ہمارے اردگرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو پریشان کن ہے، لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے کہ جس سے امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں، بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں اور امید کا چراغ ہے کہ روشن سے روشن تر ہو رہا ہے لیکن کئی دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور میڈیا تاجروں کی نظر کسی بھی مثبت اشارے کو سمجھنے تو کیا‘ دیکھنے تک سے قاصر ہے۔ انہوں نے مچھلی بازار گرم کر رکھا ہے یا یہ کہیے کہ شور محشر برپا کر ڈالا ہے۔ وہ کسی ایک خرابی کو دور کرنے کے لئے اس سے بڑی خرابی پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ کسی ایک زخم کو بھلانے کے لئے اس سے بڑا زخم لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک دردِ سر کا علاج یہ ہے کہ درد جگر پیدا کر دیا جائے کہ جگر میں تکلیف ہو گی تو سر کس کو یاد رہے گا؟... حکمت اور دانائی کا نام بزدلی اور حماقت رکھا جا رہا ہے اور آتشیں الفاظ کے استعمال کو بہادری اور جرات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ایک ہی دن (مردان اور وارسک میں) دہشت گردوں نے حملے کئے۔ سکیورٹی اداروں نے کمال مستعدی اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ایک جگہ چاروں حملہ آور مار ڈالے گئے۔ دوسری جگہ اپنی جان پر کھیل کر پولیس کے نوجوان...جُنید... نے دہشت گرد کا راستہ روک دیا۔ اس کے سامنے اپنے عزم کی دیوار کھڑی کر دی۔ اس نے اپنے آپ کو دروازے ہی پر پھاڑ ڈالا، کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، لیکن بہت بڑی تباہی ٹل گئی۔ عمران خان صاحب کے بقول کوئٹہ جیسا بڑا سانحہ برپا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس پر پولیس اور دوسرے حفاظتی اداروں کے جوانوں کی پیٹھ تھپکنے کی بجائے اگر سینہ کوبی شروع کر دی جائے تو کوئی فاترالعقل ہی اس کی داد دے سکتا ہے۔ جان سے ہاتھ دھونے والوں کے لواحقین کو پُرسا دینا ضروری ہے۔ زخمیوں کے لئے مرہم بھی لازم ہے، لیکن اگر معمول کی ریاستی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کی مذمت ضروری نہیں ہے۔ اسے حوصلے اور عزم کی علامت سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے کہ زندہ قوموں کا یہی شعار ہوتا ہے‘ وہ اپنے غم کو بھی طاقت بنا لیتی ہیں اور اس کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے سربلند کرکے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔
کراچی میں الطاف حسین نے جو ستم ڈھایا اور بدزبانی کے ذریعے اہل وطن کا دل دکھایا اور اپنی برسوں کی کمائی بھی لٹا ڈالی، اس پر پوری قوم جس طرح یک آواز ہوئی، اس نے ہر شخص میں نئی توانائی پھونک دی۔ الطاف حسین کی اپنی جماعت نے ان سے جس طرح اظہار برات کیا، بیرون ملک بیٹھے ہوئے اپنے رہنمائوں کو اپنے معاملات سے جس طرح بے دخل کیا اور پاکستان کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کا جس طرح اظہار کیا، قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قراردادِ مذمت کے حق میں ووٹ دے کر اپنے آپ کو جس طرح قومی جذبات سے ہم آہنگ رکھا، اس میں پہلو در پہلو اطمینان ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود دوڑیو، پکڑیو، ماریو، جانے نہ دیجیو کا ہنگامہ برپا ہے۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ فاروق ستار اور ان کے رفقا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موقع ملتے ہی الفاظ بدل لیں گے۔ اپنی آج کی پشیمانی پر پشیمان ہونا شروع کر دیں گے۔ یہی نہیں، الیکٹرانک میڈیا پر ایسے ایسے بزرجمہر موجود ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ مودی، الطاف اور نواز شریف ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ موجودہ حکومت معاملات کو درست نہیں کر سکتی، فوج کو اقتدار سنبھال کر ہر چیز اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے۔ ان احمقوں کا خیال ہے کہ اس طرح حالات چٹکی بجاتے درست ہو جائیں گے، جبکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بیج پرویز مشرف کے اپنے ہاتھوں سے بوئے گئے تھے۔ ریاست کا اجتماعی نظم درہم برہم کرنا، دشمنوں کو خوش تو آ سکتا ہے دوستوں کو نہیں۔ بھارت میں تو اس پر گھی کے چراغ جلائے جا سکتے ہیں، لاہور اور کراچی میں نہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا اس سے بہتر ذریعہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ سیاسی اور دفاعی اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا جائے۔ سرحدوں کا دفاع، سرحدوں کے اندر دھینگا مشتی سے کرنے کا نسخہ تاریخ عالم میں جب بھی آزمایا گیا ہے‘ سرحدیں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔ یہ خود کشی کا تیر بہدف نسخہ ہے، جس کے غیر موثر ہونے کی ایک تو کیا زیرو پوائنٹ ایک فیصد بھی امید نہیں کی جا سکتی۔
جنرل راحیل شریف نے جہاں اپنے ایک حالیہ بیان میں دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا غیر متزلزل عزم ظاہر کیا، وہاں یہ یقین بھی دلایا ہے کہ حالات بہتر سمت میں جا رہے ہیں۔ گویا ہم جس شاہراہ پر سفر کر رہے ہیں وہ منزل ... مضبوط اور خوش حال پاکستان... تک لے کر جائے گی۔ راستے کی مشکلات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راستہ ہی بدل لیا جائے یا منزل کی طرف پیٹھ کر لی جائے۔ یاد رکھا جائے کہ دستور پاکستان کے دائرے میں رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کرنے ہی سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہو سکتا ہے۔ ہر ادارہ ثابت قدمی اور دلجمعی سے منصوبہ سازی کرے گا تو ملک ترقی سے بھی ہم کنار ہو گا۔ ڈگڈگی بجانے سے صنعتیں لگ سکتی ہیں، سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جا سکتی ہے نہ بیروزگاری کے خاتمے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ ریاستی امور غصے اور انتقام کے جذبے میں ڈوب کر نہیں چلائے جا سکتے۔ یہاں کہیں کشتی کو ٹھہرانا پڑتا ہے اور کہیں موجوں کو جنبش دینا پڑتی ہے۔ غداری اور نمک حرامی کے سرٹیفکیٹ بانٹ کر بھی طاقت کا سامان نہیں کیا جا سکتا۔ جو شخص پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہا ہے، اس کی قدر کیجئے، اسے ساتھ ملائیے، اسے دیوار سے نہ لگائیے۔ اسے اپنی طاقت بنائیے۔ دلوں کو توڑنے سے نہیں دلوں کو جیتنے سے معاشرے مستحکم ہوتے ہیں۔ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو کمزور نہ کیجئے، نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر ہر شخص کو دشمن نہ قرار دیجئے، غداروں کی سرکوبی کے نام پر ان میں اضافہ نہ کیجئے۔ نوابزادہ نصراللہ کیا خوب یاد آئے کہ وہ یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے ؎
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
زاہد ملک مرحوم
انگریزی روزنامے ''پاکستان آبزرور‘‘ کے چیف ایڈیٹر زاہد ملک طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ پاکستان بھر میں ان کی وفات پر اظہار غم کیا گیا اور ہر مکتب فکر نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کا تفصیلی تذکرہ پھر ہو گا، آج یہی حرفِ تحسین کہ وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ایک مضبوط محافظ تھے۔ ان کے قلم نے اپنے وطن کو مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بہت سال پہلے انہوں نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر کوچہء صحافت میں قدم رکھا تھا۔ پہلے ہفت روزہ ''حرمت‘‘ ، پھر روزنامہ ''الاخبار‘‘ اس کے بعد ''پاکستان آبزرور‘‘ کے ذریعے پاکستانی صحافت کے اعتبار میں اضافہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔ ان کی رفیق حیات، ان کے بچوں فیصل، گوہر، عمر اور سعدیہ کو ان کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)