تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     05-09-2016

اگر یہ سلسلہ شروع ہو گیا !

اگر دو سال قبل دھرنے کے پیچھے شجاع پاشا تھے تو تحریک انصاف کی اس نئی تحریک کا ماسٹر مائنڈ کون ہے‘ یہ عمران خان اگر نہیں بتائیں گے تو کوئی جاوید ہاشمی کسی دن اٹھ کھڑا ہو گا اور ساری حقیقت کھول کر بیان کر دے گا۔ البتہ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف ایک پیج پر ہیں۔ جس طرح دونوں دھرنے کے موقع پر اکٹھے تھے‘ لاہور سے نکلنے کا فیصلہ ہو یا اسلام آباد میں اکٹھے ہونے کا‘ دونوں کی باہمی مشاورت مسلسل جاری رہی۔کس نے کس وقت کنٹینر پر نکلنا ہے‘ کب میڈیا کو انگیج کرنا ہے‘ پی ٹی وی یا ایوان وزیراعظم کی طرف کب مارچ کرنا ہے‘ یہ تمام عمل تب بھی باہمی رضامندی سے مکمل ہوا اور آج بھی اس میں رتی بھر شک نہیں کہ دونوں حضرات عید الفطر کے بعد لندن اکٹھے ہوئے اور حالیہ یلغار کے لئے منصوبہ بندی کی۔ میں عمران خان پر بعد میں آتا ہوں، پہلے قائد تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کی بات ہو جائے۔ گزشتہ روز قادری صاحب نے قصاص ریلی سے خطاب میں فرمایا کہ میرے اچانک کینیڈا جانے پر اگر میرے کارکنوں کو اعتراض نہیں ہے تو میڈیا اور دیگر لوگوں کو کیامسئلہ ہے۔ میں کینیڈا جائوں‘ وہاں کئی ماہ رہوں یہ میری مرضی ہے‘ اس پر کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں ایک بات بھول رہے ہیں کہ جب وہ احتجاج کرتے ہیں‘ یا جب وہ یہ کہتے ہیں کہ جو واپس آئے اسے بھی شہید کر دو تو یہ سارا کچھ صرف ان کے کارکن نہیں سنتے بلکہ میڈیا کے ذریعے کروڑوں 
عوام بھی سب کچھ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اپنا وقت دے رہے ہوتے ہیں۔ قادری صاحب کی جماعت کی سکیورٹی پر ملکی وسائل صرف ہو رہے ہوتے ہیں جو عام لوگوں کے ٹیکسوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ جب انہوں نے اچانک دو سال قبل دھرنہ سمیٹنے کا اعلان کر دیا تھا تو اسی میڈیا پر جس پر ان کی کئی ماہ تک براہ راست تقاریر دکھائی گئیں‘ انہی کے کارکنوں کے انٹرویوز چلے جنہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو قائدین نے کہا تھا کہ جب تک انقلاب نہیں آ جاتا اور جب تک انصاف نہیں مل جاتا‘ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے لیکن انہوں نے دھرنا سمیٹنے میں ایک پل بھی نہ لگایا اور یہ بھی نہ سوچا کہ ان کے اس فیصلے سے ان بیٹوں یا بیٹیوں پر کیا گزرے گی جو اپنے امتحانات چھوڑ کر آئے‘ جنہوں نے موسم کی پروا نہ کی‘ جو کئی ہفتوں سے یہاں بھوکے پیاسے پولیس کے ڈنڈے کھا تے رہے‘ ان کے دلوں پر کیا بیتے گی۔اس سے قبل بھی زرداری دور میں جب موسم سرما میں قادری صاحب نے دھرنا دیا تھا تب بھی ان کے کارکنوں کو ایسی ہی امیدوں پر لایا گیا تھا۔قادری صاحب خود تو بارش ‘ سردی اور یخ بستہ ہوائوں سے محفوظ ایک بم پروف کنٹینر میں براجمان رہے اور ان کے چاہنے والے سڑکوں پر نمونیے اور بخار سے لڑتے رہے۔ 
قادری صاحب کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ کسی کام کا آغاز تو نہایت پرجوش اور جوشیلے انداز میں کرتے ہیں‘ وہ اپنے کارکنوں کا جوش و جذبہ اپنی ''ولولہ انگیز‘‘ تقاریر سے گرما بھی دیتے ہیں لیکن پھر اچانک ایسا کچھ ہوتا ہے جس کی سوائے ڈاکٹر صاحب اور ان کے چند قریبی افراد کے کسی اور کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اس ساری ایکسرسائز کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک عام آدمی جو شروع میں انہیں سنجیدہ لیتا ہے‘ وہ انہیں بھی روایتی سیاستدانوں جیسا قرار دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہر تحریک کو ادھورا چھوڑ کر کینیڈا نکل جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ان پر اعتراض بھی نہ کرے۔سوال یہ ہے کہ جب وہ احتجاج کرتے ہیں‘ جب وہ سڑکیں بلاک کرتے ہیں اور حکومت کنٹینر رکھ دیتی ہے تو اس سے 
صرف ان کے کارکنوں کو تو تکلیف نہیں ہوتی‘ اس میں ہر قسم کے لوگوں کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال عمران خان صاحب کا ہے۔ وہ ہر درست کام ہر غلط وقت پر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاناما پیپرز پر جب احتجاج اور سڑکوں پر آنے کا وقت تھا تو انہوں نے زمام کار قبلہ شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں دے دی۔ میں تحریک انصاف کے ان نوجوانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھ کر ان کی محبت میں گرفتار ہیں‘ اگر کل کلاں عمران خان چیئرمین نہیں رہتے اور شاہ محمود قریشی جو اب وائس چیئرمین ہیں‘ اگر تبدیلی کا علم اٹھا لیتے ہیں تو کیا وہ ان کی بھی تقلید کرتے رہیں گے۔ کیا ایسے نوجوان شاہ محمود قریشی کو عمران خان کا متبادل تسلیم کر لیں گے جو اسی طرح کے ایک جاگیردار ہیں جس طرح کہ یوسف رضا گیلانی یا کوئی اور۔ پوری دنیا نے گزشتہ روز ریلی کے دوران کیا اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر دائیں اور بائیں مسلسل دو افراد ہی کیوں چپکے رہے؟ کیوں چودھری سرور ایسے رہنمائوں کو ایک پل کے لئے بھی آگے نہ آنے دیا گیا۔ عمران خان کے ایک طرف جاگیردار اور دوسری طرف سرمایہ دار دیکھ کر کیا یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ تحریک انصاف کس قسم کی تبدیلی لا پائے گی۔
مجھے تو لگتا ہے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے اس احتجاج کا فائدہ ایم کیو ایم اٹھا لے گی کیونکہ وہ اس وقت سخت گھیرے اور دبائو میں ہے۔ را‘ موساد اور دیگر عالمی ایجنسیوں سے اس کے روابط سامنے آ چکے ہیں۔خدشہ یہی ہے کہ اس قسم کی تحریکیں دشمن قوتوں کے لئے مہمیز کا کام کریں گی۔ خدانخواستہ ان ریلیوں میں کوئی سانحہ رونما ہو گیا تو ملک کی داخلی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک انصاف جان بوجھ کر کسی ایسے ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے لیکن اگر یہ بے خبری میں دشمن کا کام آسان کر گئی تو نقصان کسی ایک جماعت کا نہیں پورے ملک کا ہو گا۔ تحریک انصاف کو سوچنا ہے کہ اگر ملک رہے گا تو اسی میں اس کی بھی بقا ہے۔ یہ خود کو الگ کر کے اپنی سیاست کے اسرار و رموز طے نہیں کر سکتی۔ ترجمان پاک فوج جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق داعش پاک افغان سرحد پر خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اگر ہم صرف اسی ایک نکتے کو لے لیں‘ ہم سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو ایک طرف رکھ دیں‘ تب بھی اس ملک کو ہماری سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسی میچورٹی درکار ہے جو اس ملک کے داخلی اور خارجی خطرات کوکم کرے نہ کہ انہیں بڑھانے کا موجب بنے۔ اگر سپریم کورٹ میں عمران خان کی درخواست فنی بنیادوں پر مسترد ہوئی ہے تو اس میں قصور درخواست دہندہ کا ہے نہ کہ فیصلہ ساز ادارے کا۔ سب سے بڑا سوال یہ کہ خان صاحب اگر عوامی زندگی مفلوج کر کے اپنے مطالبات کا حصول چاہتے ہیں تو پھر ہر وہ گروہ جو تھوڑی بہت افرادی اور مالی قوت رکھتا ہے‘ کل کلاں اپنا اپنا کنٹینر اور اپنے مطالبات لے کر میدان میں اتر آئے گا۔ یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر بچے گا کیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved