ایک زمانہ تھا کہ عیدالاضحی کی آمد پر ذبیحے کا تصور خاصا خوش کن ہوا کرتا تھا۔ وقت کی گردش نے ایسا رنگ جمایا ہے اور معاملات کے پہیے کو ایسا گھمایا ہے کہ جانور کے حلق پر چُھری پھیرنے کا تصور کیجیے تو اپنی گرن پر چُھرتی پھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے! زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی لاگت کسی چُھری سے کم ہے کیا؟ ایک ایک پل کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ؎
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے!
زندگی بسر کرنے کی لاگت کے ہاتھوں ذبح ہوتے رہنا اور بچے بھی رہنا ایک مستقل نوعیت کا ٹاسک ہے۔ اِس کام سے جان چُھوٹے تو کسی (اور) جانور کی قربانی کے بارے میں سوچا جائے!
جیسے ہی ذوالحج کا چاند نظر آتا ہے، ایک سوال فضاء میں آکسیجن کی طرح پایا جانے لگتا ہے۔ یہ کہ آپ اِس سال ''کیا‘‘ کر رہے ہیں؟ یعنی یہ کہ عیدالاضحٰی پر آپ کون سا جانور قربان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ سوال قدم قدم پر پوچھا جاتا ہے اِس لیے کچھ نہ کچھ جواب تو تیار کرنا ہی پڑتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ تو خریدنا ہی پڑتا ہے۔ اگر نہ خریدیے تو لوگ دنیا بھر کے طعنے جمع کرکے اُن کے بم بناتے رہتے ہیں اور آپ کے سَر پر دھماکے کرتے رہتے ہیں۔ گھر سے نکلنے کی دیر ہوتی ہے کہ قربانی کے جانور سے متعلق سوال پوچھنے والے اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔
قربانی کے جانور سے متعلق سوال کرنے والے تھکتے ہیں نہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ اُن کا کام ہے سوال پوچھنا اور کوئی جواب نہ بن پڑنے پر شرمندہ ہونا آپ کی ذمہ داری ہے! آپ یہ سوچ سوچ کر بھی الجھتے رہتے ہیں کہ یہ خاصا اُکسانے والا سوال ہے۔ یعنی یہ کہ پہلے تو آپ محلے اور حلقۂ یاراں میں اور پھر رشتہ داروں کے سامنے شرمسار ہوں۔ اور بہت زور دیئے جانے پر مویشی منڈی جائیں تو جانوروں کی قیمتیں سُن کر اُن کی قدر و قیمت پر رشک کرتے ہوئے اپنے آپ سے بھی شرمندہ ہوں! گویا جس کسی کو آپ کی اصلیت (یعنی مالی حیثیت وغیرہ) کا درست اندازہ ہے وہ عزتِ نفس کا رہا سہا ذخیرہ بھی ٹھکانے لگانے پر تُل جاتا ہے!
کبھی کبھی تو جی میں آتا ہے کہ کہ جانور سے متعلق سوال پوچھے جانے پر کہہ دیا جائے کہ بھئی اب تک کوئی ڈھنگ کا جانور ملا نہیں اِس لیے سوچا ہے کہ اِس بار اُسی کو ذبح کردیں جسے ہم روز آئینے میں دیکھتے ہیں!
لوگوں کے بہت پوچھنے پر جب قربانی کا ارادہ کیجیے تو سب سے پہلے بکرے کا خیال آتا ہے کیونکہ وہ خاصا ''غیر عظیم الجُثّہ‘‘ ہوتا ہے اور دِل کو تھوڑی بہت اُمّید سی ہوتی ہے کہ اُس کی قیمت پوچھنے پر دل و دماغ کسی بڑی بحرانی کیفیت سے دوچار نہیں ہوں گے! مگر بکرے کا خیال آتے ہی ذہن میں یہ خیال بھی کوندتا ہے کہ ہم خود بھی قربانی کے بکرے سے کیا کم ہیں! اور سچ تو یہ ہے کہ جس کے دم قدم سے گھر چل رہا ہو اُسے اہل خانہ مستقل بنیاد پر قربانی کے بکرے کے منصب پر فائز کردیتے ہیں!
اگر بکرے کی سطح سے ذرا بلند ہوکر گائے کا ذہن بنائیے یعنی گائے خریدنے کا ارادہ کیجیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اُسے خریدنے کی کیا سبیل کریں؟ معاملہ یہ ہے کہ جیسا جانور کا جُثّہ ویسی اُس کی قیمت۔ اگر گائے خریدنے کا سوچیں تو کئی دن یہ سوچنے ہی میں گزر جاتے ہیں کہ قیمت چکانے کے لیے کون کون سے عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کی استدعا کی جائے! جو کچھ بھی پَلّے ہے اُسے جوڑنے بیٹھیے تو معاملہ یہ ٹھہرتا ہے کہ ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا!
اگر کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ معاشرے میں اپنی توقیر برقرار رکھنے کے لیے بکرے کو زحمت دیں یا گائے کو تو لوگ مجبور ہوکر جانوروں کی نس نس سے واقفیت رکھنے والے سیانوں کے پاس جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طبقہ ہے جو خود قربانی کا جانور خریدنے کی سکت نہ بھی رکھتا ہو تو اُن کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ضرور ہے!
اگر آپ نے قربانی کا جانور خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنی (مالی) حیثیت کے مطابق جانور خریدنے کے حوالے سے خاصی دیر تک شش و پنج میں مبتلا رہنے کے بعد محلے میں چند ''جانکاروں‘‘ سے مشاورت کرنے بیٹھے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے حواس کی موت کو دعوت دے دی ہے! جن کے گھر میں ڈھنگ سے کھانے کو بھی نہ ہو وہ ایک لاکھ سے پچاس لاکھ تک کے جانور کو خریدنے کے بارے میں اِس طرح رائے دیتے ہیں جیسے باقاعدگی سے یومیہ بنیاد پر ڈیڑھ دو درجن گائے بکروں کی خرید و فروخت کے مرحلے سے گزرتے ہوں!
قربانی کا جانور خریدنے کے بارے میں جو مشورے انتہائی روانی سے اور مفت فراہم کیے جاتے ہیں اگر اُنہیں جمع کرکے ذرا حُسنِ ترتیب کے ساتھ اور تھوڑے بہت اہتمام سے شائع کیا جائے تو مزاح کا ایک لافانی موضوع آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے!
قربانی کا جانور خریدنے کے لیے جیسے ہی کوئی مشورہ طلب کرتا ہے، اِس کام کے جَدّی پُشتی ماہرین متحرّک ہوجاتے ہیں اور اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھتے جب تک اپنے مشوروں کی روشنی میں قربانی کا جانور خریداری کی منزل سے نہ گزار لیں! آپ بھی محتاط رہیے۔ جنہیں قدرت نے مفت مشورے دیتے رہنے کے منصب پر فائز کیا ہے اُنہیں اِس بات سے کچھ غرض نہیں کہ آپ کی جیب میں کیا ہے۔ اُنہیں تو صرف وہ نکال باہر کرنا ہوتا ہے جو اُن کے دماغ میں ہوتا ہے!
یہاں ذہن میں یہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے سے قبل محلے یا علاقے کے ماہرین سے مشاورت کی ہی کیوں کی جائے؟ مت بُھولیے کہ یہ ضروری ہے۔ اِس لیے کہ اگر آپ کسی سے مشاورت کے بغیر مویشی منڈی گئے اور کچھ لے آئے تو سمجھ لیجیے قربانی کے جانور کے ساتھ ساتھ اُس کی شامت بھی خرید لائے! جیسے ہی آپ قربانی کے جانور کے ساتھ محلے میں یا اپنی اپارٹمنٹ بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوں گے، وہ تمام افراد جن سے مویشی منڈی جانے سے قبل مشاورت نہ کی گئی ہو، گائے کے گِرد یُوں جمع ہوجائیں گے کہ گائے بے چاری خود کو غنڈوں میں گِھری ہوئی رضیہ سمجھنے پر مجبور ہوگی!
یہ ہرگز نہ سمجھیے کہ ہم آپ کو ڈرا رہے ہیں۔ ہماری ایسی مجال کہاں؟ اِس کام کے لیے تو حالات کافی ہیں! ہم تو صرف انتباہ کر رہے ہیں کہ قربانی کا جانور خریدنے کے مرحلے کو ایسا آسان مت سمجھیے۔ اگر آپ اِس معاملے کو معمولی لیں گے یعنی سنجیدہ نہیں ہوں گے تو سمجھ لیجیے دل و دماغ کی پتنگ کَنّوں سے کٹ جائے گی! قربانی کے جانور کی خریداری کا فیصلہ اور اِس فیصلے پر عمل یقینی بنانے کے لیے مال و منال کا اہتمام ایسا مرحلہ ہے جس سے گزرنے کے لیے شیر کا جگر، بلکہ جگرا چاہیے! معاملہ یہ ہے کہ بکرا خریدنے کے لیے آپ میں شیر کی سی طاقت کا ہونا لازم ٹھہرا! اگر آپ ذرا بھی چُوک گئے تو سمجھ لیجیے گئے کام سے! اِس طلسمات میں قدم قدم پر محتاط رہنا پڑتا ہے۔ معمولی سی لغزش کھائی میں گِرا سکتی ہے۔ گرد و پیش پر نظر نہ رکھی تو معاملہ بگڑ کر ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ ع
مُڑکے دیکھوگئے تو ہو جاؤگے تُم پتّھر کے!
اللہ کی راہ میں ذبیحہ اب کوئی آٹھ دس دن کی بات ہے۔ اگر لوگوں نے ''آپ اِس سال 'کیا‘ کر رہے ہیں؟‘‘ ٹائپ کے سوالات کی مدد سے بمباری شروع کردی ہے تو ہرگز نہ گھبرائیں۔ اللہ کی خوشنودی کی خاطر قربانی کا جانور خریدنے کا ضرور سوچیے اور سوچے ہوئے پر عمل بھی کر گزریے مگر اِدھر اُدھر دیکھے بغیر۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی کچھ کرنے کا سوچا تو جان لیجیے کہ اُسی کیفیت سے دوچار ہوں گے جس سے میرؔ ہوئے تھے۔ یعنی ع
پھرتے ہیں میرؔ خوار، کوئی پُوچھتا نہیں!
محض اِس خیال سے کہ لوگ کیا کہیں گے، اپنی منطقی اور حقیقی حد سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کیجیے۔ اور ع
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
جیسی کیفیت پیدا کرنے سے گریز کیجیے۔ اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ کیجیے مگر پاؤں پھیلانے سے پہلے اپنی چادر کا جائزہ ضرور لیجیے۔