تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     04-09-2016

ایک لازوال شخصیت

عشرہ ذی الحجہ اپنے جلو میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت سی رحمتوں، فضل اور عنایات کو لے کر آتا ہے۔ گو اس عشرے کے تمام دنوں میں کی گئی عبادات کا اجر و ثواب انتہائی زیادہ ہے لیکن اس عشرے کی نویں اور دسویں تاریخ امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ نویں تاریخ کو حاجی وقوفِ عرفات کا فریضہ انجام دیتے اور اسی تاریخ کو دنیا بھر کے غیر حاجی مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نویں کو وقوف کرنے والوں کی تمام خطاؤں کو اللہ تبارک و تعالیٰ معاف کر دیتے ہیں اور اس دن کا روزہ رکھنے والوں کے گزشتہ ایک برس اور آئندہ ایک برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دسویں تاریخ کو دنیا بھر کے مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ کے راہ میں جانور ذبح کرتے اور یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ تمام قولی، مالی اور بدنی عبادات کی طرح قربانی بھی فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اور رضا کے حصول کے لیے ہونی چاہیے۔ 
عشرہ ذی الحجہ میں کیے جانے والے دو امتیازی کاموں کی تفصیل اور ان کا طریقہ کار حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور سنت مطہرہ کے ذریعے ہم تک منتقل ہوا۔ انہی احادیث اور تاریخی شواہد کے ذریعے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دونوں اعمال درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی سنت ہیں۔ حج اور قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا ہر فرد ہی دیگر تمام انسانوں کے مقابلے میں انتہائی بلند مقام کا حامل ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بعد جو مقام اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا کیا وہ بھی انتہائی امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح جمیع انسانیت کے امام اور مقتدا ہیں۔ سورہ احزاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو بھی سورہ ممتحنۃ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بلند مقام کی وجہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کے لیے خدمات اور عظیم جدوجہد ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعلق ایک ایسی بستی کے ساتھ تھا جس کے رہنے والے یا تو بتوںکی پوجا کیا کرتے تھے یا اجرام سماویہ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجرام سماویہ کی حقیقت پر غور کیا۔ ستارے کو ڈوبتا دیکھ کر، چاند کو ڈھلتا دیکھ کر اور سورج کو غروب ہوتا دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بستی والوں کے عقیدے کی کمزوری کو اچھی طرح بھانپ گئے اور آپ نے ان تمام اجرام سماویہ کی پوجا سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کی طرف اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا اور اس حقیقت کا اعلان فرما دیا کہ میں اپنے چہرے کا رخ اس ذات کے چہرے کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عین جوانی کے عالم میں بت کدے میں جا کر کلہاڑا چلا دیا اور وہاں موجود جملہ بتوں کو توڑ ڈالا مگر بڑے بت کو اتمام حجت کے لیے چھوڑ دیا۔ بستی کے لوگ جب بت کدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے بتوں کو ٹوٹا ہوا پایا۔ آپس کی مشاورت اور گفتگو کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات پر شک کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا گیا اور آپ سے استفسار کیا گیا کہ کیا آپ نے ان بتوں کو توڑا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: اس بڑے نے ان کو توڑا ہو گا‘ ان سے پوچھو‘ اگر ان کے پاس قوت گویائی موجود ہے۔ بستی کے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب پر بہت سیخ پا ہوئے‘ لیکن ان کے پاس آپ کی دلیل کا معقول جواب نہیں تھا۔ انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں‘ یہ بات نہیں کر سکتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسے عالم میں ارشاد فرمایا کہ تم اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا ان کو پوجتے ہو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ تم اللہ تبارک و تعالیٰ کو کیوں نہیں پوجتے؟ کیا تمہارے پاس عقل و شعور نہیں ہے؟ بستی کے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل کے سامنے بے بس ہو گئے لیکن انہوں نے راہ راست پر آنے کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چتا میں گرانے کا فیصلہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جلتی ہوئی چتا اور بھڑکتی ہوئے آگ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ و مامون فرما دیا۔ بستی والوں کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آذر اور بادشاہِ وقت کو بھی دعوتِ توحید دی۔ نمرود اپنے آپ کو پروردگار سمجھتا تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے رعب اور دبدبے سے مرعوب ہوئے بغیر اس دربار میں ببانگ دہل توحید کی دعوت دی۔ ارشاد فرمایا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل میں تاویل کرنا چاہی اور یہ کہا میں بھی مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں؛ چنانچہ ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک مستحق سزا کو آزاد کر دیا۔ ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ نمرود ان کی دلیل میں تاویل کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہ رہا ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک اور دلیلِ روشن پیش کی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے اگر تو رب ہے تو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔ اس پر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں توحید کے لیے مشکلات اور مصائب کو برداشت کیا وہاں آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے محبتوں کی قربانی بھی دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے ایک صالح بیٹے کی دعا مانگی۔ ابھی بچہ ماں کی گود میں ہی تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو سیدہ ہاجرہ اور جناب اسماعیل کو اپنے سے دور اور علیحدہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم پر سیدہ ہاجرہ اور جناب اسماعیل کو وادی بے آب و گیاہ میں چھوڑ دیا‘ جہاں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے پینے کے لیے آب زم زم جاری فرما دیا اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک معزز اور محترم قبیلے کو ان کے قریب ہی آباد کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہلِ خانہ کے احوال کی دریافت کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے رہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب آپ کے ہمراہ دوڑ کود کے قابل ہوئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ایک اور امتحان سے دوچار فرمایا۔ آپ کو خواب میں اس بات کا حکم دیا گیا کہ آپ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کو جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سامنے رکھا تو اسماعیل علیہ السلام نے بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا کہ اے بابا! آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے آپ اس پر عمل کر گزریے‘ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تابعداری کو اختیار کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل پچھاڑا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا بلند آئی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ جنت کے مینڈھوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کر دیا گیا لیکن آپ کے دل کی اس کیفیت اور بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے چھری پکڑنے کی یہ ادا قیامت تک کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں کے لیے ایک اساس کی حیثیت اختیار کر گئی۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھر کو بھی تعمیر فرمایا۔ دونوں باپ بیٹوں نے رب کے گھر کی تعمیر کر لی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے جہاں پر اپنے اس عظیم عمل کی قبولیت کی دعا مانگی‘ وہیں پر اہل مکہ کے لیے ایک رسول کی دعا بھی مانگی‘ جو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو گناہوں سے دور کرکے پاک اور صاف کر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول و منظور فرماتے ہوئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کی امامت اور قیادت کے لیے مبعوث فرما دیا۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام پوری زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کی ترویج کے لیے سرگرم رہے۔ جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام اور پوتے یعقوب علیہ السلام کو اس بات کی نصیحت کی کہ اے میرے بیٹو اللہ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے؛ چنانچہ تم کو موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ آپ کی پوری زندگی اور آپ کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کی سربلندی کے لیے وقف ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کردار یقینا ایک لازوال کردار ہے اور امت مسلمہ کو صحیح طور پر اس کردار کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ تاکہ جہاں پر عشرہ ذی الحجہ کے اعمال بجا لاتے ہوئے ہم 9 تاریخ کا روزہ رکھیں اور 10 تاریخ کی قربانی کریں تو ان اعمال کو ظاہری اعتبار سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل میں باطنی اعتبار سے بھی حضرت ابراہیم والا جذبہ اور خلوص موجود ہو ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں آپ کے اسوہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved