تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     03-09-2016

داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں!

جہلم اور بوریوالا کے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت بال بال بچی ۔ جہلم میں آٹھ ہزار اور بوریوالا میں صرف ایک ہزار ووٹوں کی جیت پر بھنگڑے نہیں غوروفکر درکار ہے۔ جہلم کا حلقہ بالخصوص پاکستانی روایتی اور خاندانی سیاست کی بہترین مثال تھا۔ تحریک انصاف نے جس طرح مشرف اور زرداری کی باقیات کو یہاں سپورٹ کیا‘ اس سے اس کی تبدیلی کی گاڑی کا آخری ٹائر بھی پنکچر ہو گیا۔ گزشتہ عام انتخابات میں این اے 53جہلم میںمسلم لیگ ن کے نوابزادہ اقبال مہدی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی وفات کے بعد یہ سیٹ خالی ہوئی تو ان کے صاحبزادے راجہ مطلوب مہدی پارٹی قائدین کا حسن انتخاب ٹھہرے۔ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے مرزا سعید جہلمی تھے‘ اس مرتبہ انہوں نے اپنے بیٹے مرزا جہانگیر کو پیپلزپارٹی کی ڈوبتی ہوئی کشتی میں سوار کر کے سمندر میں دھکا دے دیا۔ تیسرے نمبر پر ووٹ فواد چودھری نے ق لیگ کی ٹکٹ پر حاصل کئے تھے‘ جو اس سے قبل پیپلزپارٹی میں تھے اور اس سے قبل مشرف کے ہمقدم جبکہ موجودہ ضمنی انتخاب میں وہ پی ٹی آئی کے تبدیلی کنٹینر پر سوار ہو کر میدان میں اترے چنانچہ یہاں سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستانی سیاست میں بال برابر تبدیلی نہیں آ سکی‘ سیاست میں کچھ بھی اول و آخر نہیں ہوتا اور یہ نظریات ‘ تبدیلی وغیرہ ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف عوام کو دکھانے کے لئے مخصوص ہیں۔ پی ٹی آئی عادت کے مطابق دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے۔ ان میں کوئی صداقت ہوئی تو دوبارہ ووٹوں کی گنتی میں سامنے آ سکتی ہے۔ فواد چودھری کو البتہ یہ معلوم تھا کہ اس نشست پر جیتنا آسان نہیں کیونکہ اس نشست سے1988 ء سے 1997ء تک راجہ مطلوب مہدی کے والد نوابزادہ اقبال مہدی مسلسل ن لیگ کی ٹکٹ پر مسلسل کامیاب ہوتے رہے ۔ 2002 ء کے انتخاب میں بی اے کی شرط کے باعث اقبال مہدی الیکشن میں حصہ نہ لے سکے اور یہاں سے مسلم لیگ ن 
کے راجہ اسد خان کامیاب قرار پائے ۔ راجہ اسد خان جو مسلم لیگ ن کے راجہ افضل کے صاحبزادے تھے وہ 2008ء میں بھی اس نشست سے کامیاب ہوئے ۔ بعدازاں 2013ء کے انتخابات میں نوابزادہ افضل مہدی دوبارہ امیدوار بنے اور انہوں نے ایک لاکھ 16 ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ یہ حلقہ بنیادی طور پر مسلم لیگ ن کا ہے ۔ اس حلقہ میں اثر و رسوخ رکھنے والی ایک اور اہم شخصیت راجہ محمد افضل ہیں جو ماضی میں ن لیگ کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنے اور بعدازاں ان کے بیٹے بھی یہاں سے کامیابی حاصل کرتے رہے ۔ماضی قریب میں ایک صوبائی ضمنی انتخاب میں ان کے پارٹی قیادت سے اختلاف پیدا ہوگئے۔ یہاں سے مسلم لیگ ن نے چودھری خادم حسین کو ٹکٹ دے دیا جس پر صوبائی ضمنی انتخاب میں راجہ افضل نے خود چودھری خادم حسین کے مقابلہ میں آنے کا اعلان کیا۔پارٹی قیادت راجہ افضل کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی،لہٰذا سیٹ اوپن کردی گئی لیکن راجہ افضل بری طرح ہار گئے ۔ یہ ناراضگی بھی حالیہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب سے قبل دور ہو گئی اور راجہ افضل بھی مسلم لیگ ن کے حق میں سرگرم رہے۔ یہاں ق لیگ کا فیکٹر ن لیگ کی سپورٹ میں ہونے کی وجہ سے نقصان کا احتمال کم تھا، لہٰذا اس انتخاب کو اس لئے دلچسپی کا حامل قرار دیا جا رہا تھا کہ فواد چودھری جو یکے بعد دیگرے تین جماعتیں بدلنے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے میدان میں اترے تھے ‘اپنا اور خاندانی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ عامر لیاقت کی طرح وہ بھی کئی کشتیوں کے سوار ہیں۔ ٹی وی اور سیاست ساتھ ساتھ چلانا چاہتے ہیں۔ ان کا مقابلہ راجہ مطلوب مہدی سے تھا اور یہ سیٹ نوابزادہ اقبال مہدی کی وفات سے خالی 
ہوئی‘ جن کے ساتھ بہر حال لوگوں کی ہمدردی کا فیکٹر بھی تھا اور اسی لئے یہاں ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ یہاں مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز بھی آئے اور تحریک انصاف کے عمران خان نے بھی میدان لگایا۔الیکشن کمیشن نے پہلے ان کو روکا پھر خلاف ورزی پر شوکاز 
نوٹس بھی جاری کئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں کیلئے حلقہ کتنا اہم تھا۔ ایک اور دلچسپ امر یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کا امیدوار صرف ساڑھے چار ہزار ووٹ لے سکا یوں یہ ثابت ہو گیا کہ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے صفایا ہو چکا ہے اور یہ صرف سندھ تک محدود ہو چکی۔آج حالت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ٹکٹ لے کر پھرتی ہے اور کوئی اس پر انتخاب لڑنے کی ہامی بھرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسرا ضمنی انتخاب بورے والا کے حلقہ پی پی 232 کا تھا۔ یہاںگزشتہ عام انتخابات میں آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی ‘ اس ضمنی انتخاب میں ن لیگی امیدوار یوسف کسیلیہ نے مدمقابل پی ٹی آئی کی امیدوار عائشہ نذیر جٹ کو 1056 ووٹوں سے شکست دی۔ یوسف کسیلیہ نے 51323 جبکہ عائشہ نذیر جٹ نے 50267 ووٹ حاصل کئے ۔
جیت کے باوجود ان دونوں حلقوں کے نتائج حکمران جماعت کے لئے پریشان کن ہیں۔ پنجاب اور مرکز میں نون لیگ کی حکومت ہوتے ہوئے اور تمام وسائل یہاں جھونکنے کے بعد بھی اتنے کم مارجن سے جیت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں اصل مقابلہ نون لیگ اور پی ٹی آئی میں ہو گا۔ پی ٹی آئی کا کلین سویب کا خواب تو پورا نہیں ہو گا لیکن وہ پہلے سے کچھ زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی۔ نون لیگ کے ووٹ اور نشستیں البتہ کم ہو جائیں گی۔ فی الوقت تحریک انصاف دوبارہ سڑکوں پر ہے ۔ اس کی کوشش ہے کہ اپنے حریف پر زیادہ سے زیادہ الزام تراشی کر کے عوام کو بدظن کیا جائے اور یوں ووٹ بینک بڑھایا جائے ۔ مسلم لیگ ن کی پالیسی البتہ مختلف ہے۔سی پیک کی تکمیل اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ‘ یہ دو کام ہی اگر آئندہ انتخابات سے قبل کر لئے گئے تو حکمران جماعت کو بے پناہ ملکی اور غیر ملکی سپورٹ حاصل ہو جائے گی۔ صرف گوادر فری زون میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ بھارت اور امریکہ کا گزشتہ دنوں معاہدہ اگرچہ سی پیک کے لئے بڑا خطرہ ہے لیکن آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دبنگ اعلان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھارتی عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ترجمان پاک فوج جنرل عاصم سلیم باجوہ کی حالیہ پریس کانفرنس بھی معمول سے طویل اور اہم تھی۔پاک افغان سرحد کی مکمل نگرانی اگر ممکن ہو گئی تو واقعتاً بھارت اور افغانستان کو دراندازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔د ہشت گردی جو پہلے ہی کم ہو چکی ہے‘ مزید کم ہو گئی تو امن و امان بہتر ہونے سے معیشت بھی بہتری کی جانب چل پڑے گی اوریہ فیکٹر بھی بہرحال حکمران جماعت کے حق میں جائے گا۔ حکمران اور ملٹری پہلے ہی ایک پیج پر ہیں‘ ان کا ساتھ مزید تگڑا ہو جائے گا۔ تحریک انصاف جو صوبائی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ چکی ہے‘ زمینی حقائق پر اسے سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا وگرنہ شاید اسے سوچنے کا بھی وقت نہ ملے۔ یہ درست ہے کہ حکمران جماعت کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں لیکن جو جماعت تبدیلی کے دعوے کرتی ہو‘ اگر وہ خود اپنے اندر حقیقی تبدیلی لے آتی، اپنے صوبے کو اگر وہ خوشحال اور ترقی یافتہ بنا دیتی تو ووٹ خودبخود ان کی طرف کھنچے چلے آتے۔ پیپلزپارٹی کہاں کھڑی ہے اس کا اندازہ آپ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے ان ریمارکس سے لگا لیں کہ جنہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں ترقیاتی کاموں کی مد میں 90ارب روپے کی کرپشن سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران کہاکہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے ، پیپلزپارٹی نے اپنا گھر بھی نہ چھوڑا۔پیپلزپارٹی نے سندھ پر پانچ سال حکومت کی۔ اس دوران پورے صوبے میں نوے ارب روپے نہیں لگے تو لاڑکانہ میں کیسے اتنی بڑی رقم خرچ ہو گئی۔ درخواست گزار کے مطابق لاڑکانہ اور شہداد کوٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے جاری کی گئی رقم خورد برد کر لی گئی مگر لاڑکانہ اب بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے ، سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ کی ملی بھگت سے فنڈز کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو چکا ۔سڑکوں کی یہ حالت ہے کہ موئن جو دڑو سے پینتالیس منٹ کا راستہ سوا دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ساکھ اس وقت کہاں اور کتنی ہے‘صرف لاڑکانہ کا یہ نوے ارب کا ایک سکینڈل اس کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے۔
آج سے عمران خان کرپشن کے خلاف بڑی تحریک شروع کرنے والے ہیں۔ طاہر القادری اور ماڈل ٹائون کی ایف آئی آرز بھی حکمرانوں کے تعاقب میں ہیں۔ ایسے میں حکمران جماعت کو حالیہ ضمنی انتخابات کی ''جیت‘‘ کی خوشی میں جھومنے کی بجائے حقیقتاً عوام کی فلاح و بہبود کی طرف آنا ہو گا‘ وگرنہ وہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی طرح اس کی داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved