تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     06-09-2016

ویلنگکر: سنگھ پھر سوچے

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی تاریخ میںایسا پہلی بار ہوا ہے۔کسی صوبے کے سربراہ کو عہدے سے آزاد کرنے کی بات پہلے کبھی نہیں سنی گئی ۔ گووا کے سنگھ سربراہ سبھاش ویلنگکر کو اس لیے عہدے سے الگ کیا گیا کہ وہ آگے کی بھاجپا سرکار سے درخواست کر رہے تھے کہ سنگھ اور بھاجپا کی زبان پالیسی کیا ہے؟ 2012 ء کے گووا کے چنائو میں بھاجپا نے اپنے منشور میں مراٹھی اور کونکن کو ذریعہ تعلیم بنانے کی حمایت کی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کو سنسکرت کے خلاف اور غیر ملکی قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں وزیراعلیٰ بنے منوہر پاریکر نے گووا کے جلسوں میں انگریزی کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے تھے۔ انہوں نے انگریزی ذریعہ تعلیم والے سکولوں کی گرانٹ بند کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ وزیراعلیٰ رہتے ہوئے منوہر پاریکر نے اسے چناوی جملہ کہہ کر اُڑا دیا۔ نئے وزیراعلیٰ لکشمی کانت پرسیکر بھی کچھ نہیں کر سکے۔
گووا کے سنگھ سربراہ ہونے کے ناتے ویلنگکر نے اپنی ہی سرکار کو للکار دے ڈالی۔ انہوں نے مانگ کی کہ انگریزی کے ذریعے پڑھانے والے سکولوںکی گرانٹ بند کی جائے۔ انہوں نے بیان دیا ‘جلسے کیے اور مظاہرے بھی کیے۔ ایک سچے سوئم سیوک اور کٹر وطن پرست ہونے کا ثبوت انہوں نے دیا۔ انہوں نے بھاجپا صدر امیت شاہ کو کالے جھنڈے دکھانے کی بھی ہمت کی۔ وہ ایسا کرنے کے پورے حق دار ہیں۔ آج کے بھاجپا کے قومی اور صوبائی لیڈر جب بچے رہے ہوںگے تب سے ویلنگکر سنگھ کی گووا شاخ کو سینچ رہے ہیں۔ ان کا اصول کتنا طاقتور ہے کہ گووا کے لگ بھگ سبھی سنگھ عہدیدارن نے استعفے دے دیے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے بھی ان کی تعریف کی ہے۔ اگر ویلنگکر چاہیں تو ایک نئی پارٹی کھڑی کر سکتے ہیں‘ جو گووا میں بھاجپا کے لیے جان لیوا ہو سکتی ہے۔
لیکن بھاجپا کی مجبوری بھی ہمیں سمجھنا چاہیے۔ بھاجپا ایک سیاسی پارٹی ہے اور ہر پارٹی کی سانس اقتدار میں بستی ہے۔ اقتدار ہی اول ہے، باقی سب فالتو ہے۔ اگر انگریزی سکولوں کی مدد بند کر دی جائے تو بھاجپا کو ڈر ہے کہ گووا کے عیسائی ووٹ خطرے میں پڑ جائیںگے؛ حالانکہ نہ تو عیسیٰ مسیح انگریزی جانتے تھے اور نہ ہی بائبل انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ سنگھ اور بھاجپا کے لیڈروں میں اتنی عقل نہیں ہے کہ وہ عیسائی اداروںکو پیار سے ڈگا سکیں۔ اگر پاریکر جیسے لوگ چار سال پہلے ہی (اقتدار میں ہوتے ہوئے ) اپنے چناوی منشور پر ایمانداری سے کام شروع کر دیتے تو آج انہیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ اب گووا کے چنائو سر پر ہیں‘ اس لیے امیت شاہ اور پاریکر اپنے اصولوں کی دُم دبا کر رکھیں‘ یہ ضروری ہے۔ مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ اس سارے معاملے کے بھڑکنے کے پیچھے اصلی سبب پاریکر کی اکڑ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پاریکر نے اپنے گرو سبھاش ویلنگکر سے ویسا ہی مذاق کیا ہوگا جیسے نریندر مودی نے ایڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کا کیا ہے۔ ویلنگکر ‘ ویلنگکر ہیں۔ وہ سب کو سکھائے بنا نہیں رہیں گے۔ سنگھ کی یہ سوچ صحیح ہے کہ سنگھ سربراہ کو اپنی ہی سرکار کے خلاف مورچہ کھولنا اور عہدے پر بیٹھے ہوئے تحریک شروع کرنا اچھا نہیں لگتا، لیکن میں سنگھ سے پوچھتا ہوں کہ اس کے پاس کیا یہی ایک واحدراستہ بچا تھا۔ ویلنگکر کو نکال کر سنگھ پچھتائے گی۔ سنگھ کے سر پر اصول توڑنے کا کالا ٹیکا لگ جائے گا۔ وہ اپنے فیصلے پر پھر سوچیں۔ 
کیا مدر ٹریسا سنت (فقیر) تھیں؟
کیتھولک فرقے کے عالمی گرو پوپ فرانسس آج مدر ٹریسا کو بزرگ فقیرکا خطاب دیں گے۔ مدر ٹریسا بھارتی شہری تھیں اس لیے کوئی انہیں سنت کہے اور عالمی سطح پر کہے توکیا ہمیں اچھا نہیں لگے گا؟ ویسے بھی انہیں بھارت رتن اور نوبل انعام مل چکا ہے۔ ان کے رول پر کئی کتابیں بھی آچکی ہیں اور چھوٹی موٹی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
لیکن میرے دل میں آج یہ حسرت پیدا ہوئی ہے کہ معلوم کروں کہ کیتھولک فرقے میں سنت کا اعلان کس کے لئے کیا جاتا ہے؟ دو شرائط ہیں۔ ایک شرط تو یہ ہے کہ جو عیسیٰ مسیح کے لیے اپنی زندگی قربان کر دے اور دوسری یہ کہ جو زندہ ہوتے ہوئے یا مرنے کے بعد بھی کم ازکم دوکرشمے کرے۔ مدر ٹریسا نے یہ دونوں شرطیں پوری کی ہیں۔ اسی لیے پوری تسلی کرنے کے بعد رومن کیتھولک چرچ آج انہیں ''بزرگ فقیر‘‘کے خطاب سے نوازے گا۔ 
جہاں تک کرشموں کی بات ہے ‘ یہ خالص ڈھونگ ہے۔ سائنس ‘ دماغ اور دلیل کی کسوٹی پر انہیں تولا جائے تو یہ لایعنی ثابت ہوںگے۔ مدر ٹریسا کا پہلا کرشمہ وہ تھا جس میں انہوں نے ایک بنگالی عورت کے پیٹ کی رسولی کو اپنے ہاتھ لگانے سے گلا دیا۔ ان کا دوسرا کرشمہ یہ ماناجاتا ہے کہ ایک برازیلین آدمی کے سر میں کئی گانٹھوں کو انہوں نے گلا دیا۔ یہ کرشمے انہوں نے اپنے وفات پانے کے گیا رہ برس بعد 2008ء میں کر دکھائے۔ ایسے مزاحیہ کرشموں کے لیے فقیر کا خطاب ضروری کیسے مانا جاتا ہے؟ ایسے کرشمے صرف عیسائیت میں نہیں ہیں‘ہمارے بھارت کے ہندو ڈھونگی بابا‘ بھوپے‘بازیگر بھی دکھاتے رہتے ہیں اور اپنی دکانیں چلاتے رہتے ہیں۔
جہاں تک مدر ٹریسا کے انسان کی خدمت کی بات ہے‘ اس کی پول بھی انہی کے ساتھی اروپ چٹرجی نے کتاب میں کھول کر رکھ دی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ مدر ٹریسا کا سارا کھیل لوگوںپر رحم دکھانے پر ٹکا ہوا تھا۔ وہ اپنی خانقاہوں میں مریضوں،
معذوروں‘نونہال پھینکے ہوئے بچوں ‘ موت سے جھوجتے ہوئے لوگوں کو اس لیے نہیں لاتی تھیں کہ ان کا علاج ہو سکے بلکہ اس لیے لاتی تھیںکہ ان کی خطرناک حالت دکھا کر لوگوں سے ہمدری حاصل کر سکیں۔ ان کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہو سکے جس سے رحم ابھر سکے۔ ان کے پاس کسی کے علاج کا کوئی بندوبست نہیںتھا اور مرنے والوں کے سر پر پٹی رکھ کر انہیں وہ دھوکے سے عیسائی بنا لیتی تھیں۔ مرتے ہوئے آدمی سے وہ پوچھ لیتی تھیں کہ ''کیا تم کو جنت میں جانا ہے‘‘؟ اس سوال کے جواب میں 'نا‘ کون کہے گا؟ 'ہاں‘ کا مطلب ہوا بپتسما۔ کسی کو دوا دے کر یا پڑھا کر یا پیٹ بھر کر بدلے میں اس کا دین چھیننے سے غلط کام اور کیا ہو سکتا ہے؟ کوئی اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب میں جائے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کا کام کیا کوئی فقیرکبھی کر سکتا ہے؟ 1994ء میں لندن میں کرسٹو فر ہچنس اور طارق علی نے ایک فلم بنائی جس میں مدر ٹریسا کی تقاریر کا آنکھوں دیکھا حال دکھایا گیا تھا۔کرسٹوفر نے پھر ایک کتاب بھی لکھی جس میں بتایا کہ کیسے ہیٹی کے بدنام اور لٹیرے تانا شاہ زیاںکلاڈ دُبالیے سے مدر ٹریسا نے عزت اور ملکیت بھی وصول کی۔ لندن کے مشہور رابرٹ میسویل اور چارلس کیٹنگ جیسے مجرموں سے انہوں نے کروڑوں روپیہ لیا۔ انہوں نے ایمرجنسی کی حمایت کی اور بھوپال گیس حادثے پر لیپا پوتی کی۔ شکر گزار ہیں مدر ٹریسا جن کے سینٹ(فقیر) بننے پر ہمارے پرچار کے شوقین لیڈر ویٹیکن پہنچ گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved