پچھلے ہفتے پارلیمنٹ کی دو تین کمیٹیوں میں گیا۔ جب میں اپنی خودساختہ دانشوری سے تنگ آجاتا ہوں تو اپنی ذہنی نشوونما کے لیے پارلیمنٹ چلا جاتا ہوں۔ وقفہ سوالات مجھے بہت پسند ہے؛ اگرچہ ایم این ایز کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ وزرا کو بھی یہ اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وہ بھی نہیں آتے۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم اور اپنی وزارت کے وزیر کی خوشامد سے فرصت نہیں ملتی، لہٰذا وہ بھی وہاں نہیں آتے۔ تاہم میری پروفیشنل نشوونما میں پارلیمنٹ کے وقفہ سوالات کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جائوں۔ وہاں بھی پاکستان کے ذہین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں، نئے نئے انکشافات سننے کو ملتے ہیں۔ خوش ہوتا ہوں کہ چلو میرا دال روٹی چلے گا اگرچہ یو این ڈی پی کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے کے بقول اس ملک میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہو رہی ہے۔ جب بھی کرپشن کی بڑی کہانی ان اجلاسوں میں کھل کر سامنے آتی ہے تو ساتھ ہی ارکان پارلیمنٹ اتنی ہی اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہیں۔ وہ اپنی بے بسی پر ہنستے ہیں یا اپنے غیر سنجیدہ پن پر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں پتا ہے کہ وہ بھی یہی کام کرتے ہیں اور پکڑے نہیں جاتے۔ دل پشوری چلتی رہتی ہے۔ ادھر ادھر سب کو اس بربادی پر ہنستے دیکھ کر میں بھی اپنی آواز ان قہقہوں کی گونج میں شامل کر دیتا ہوں۔ میں منہ بسورکر کیوں بیٹھا رہوں۔
جو کچھ وہاں دیکھا اور سنا وہ تو آپ کو آنے والے دنوں میں ضرور پڑھائوں گا تاکہ پتا چلے کہ اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کیسے پاکستانی اشرافیہ پاگل ہوگئی ہے؛ تاہم لوٹ مارکی کہانیاں سنتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے راجن پور کے علاقے داجل میں پولیس کی دہشت گردی کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام کیا تھا۔ پروگرام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے سے بہت سارے لوگوں نے جن میں میرے کچھ جاننے والے بھی تھے، دہائی دی تھی کہ ان کی جان چھڑائی جائے کیونکہ راجن پور کی پولیس نے حد کردی ہے۔ پولیس جو کچھ وہاں کر رہی ہے، اکثر لوگ فیس بک پر اس کا موازنہ غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے کر رہے تھے ۔ پتاکیا تو معلوم ہوا کہ دو بھائی موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ راستے میں کسی نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولی مار دی۔ ایک بھائی وہیں مر گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہے۔ اس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پولیس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ لوگوں کو یقین ہو چکا ہے کہ پولیس علاقے کے بدمعاشوں کے ساتھ مل کر قتل جیسی وارداتیں کرا رہی ہے۔ یہ لوٹ مار میں بھی برابر کے شریک ہے۔ لوگ تھانے شکایت لے کر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ظالموںکو وہاں کرسی اور مظلوم کو گالیاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو تھانے میں شکایت درج کرانی ہو تو وہ اکیلے نہیں جاتا، وہ اپنے ساتھ علاقے کے چند لوگوں کو لے کر جاتا ہے تاکہ کہیں پولیس اس پر ہی کوئی کیس نہ ڈال دے۔ جب لوگوں نے ایک ہی گھر کے دو نوجوانوں کو گولیاں کھاتے اور ایک کو مرتے دیکھا تو مشتعل ہوگئے۔ تھانے کا گھیرائو کر لیا گیا۔ اس دورا ن ایک پولیس کانسٹیبل نے ہوائی فائرنگ کر دی جس سے بپھرا ہوا مجمع مزید بپھرگیا اور پر تشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ پولیس کے دعویٰ کے مطابق ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور خاصا ہنگامہ ہوا۔
ہنگامہ تھما تو پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی۔ اب تک داجل کے چودہ سو افراد کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کیے جا چکے ہیں۔ جن کا نوجوان مارا گیا ان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ ان پرچوں کے بعد پولیس نے داجل کے شہریوں پر ایک اور قیامت ڈھا دی۔ رات گئے گھروں میں داخل ہوکر جو ہاتھ لگے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ تشدد کرتے اور پھر گھسیٹ کر تھانے لے جاتے ہیں۔یہ کارروائی ہنوز جاری ہے۔ داجل ایک قیامت سے گزر رہا ہے جس کا اس لئے پتا نہیں چل سکا کہ میڈیا کو اس میں دلچسپی نہیں۔ داجل میں جاری دہشت گردی کی رپورٹ کون کرتا۔ پنجاب حکومت کا بھی میڈیا پر بہت زور چلتا ہے، دوسرے داجل اور راجن پور کے مقامی رپورٹر پولیس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر ہی دہشت گردی کا مقدمہ نہ درج ہو جائے۔ پولیس نے چودہ سو نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا اور اب جو ہاتھ لگتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کا نام ایف آئی آر میں نامعلوم کے خانے میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔
خیر ہم نے اپنے پروگرام میں داجل کے اس واقعے کو اٹھایا۔ ڈی پی او عرفان اللہ کو دعوت دی اور پوچھا کیسے چودہ سو افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگیا،کیسے ایک ہی ہلے میں اتنے دہشت گرد پیدا ہو گئے؟دنیا بھر میںپرتشدد کارروائیاں ہوتی ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں بھی ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد بدترین تشدد کے واقعات پیش آئے۔ جہاں عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا وہاں گرفتاریاں ہوئیں لیکن کہیں یہ نہیں پڑھا کہ امریکی پولیس نے امریکیوںکو دہشت گردی کے الزام میںگرفتارکر لیا ہو۔ عرفان اللہ ہمیں دہشت گردی کا قانون سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کی فلاں دفعہ میں کیا لکھا ہے۔
میرا کہنا تھا کہ سرائیکی علاقے کے لوگ پر امن سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ تخت لاہور وہاں کے سیاسی بدمعاشوں کے ساتھ مل کر زیادتیاں کرتا ہے، وہ بے چارے پھر بھی لاہورکے بادشاہوں اور ان کے سیاسی خادموںکو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کو ترقیاتی فنڈ میں سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایک مرکزی پل نشتر گھاٹ پچھلے پندرہ برس سے نہیں بن سکا جبکہ لاہور میں پچھلے دنوں ایک رنگ روڈ اور بائی پاس کا افتتاح وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کیا اور جمعہ کے روز کالا شاہ کاکو پر ستائیس ارب روپے کے نئے روڈ کا افتتاح وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کیا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں آپ جائیں تو کانپ جائیں کہ کس دنیا میں یہ لوگ زندہ ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پُر امن سرائیکی لوگ بھی پر تشدد کارروائیوں پر مجبور ہوگئے، انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ بھی ہتھار اٹھا لیں اور پولیس کے خلاف کھڑے ہوجائیں؟ مرنے مارنے پر تل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب پسماندگی نے اپنے نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔ کیا اب لوگ غربت اور پسماندگی کے ہاتھوں تنگ آکر ڈکیتی اور دہشت گردی پر اتر آئے ہیں؟ پولیس اور مقامی سرداروں کے باہمی گٹھ جوڑ نے آخر صرف داجل جیسے چھوٹے سے شہر میں ہی چودہ سو دہشت گرد کیوں پیدا کردیے ہیں۔ توکیا جو لوگ تھانے میں پولیس کی دہشت گردی کے شکار ہوکر لوٹیںگے وہ چھوٹو گینگ نہیں بنائیںگے؟
جب مقابلے کا وقت تھا داجل کے یہ ''دجال‘‘ بھاگ گئے تھے، اب نہتے اور بے بس لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ روزانہ نئے چھاپے اور نئی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔
ایک ایسے ہی چھاپے کی روداد پر مبنی خبر پڑھیں جو میری نظر سے گزری۔
خبر کے مطابق راجن پورکے ڈی پی او عرفان اللہ نے پولیس پارٹی تیارکی اورکہا کہ آج ہم اس علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کے گھر پر چھاپہ مارنے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اپنی گنیں پکڑیں اور چل پڑے۔ اس سے ایک روز قبل اس خطرناک ڈاکو کے ایک بھائی پھالو کو پولیس نے مار ڈالا تھا۔ آج اس کے دو خطرناک بھائیوںکو مارنے کا پلان تھا۔ پولیس نے جاتے ہی ڈاکو کے گھرکوگھیرے میں لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس خطرناک ڈاکو مطاہرا کے گھرگرفتاری کے لیے پہنچی توسب یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے کہ دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ڈکیت کا پورا خاندان دیواروںکے بغیر جھونپڑی میں رہ رہا ہے ۔ خطرناک ڈاکو کی تین سالہ بیٹی سخت بیمار تھی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر کے پانچ افراد کے لیے دو چارپائیاں جبکہ کنستر میں صر ف دوکلو آٹا تھا۔ بچی کے علاج معالجے کے لیے کوئی پیسہ نہ تھا۔ ڈی پی اوکو بچی کی حالت دیکھ کر رحم آیا اور جیب سے دو ہزار روپے نکال کر دیے اور واپس لوٹ گئے۔
یہ ہیں داجل کے ڈاکو جن کا ایک بھائی ایک دن پہلے پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ کیا اس کے دو بھائیوںکو بھی دجال پولیس جلد مارکر انصاف کا بول بالا کرے گی؟ داجل کے یہ کیسے ڈاکو ہیں جن کی تین سالہ بیٹی بیمار ہے اور علاج کے لیے ٹکا نہیں، کنستر میں صرف دو کلو آٹا اورسونے کے لیے چارپائیاں تک نہیں! یہ کیسے ڈاکو ہیں جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جن کو مارنے کے لیے پولیس جاتی ہے اور الٹا دو ہزار روپے دے کر لوٹتی ہے۔ بہت جلد اس جھونپڑی کے دیگر خطرناک ڈاکو بھائی بھی مارے جائیں گے۔
اب ان تین خطرناک ڈاکو بھائیوںکے انجام کے بعد اس جھونپڑی کی بچ جانے والی مالکہ۔۔۔۔ ایک بے بس ماں ہے جو جلد بیوہ ہونے والی ہے۔ اس کے چار چھوٹے بچے یتیمی کی دہلیز پر قدم رکھنے ہی والے ہیں۔کیا جانیں داجل کے یہ دجال! مجال ہے دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف گلے پھاڑنے والوں میں سے کسی نے داجل میں جاری اس دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہو! واہ رے داجل اور داجل کے دجال۔۔۔!