یکایک پاکستان وجود میں نہیں آیا۔ یہ ہزار سال کے خوابوں کا ثمر ہے۔ ہم بگڑ گئے۔ ہمارے حکمران ہم سے زیادہ بگڑ گئے مگر آج بھی اس سرزمین پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے۔ عاقبت نااندیشی پہ اگر ہم تُل نہ جائیں تو دشمن ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں‘ ہم میں ہے۔ ہم جو خود شکن ہیں‘ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے۔
کوئٹہ شہر کا شکریہ کہ اس نے مسافر کے دل کو پگھلا دیا اور اس کی گداز ہوا نے کھوئے ہوئے آنسو واپس کر دیئے۔ مدھم پڑتے ہوئے سارے خوابوں کی آن بان لوٹا دی۔ شام ڈھلتے ہی اس کی ہوا میں خنکی ہی نہیں اترتی‘ ایک گداز اور رچائو سا جاگ اُٹھتا ہے۔ سویر میں تازگی ہے اور شبوں کی خاموشی میں سپنے جاگ اٹھتے ہیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے کوئٹہ کلب میں ایک فوجی افسر سے ملاقات ہوئی‘ میجر شہزاد نیّر۔ ''چاک سے اترے وجود‘‘ کے نام سے ان کا مجموعہ کلام چند سال پہلے چھپا تھا‘ جسے ''پروین شاکر‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اپنا ایک شعر انہوں نے سنایا۔ بہت دیر جی میں اُجالا رہا ؎
فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا
بساطِ خاک سے اُٹھنا ہمارا
جنرل عامر ریاض کہتے ہیں کہ پاک چین شاہراہ پر گاڑیاں فراٹے بھرنے لگیں اور رکوڈک میں کان کنی کا آغاز ہو جائے تو پانچ برس کے بعد بلوچستان کو اسلام آباد سے مالی استعانت کی ضرورت نہ رہے گی۔ مزید پانچ برس کے بعد پاکستان غیر ملکی سہاروں سے بے نیاز ہو جائے گا۔
برسوں پہلے سرگوشیوں میں جو بات کہی جاتی‘ باضابطہ انہوں نے اس کی تصدیق کی: رکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت کم از کم ایک ہزار بلین ڈالر ہے۔ بہت سی قیمتی دھاتیں اس کے سوا ہیں۔ سوئی سے تین گنا بڑے گیس اور تیل کے ذخائر دریافت ہو چکے۔ کسی بھی وقت آغاز کار ممکن ہے۔ پاکستان کو باجگزار بنانے کا آرزومند بھارت یوں ہی پریشان نہیں۔ چین کے گرد گھیرا ڈالنے کا خواہاں انکل سام بے سبب وحشت کا شکار نہیں۔ یونہی اس نے دہلی سے دفاعی معاہدے کا ڈول نہیں ڈالا۔ پاکستان میں چین کے سفیر سے کہا گیا: امریکہ کو بھارتی فضائی تنصیبات پاکستان کے خلاف درکار نہیں‘ ظاہر ہے کہ چین کے خلاف یلغار کا امکان ملحوظ ہے‘ کیا آپ کو اس کا ادراک ہے۔ ان کا جواب یہ تھا: پوری طرح ہمیں اس کا احساس ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے۔
ایک نئے عالمی کھیل کا آغاز ہو چکا‘ ہمارے لیڈروں اور دانشوروں کو ابھی جس کا پوری طرح اندازہ نہیں۔ افریقہ‘ ایشیا اور یورپ کے نوّے ممالک سے تجارت کے لیے گوادر کی بندرگاہ جب کارگر ہو جائے گی تو معاشی اور سیاسی اعتبار سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے لگے گا۔ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ جائے گی۔ چاہ بہار کی بارہ برتھوں کے مقابلے میں گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ مکمل ہونے پر 120 برتھیں ہوں گی۔ کیلی فورنیا میں دنیا کی سب سے بڑی پورٹ سے بھی تقریباً دوگنا۔
دُشمن کی تیاری مکمل تھی۔ دس برس ہوتے ہیں اسلام آباد میں متعین بھارتی سفیر نے اپنی سرکار کو لکھا: پاکستان میں رسوخ کے تمام مرحلے ہم مکمل کر چکے۔ جب چاہیں اپنی مرضی سے اس سرزمین کو ہم تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ کل بھوشن کو‘ 2013ء تک جو بھارتی بحریہ کے لیے کام کیا کرتا اور پھر ''را‘‘ نے اچک لیا‘ بلوچستان میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تو اسے بتایا گیا: ہر کہیں تمہارا استقبال کرنے والے موجود ہیں۔ پوری طرح سے ہماری گرفت قائم ہے۔ ہمارے کارندے چہار جانب پھیلے ہیں۔ یہ الگ بات کہ جس روز وہ روانہ ہوا‘ پاکستانی ایجنسیوں کو خبر تھی۔ اگلے ہی روز وہ گرفتار کر لیا گیا۔ مڈبھیڑ پر وہ ٹھٹکا اور یہ کہا: میں ایک افسر ہوں‘ براہ کرم مجھے زد وکوب نہ کیجئے گا۔ پھر توتے کی طرح وہ فرفر بولنے لگا۔ اس روانی کا سبب پوچھا گیا تو اس نے کہا: مارپیٹ کے بعد بھی تو بکنا ہی تھا‘ اذیت جھیلنے سے کیا حاصل۔
تجارتی راہداری کو سبوتاژ کرنے کے لیے ''را‘‘ نے چار سو ملین ڈالر مختص کئے ہیں اور اب انکل سام اس کی مدد کو آیا ہے۔ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد سے آنے والے اخبار نویسوں کو اسلحے کے ڈھیروں کی تصاویر دکھائی گئیں‘ گزشتہ ڈیڑھ دو برس میں جو دراندازوں سے چھینے گئے۔ راکٹ‘ رائفلیں‘ بارودی سرنگیں‘ بھارتی فیکٹریوں میں ڈھالا گیا گولہ بارود جو افغانستان کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ ''ایک پورا نیا بریگیڈ اس کے بل پر ہم کھڑا کر سکتے ہیں‘‘ ایک متعلقہ فوجی افسر نے بتایا۔
پاکستان پر خدا مہربان ہے۔ بلوچستان کو اوّل جنرل ناصر جنجوعہ ایسا افسر ملا جس نے مغائرت کی سب دیواریں ڈھا دیں۔ اپنائیت کا ایسا ماحول پیدا کیا کہ کسی نے تصور تک نہ کیا تھا۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے یہی کارنامہ انجام دینے کے لیے ان کی افتادِ طبع استوار کی تھی۔ ان کے بعد جنرل عامر ریاض آئے۔ دونوں لاہور کے فرزند۔ دونوں میں وہی سادگی‘ وہی بے ساختگی جو شہرِ شیخِ ہجویر کے مکینوں کو سب سے بڑھ کر عطا ہوتی ہے۔ یاد ہے کہ جنرل جنجوعہ جب رخصت ہو رہے تھے تو عرض کیا: اب کیا ہو گا؟ بولے: بس نام بدل گیا ہے‘ ویسا ہی محبت کرنے والا آدمی ہے۔ جنرل جنجوعہ کی سی اپنائیت تو شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے۔ جنرل عامر ریاض بھی مگر الفت اور اُنس کے آدمی ہیں۔ خیال میں ایک کاٹ مگر لہجے میں ندی کی روانی۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں‘ ملک جن کے ایمان کا حصہ ہے۔ کئی اخبار نویسوں نے کہا: ایسا بے تکلف آدمی ہم نے نہیں دیکھا۔ اس بے تکلفی کے ساتھ تو آپ سیاستدانوں سے بات نہیں کر سکتے۔ بے شک جنرل راحیل شریف نے بہترین آدمی کا انتخاب کیا۔ اور وہ بھی لاہور کے فرزند ہیں۔ پھر جنرل شیر افگن ہیں۔ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کبھی کسی نے پاکستان کو اس طرح بھی ٹوٹ کر چاہا ہو گا۔ ایسا فرض شناس کوئی دوسرا بھی ہو گا۔ بلوچستان کے شہروں کی بات وہ اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی اپنی اولاد کا ذکر کرے۔ ایک ہزار برس ہوتے ہیں‘ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ‘ جب غزنی سے لاہور پہنچے تھے۔ شاید اسی دن پاکستان کا تخم بویا گیا تھا۔ شاید ان کا فیض آج بھی جاری ہے۔
فرمایا: دمشق کی جامع اموی میں سرکارﷺ کو میں نے خواب میں دیکھا۔ ایک نحیف و نزار بوڑھے آدمی کو وہ بائیں ہاتھ لیے تھے۔ عرب جب کسی کو بائیں ہاتھ لیتے تو یہ پناہ دینے کا استعارہ ہوتا ہے۔ فرمایا: آپؐ کے میں نے قدم لیے اور عالی مرتبت سے‘ ان بزرگ کے بارے میں سوال کیا۔ ارشاد کیا: یہ تمہارے امام ہیں‘ ابو حنیفہ! اس کے بعد آپ کو سرزمین ہند کی طرف روانہ کیا گیا۔ اسی وقت جب محمود غزنوی نے یلغار کی۔ عسکری‘ سیاسی اور روحانی تسخیر کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔ ایک بھولی بسری نثری نظم کے چند مصرعے یاد آئے:
یہ وادیاں میری ہیں
تا بہ ابدان پر میری حکمرانی رہے گی
میں محمود ہوں‘ غزنی کا محمود
کابل سے ایک پتھر کی دوری پر غزنی کا وہ شہر آباد ہے‘ امتدادِ زمانہ سے جس کا رنگ و روپ اجڑ چکا‘ تاریخ کے ایوان میں گو اس کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا۔ آدم کی اولاد نے محمود ایسے فاتح کم دیکھے ہیں‘ جن کی تلوار سے نئے زمانے طلوع ہوئے۔ بے سبب نہیں کہ برہمن اس سے نفرت کرتا ہے اور اس کے زیر اثر سیکولر بھی۔ صبح و مسا اللہ کا ذکر کرنے والا آدمی‘ سادہ اطوار اور منکسر مزاج ایسا کہ بغداد کے دربارِ خلافت سے تصدیق کا پروانہ موصول ہوا تو سواگت کے لیے ننگے پائوں غزنی سے باہر نکلا۔ مسلمان بادشاہوں اور درویشوں میں کبھی بہت دوری نہ ہوا کرتی تھی۔ محمود نے لاہور کا قصد کیا تو اس سے پہلے شیخِ ہجویر کی خدمت میں حاضر ہوا تھا‘ جس طرح دہلی کا رخ کرنے سے قبل شہاب الدین غوری نے شیخ ہجویر کے مزار پر چلہ کاٹنے والے خواجہ معین الدین چشتیؒ سے اجازت کی استدعا کی تھی ع
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
افسوس کہ اسی کابل سے کرائے کے قاتل آتے ہیں‘ جس کے 35 لاکھ مکینوں کی 36 برس ہم نے میزبانی کی۔
یکایک پاکستان وجود میں نہیں آیا۔ یہ ہزار سال کے خوابوں کا ثمر ہے۔ ہم بگڑ گئے ۔ ہمارے حکمران ہم سے زیادہ بگڑ گئے مگر آج بھی اس سرزمین پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے۔ عاقبت نااندیشی پہ اگر ہم تُل نہ جائیں تو دشمن ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں ‘ہم میں ہے۔ ہم جو خود شکن ہیں‘ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے۔