تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     06-09-2016

ہندوستان جاگ رہا ہے!

ہندوستان میں 2 ستمبر کی عام ہڑتال محروم و مجبور طبقات کی اس نظام کے خلاف جد و جہد کی روایت کا ایک اور تسلسل تھا۔ سارے ملک میں کروڑوں محنت کش بظاہر وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی معاشی پالیسیوں بالخصوص نجکاری کے خلاف ایک روزہ ہڑتال میں شریک ہوئے۔ ہندو انتہا پسندی کے لبادے میں مودی سرکار در حقیقت سامراجی اور مقامی سرمایہ داری کے مفادات کی نمائندہ ہے۔ الجزیرہ کے مطابق اس ہڑتال میں 18کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا جن میں سٹیٹ بینک ملازمین، نرسیں، سکول ٹیچر، ڈاک کے محنت کش، کانکن اور تعمیرات کے مزدور شامل تھے۔ کچھ ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کے مطابق یہ تعداد 20 کروڑ تھی جو پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ گزشتہ برس 2 ستمبر کی عام کی ہڑتال میں 15کروڑ محنت کش شریک تھے۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے پر سی آ ئی ٹی یو، اے آئی ٹی یو سی، آئی این ٹی یو سی ، ایچ ایم ایس اور چھ دوسری بڑی ٹریڈ یونین تنظیموں نے اس ہڑتال کی کال دی تھی۔ یو نین لیڈروں نے وزیر کی جانب سے غیر ہنر مند محنت کش کی کم از اجرت 6396 روپے سے بڑہا کر 9100 روپے کرنے کی پیشکش رد کر دی تھی۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق محنت کشوں کے مطالبات میں پیداوار نہ دینے والے کارخانوں کو بند کرنے کے حکومتی منصوبے ، کچھ صنعتوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی حد میں اضافے اور سرکاری کمپنیوں کے شیئرز کی فروخت کے حکومتی منصوبوں کے خاتمے شامل تھے۔ یونینز کے مطابق حکومت کو سب کے لیے سوشل سکیورٹی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کی ضمانت اور کم از کم اجرت کو دگنا کرنا چاہیے۔
ہندوستان کے کارپوریٹ میڈیا کے مطابق نئی دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں بجلی پانی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی متاثر نہیں ہوئی، لیکن دہلی میں حالیہ تاریخ میں نرسوں کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہر ہوا جس میں بیس ہزار افراد نے صفدر جنگ ہسپتال سے جلوس نکالا۔ تاہم نجی بینک کام کرتے رہے اور سکول اور کالج بھی کھلے تھے۔ ہڑتال کی قوت اور پھلائو کا یہ عالم تھا کہ ریاستی جبر اور نوجوانوں کی بغاوت کے باوجود جموں اور کشمیر میں ہڑتال تھی اور سی آئی ٹی یو جموں کشمیر کے صدر یوسف تارگامی نے جموں شہر میں ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کی۔ الجزیرہ کے مطابق جمعہ کو ہزاروں سرکاری بینک، دفاتر اور کارخانے بند تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں خلل تھا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر جنوبی ریاستوں کرناٹک اور کیرالہ میں تھا۔ بہار میں کاروبار اور دکانیں بند رہیں اور یونین کارکنان نے ٹرینوں اور روڈ ٹرانسپورٹ بند کروا دیں۔
آج ہندوستان میں نا برابری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ نیو ورلڈ ویلتھ کے مطابق کروڑ پتی یا دس لاکھ ڈالر سے زیادہ دولت مند افراد ملک کی 54 فیصد دولت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ غربت میں اضافہ ہوئے جا رہا ہے اور2010ء میں شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد 77 کروڑ سے بڑھ کر 83.6 کروڑ ہو گئی ہے۔ مودی کی رجعتی سرکار میں حالات اور بھی تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق 50 فیصد ہندوستانیوں کے پاس سر چھپانے کی مناسب جگہ نہیں ،70 فیصد مناسب ٹائلٹ سے محروم ہیں (جس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں) 65 فیصد گھروں کے قریب پانی کا ذریعہ نہیں اور 85 فیصد دیہات میں سیکنڈری سکول نہیں ہے۔ 40 فیصد تک سڑک ہی نہیں جاتی۔ 
ہندوستان دنیا کے دس امیر ترین ممالک میں شامل ہے اور مجموعی انفرادی دولت 5600 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن ایک عام ہندوستانی شدید غربت کا شکار ہے۔ ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی نوجوانوں کی تعداد رہتی ہے اور66 فیصد آبادی35 سال سے کم عمر ہے۔ چناچہ معاشی بحران اور بے روزگاری کے سماجی اثرات کہیں زیادہ بد تر ہیں۔ 
برسر روزگار محنت کشوں کو 'ری سٹرکچرنگ‘ کے نام پر ملازمت کی مراعات اور سہولیات پر شدید حملوں کا سامنا ہے۔کارپوریٹ سرمایہ دار اورحتیٰ کہ چھوٹے کاروبار بھی محنت کشوں کو 'کنٹریکٹ‘ پر رکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں محنت کش بیگار کی جکڑ بندی میں ہیں۔ 14سال کی عمر سے کم کروڑوں بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں۔ چالیس کروڑ کی لیبر فورس میں سے 94 فیصد سے زیادہ محنت کش قانونی دائرے سے باہر غیر منظم جگہوں پر کام کرتے ہیں جن میں ریڑھی لگانے والوں سے لے کر گھر پر جواہرات پالش کرنے کی صنعت شامل ہیں۔
2008ء میں منظم شعبے میں محنت کشوں کی تعداد 2 کروڑ 75لاکھ تھی جن میں1 کروڑ 73 لاکھ سرکاری اور سرکاری ملکیت میں اداروں میں ملازم تھے۔ ان محنت کشوں کے سر پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ مودی نے اس کے چنائو پر اربوں روپے خرچ والے سرمایہ داروںسے ان لیبر مخالف پالیسیوں (اصلاحات) کا وعدہ کر رکھا ہے۔ لیکن یہ مالکان اور سامراجی مودی سرکار کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ محنت کشوں کی جد و جہد اور گزشتہ برس کی عام ہڑتال سے یہ نام نہاد اصلاحات سست پڑ چکی ہیں۔ اس ہڑتال سے یہ ایجنڈا مزید سست روی کا شکار ہو گا۔
نیچے سے بے پناہ دبائو کی وجہ سے ٹریڈ یونینز نے ہڑتال کی کال واپس لینے سے انکار کر دیا تھا، اگر چہ آخری لمحات پر حکومت کم از اجرت میں اضافے سمیت کچھ مطالبات ماننے پر تیار ہو چکی تھی۔
بی جی پی کی ماخذ تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے جڑی بڑی یونین بھارتیہ مزدور سنگھ نے ہڑتال کی مخالف کی اور اب انہیں کم از کم محنت کشوں کی باشعور پرت کے غصے کا سامنا کرنا ہو گا۔ 
تاہم اس ہڑتال کی کامیابی کا یہ مطلب نہیں محنت کشوں کے مطالبات تسلیم ہو جائیں گے۔ ہڑتال کے بعد زندگی پھر اسی تکلیف دہ معمول کی جانب لوٹ چکی ہے لیکن یہ معمول پچھلے سال سے فرق ہے۔ باشعور نوجوانوں اور محنت کشوں کے بڑے حصے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں اور سال کے سال عام ہڑتال اور بیچ کے وقفے میں کچھ بھی نہ کرنے کے عمل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
روزنامہ ہندو کے مطابق ''محنت کشوں کی چودہ تنظیموں اور فیڈریشنوں نے مزدور ادھیکار سنگھرش ابھیٔن کے نام سے سی ٹی یو او تنظیموں کے متبادل نیا پلیٹ فارم کھڑا کیا ہے‘‘ اس کے کو آرڈینیٹر امیتا بھٹا چاریہ نے کہا کہ '' لبرلائیزیشن کے25 برسوں کے دوران سی ٹی یو او تنظیمیں مضبوط لیبر تحریک بنانے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہیں۔ پچھلے سال بھی عام ہڑتال ہوئی تھی اور اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ کیا مزدوروں کے مسائل میں کوئی بہتری آئی ہے؟ سی ٹی یو او تنظیموں نے محنت کشوں کے مفادات کو بار بار کمزور کیا ہے اور کارپوریٹ نواز ریاست سے سمجھوتے کیے ہیں۔ اسی لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا ہے‘‘۔ اس نئی تنظیم نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا اور اسے اپنے سال بھر کے کام کا آغاز قرار دیا۔ 
یہ ہڑتال اور مزدور جد و جہد نہ صرف مودی سرکار کی مقبولیت کے ناٹک بے نقاب کرتی ہے بلکہ محنت کشوں کے سامنے اس کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ دنیا بھر میں محنت کشوں کی جد و جہد پھر سے ابھر رہی ہیں۔ اصل ہندوستان جو محنت کشوں اور عوام کا ہندوستان ہے، بیدار ہو رہا ہے۔ طبقاتی شعور آگے جانے سے کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی قیادتوں پر بہت دبائو پڑے گا۔
سرمایہ داری ہندوستان کو ایک متحد جدید صنعتی قوم بنانے اور سماجی ڈھانچے اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور مذہبی قدامت پرستی کا خاتمہ کرنے کے قابل سیکولر ریاست تشکیل دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ بی جے پی، کانگریس اور تمام مذہبی اور سیکولر بورژوا پارٹیاں سرمایہ داری کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور اس نظام میں رہتے ہوئے حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔
محنت کش طبقہ، نیا عہد اور تحریکیں سماجی اور معاشی نظام میں تبدیلی کے لیے متحرک ہو ری ہیں۔ مارکسزم کے نظریات اور انقلابی سوشلزم کے پروگرام سے لیس ایک سیاسی قوت ہی یہ فریضہ ادا کر سکتی ہے۔ اس عام ہڑتال نے ایک مرتبہ پھر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت کے سامنے تاریخ کا چیلنج رکھ دیا ہے۔ اس تاریخی فریضے میں ناکامی کی سزا بہت سخت ہو گی۔ ان کے پاس کھونے کو صرف پارلیمانی سیاست اور اس نظام سے جڑی زنجیریں ہیں جبکہ ہندوستان کے ایک ارب سے زیادہ عوام کے پانے کو ایک جہان ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved