمان جنابِ نعیم الحق سے جارحانہ انداز میں سوال کر رہے تھے کہ تحریکِ احتساب چل رہی ہے اور خان صاحب حج پر جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ،گویا :ایں چہ بوالعجبی است ۔ الغرض اُن کے نزدیک حج اتنی اہم چیز نہیں ہے ، حج تو ہوتا رہتا ہے ،خان صاحب پر فرض سہی ،لیکن تحریک کی اہمیت حج سے زیادہ ہے۔ حالانکہ خان صاحب ویسے بھی3ستمبر کو اپنے دعوے کے مطابق انسانوں کا سونامی یا سمندر موجزن کرنے والے ہیں ۔لیکن شاید ہمارے تجزیہ کار کی خواہش یہ ہو کہ ایک بار طلاطم خیز سمندر موجزن ہوجائے، تو پھرلازم ہے کہ اُس کی لہریں ماند نہ پڑیں ،ابھرتی چلی جائیں اوراپنی راہ میں حائل ہرکوہِ گراں کو بہا لے جائیں۔اگر خان صاحب اللہ تعالیٰ کے فریضے کو مُقدَّم جان کر حج کے لیے چلے گئے ،تو ہمیں اپنے دانش ور دوست سے ہمدردی ہوگی۔خان صاحب کواِن ماہرینِ فقہِ تحریکات سے وقتاً فوقتاً تازہ ترین فتوے لینے چاہییں تاکہ اُن پر تحریک سے انحراف کا فتویٰ نہ لگے ۔
اِسی طرح ایک اور دانشور کا کالم پڑھا:وہ بھی خان صاحب پر برس رہے تھے کہ انہوں نے جنابِ شیخ رشید احمد کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کیوں نہ بنایاتاکہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کوناکوں چنے چبوادیتے۔اُن کے نزدیک قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اورتیسری بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو اپنی اپنی برتری کی نفی اور اپنی نا اہلی کا اعلان کر کے جنابِ شیخ صاحب کے سامنے سرنگوں ہوجاناچاہیے تھا، لیکن نہ جانے انہوں نے بروقت ان صاحبِ دانش سے مشورہ کیوں نہ کیا، اُن کے خیال میں ایم کیو ایم جنابِ شیخ کے ہاتھ پر غیر مشروط بیعت کرنے کے لیے تیار تھی۔ہم اہلِ کراچی کی محرومی یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو بَرت ہم رہے ہیں ، پروفیسر رفیق اختر کے الفاظ میں ہم اہلِ کراچی پر بیت رہی ہے ،لیکن ایم کیو ایم کے اکثر ماہرین لاہور اور اسلام آباد میں پائے جاتے ہیں،خواہ انہیں جنابِ الطاف حسین کی کیمسٹری کی ہوا تک نہ لگی ہو۔یہ ایسا ہی ہے کہ جنوری2013ء میں پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اپنی خوش فہمی میں نائن زیرو تشریف لائے ،اُن کا شانداراستقبال ہوا اور ایم کیو ایم کی قیادت اور جاں نثاروں کو متأثر کرنے کے لیے انہوں نے ایک انتہائی پرجوش اور ساحرانہ خطاب فرمایاتاکہ یہ سب اُن کے دستِ اقدس پر بیعت کر کے اُن کی تحریک کا حصہ بن جائیں ،لیکن حضور والا!جنابِ الطاف حسین: چیزے دیگر است۔ ؎
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہوا
میر تقی میر نے کہا ہے: ؎
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے 
ایم کیو ایم کے نظم میں رابطہ کمیٹی ،انتظامی کمیٹی ،وفاقی وصوبائی وزراء(اگر ہوں)،سینیٹ، قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین اورکونسلر و یوسی چیرمین سے لے کر میرِشہر(Mayor) تک تمام منتخب ذمے داران کی حیثیت اعتباری ہے۔ یہ سب اس مقولے کا مصداق ہوتے ہیں: ''میں اپنے گھر کا مالک ومختارہوں اور یہ بات میں اپنی بیگم کی اجازت سے کہہ رہا ہوں‘‘۔ طاقت کااصل مرکزومحور یونٹ اور سیکٹر انچارج ہوتے ہیں اور ان کی وفاداری براہ راست قائد تحریک سے ہوتی ہے۔ نتائج سے بے نیاز ہوکر وہ قائد تحریک کے حکم پرسب کچھ کرگزرتے ہیں،باقی سب کی ذمے داری ان کو تحفظ دینا ہے ۔اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ حق وباطل سے بالا تر ہوکر بندے کا بندے کے ساتھ یہ رشتۂ وفا کیوں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ، سامری نے اسی ذی شعوربنی آدم سے بچھڑے کی عبادت کرائی ۔کہاجاتا ہے کہ شداد اور حسن بن صباح نے بھی اپنی اپنی جنت بنائی تھی ، جہاں ان کے حوروغلمان اورعشرت کے سارے سامان تھے، ہٹلر اور مسولینی تو کل کی بات ہے۔قائدِ تحریک کے نام پر لوگ کیا سے کیا ہوگئے ،علامہ شاہ احمد نورانی کہاکرتے تھے: ؎
ایسے ویسے، کیسے کیسے ہو گئے
کیسے کیسے، ایسے ویسے ہو گئے
اجمل خٹک کشرکا شکوہ:جنابِ اجمل خٹک کِشر نظریاتی اعتبار سے نیشنلسٹ ہیں ، اردو اچھی لکھتے ہیں ،اس لیے جب بھی موقع ملتا ہے، اُن کے نظریات سے آگہی کے لیے اُن کا کالم پڑھ لیتا ہوں۔انہوں نے حال ہی میں کرکٹر یونس خان کے حوالے سے شکوہ کیا ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یونس خان پاکستان کرکٹ کی دنیا میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے جس پذیرائی کے مستحق تھے، وہ انہیں نہ مل سکی۔بادیُ النظر میں جنابِ اجمل خٹک کشرکا شکوہ درست ہے ،کیونکہ کرکٹ ریکارڈ کے حوالے سے بہر حال اُن کا استحقاق بنتا ہے ۔ ٹیسٹ میچوں میں وہ ریکارڈ کے حامل دوسرے کھلاڑیوں کے مقابلے میں نسبتاً کم میچ کھیل کر پاکستان کے سب سے زیادہ رنز اور سنچریاں بنانے والے کھلاڑی ہیں ،مگر ان کواستحقاق کے مطابق داد و تحسین نہیں ملی۔اشتہاری صنعت کے لوگوں نے بھی ان کو کما حقہ پذیرائی نہیں دی ۔پس اجمل خٹک کشرصاحب کو میرا مشورہ ہے کہ جنابِ نصر اللہ خان خٹک مرحوم کے بعد اُن کے قبیلے کے دوسرے فرد جنابِ پرویز خان خٹک آج کل صوبۂ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ ہیں اورپاکستانی کرکٹ کے ہیرو جنابِ عمران خان صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ ہیں ،ان دونوں کو متوجہ کیجیے کہ یونس خان کو اُن کے استحقاق کے مطابق پذیرائی دیں ، انعام واکرام سے نوازیں، ویسے بھی یونس خان کا تعلق پرویز خٹک صاحب کے پیش روحیدرخان ہوتی کے ضلع مردان سے ہے اور اُن کی قیادت میں2009میں پاکستان نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ بھی جیتا ہے ۔
پسِ نوشت:عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ زبانی طلاق معتبر نہیں ہے ۔اُن کے تمام تر احتراماتِ فائقہ کے ساتھ گزارش ہے کہ سَلَف سے خَلَف تک زبانی طلاق معتبر چلی آتی رہی ہے اور مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک مُسلَّم ہے ،بلکہ اصل انشائِ طلاق زبانی ہی ہوتی ہے ،تحریر ضرورتاً معتبر مانی گئی ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved