تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     07-09-2016

اب کشمیری بچے کی جان لیں گے کیا؟

طبل جنگ بچ چکا۔ تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ منہ سے جھاگیں نکلنے کا موسم آن پہنچا۔ سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے سموںکی موسیقی سے بھری آوازیں ہر طرف گونج رہی ہیں۔ قومی اسمبلی ہو یا سینٹ؛ لاہور، روالپنڈی ہو یا کراچی ہر جگہ آپ کو غصہ اور دھمکیاں سنائی دیںگی۔ 
اس سیاسی دھما چوکڑی میں فائدہ بیوروکریسی کو ہو رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں سے ساز بازکر کے فائدے لینے والی بیوروکریسی بھی ملک کو چلانے میں ناکام ہے۔ پچھلے ہفتے دو ایسی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہوا تو دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ ملک کو کیسے چلا رہے ہیں۔۔۔۔۔یہ کہانیاں پھر سنائوںگا۔ 
پہلے ذرا وزیرتجارت خرم دستگیرکی سن لیں۔ قومی اسمبلی میں بڑے آرام سے فرماتے ہیں کہ جب سے وہ وزیرتجارت بنے ہیں، پاکستان کی ایکسپورٹ چار ارب ڈالر نیچے آگئی ہے۔ جب پیپلز پارٹی سے اقتدار نواز شریف نے لیا تھا تواس وقت ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالر سالانہ تھی، تین برس بعد بیس ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ اسی سانس میں خرم دستگیر یہ بھی فرماتے ہیںکہ دنیا کے چوراسی ممالک کے ساتھ پاکستان کا تجارتی بیلنس خسارے میں ہے۔ یعنی ہم ان کے ساتھ گھاٹے کا کاروبارکر رہے ہیں۔ ان ملکوںکو ہم اپنی مصنوعات کم بیچتے ہیں یا سرے سے نہیں بیچ پاتے جبکہ ان ملکوں سے ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں۔ یوں یہ چوراسی ممالک پاکستان سے کاروبار کر کے فائدے میں اور ہم مسلسل گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ایک ممبر نے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیش، پاکستان سے ایک ارب ڈالرکی کاٹن پروڈکٹس منگواتا ہے اورانہیں تین ارب ڈالرکی بناکر (ویلیو ایڈیشن کے بعد) دنیا کی مارکیٹ میں فروخت کر کے نہ صرف سالانہ دوارب ڈالرکماتا ہے بلکہ اپنے ہاں بنگالیوں کے لیے روزگار کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ 
میں نے پورے ہائوس میں غور سے دیکھا، کسی ایم این اے پر اس ہولناک انکشاف کا کوئی اثر نہ ہوا۔کسی کو دلچسپی ہی نہ تھی کہ خرم دستگیرکیا فرما رہے ہیں اور ملکی معشیت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ البتہ ایم کیو ایم کے ایم این اے سلمان مجاہد نے پوچھا کہ جن بیس ایم این ایزکو ڈالر دے کر بیرون ملک کشمیرکی لابی کرنے کے لیے بھیجا جارہا ہے ان کا کرائی ٹیریا (معیار) کیا تھا تو سرتاج عزیز نے ان کا یہ کہہ کر منہ بندکردیا کہ فکر نہ کریں، سب کی باری آئے گی۔ 
خرم دستگیرکاکہنا تھا ہمارے ہاں ویلیو ایڈیشن پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ فینسی لفظ ہے جو میں نے پہلی دفعہ 1998ء میں سنا تھا جب میں ملتان سے اسلام آباد سے ٹرانسفر ہوکر ڈان میں پہنچا اور زراعت کی رپورٹنگ شروع کی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سیکرٹری زراعت تھے۔ اس وقت سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ ویلیو ایڈیشن کس چیزکا نام ہے۔ پتا چلا ہم را میٹریل ہی دنیا کو بیچ کر خو ش ہوجاتے ہیں، ہم دھاگا یا لومز ہی دنیا کو بیچتے ہیں جبکہ دنیا ہم سے سستا دھاگا لے کر اسے کپڑوں کی شکل دے کر زیادہ مہنگا بیچتی ہے۔ ہمارے تاجراس پر خوش رہے کہ پاکستان کے کسان کو دل کھول کر لوٹو۔اس سے سستی کاٹن خریدو اور اسے دھاگا بنا کر بیچ دو۔کون ویلیو ایڈیشن کے چکر میں پڑے، جو مال ہاتھ لگ رہا ہے وہ لے لو۔ اس اپروچ کا یہ نقصان ہوا کہ نہ تو پاکستان اپنی ایکسپورٹ بڑھا سکا اور نہ ہی کسان کو قابل ذکر منافع مل سکا۔ صنعتکاروں اور تاجروں نے دھاگا بیچ کر ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری ٹیکسٹائل مل لگا لی اور ساتھ ہی حکومت سے حاصل کیا گیا قرضہ بھی معاف کرا لیا۔
لیکن وہ کسان جس سے کاٹن لی جاتی ہے وہ آج بھی دھوتی باندھے ننگے بدن کھیت میں کھڑا ہے۔ اس کی قسمت نہ بدلی جس کی وجہ سے تاجروں نے اربوں کما لیے۔ اگر وہ دھاگا دس روپے میں بیچنیکی بجائے اچھی کوالٹی کی شرٹ اور پینٹ بنا کر عالمی منڈی میں بیچتا، جیسے بنگلہ دیش کرتا ہے، تو یقیناً وہ سو روپے کماتا اورکسان کو بھی بیس روپے دیتے ہوئے اسے تکلیف نہ ہوتی۔ اگرچہ کچھ کاروباری اداروں نے ویلیو ایڈیشن پر زور دیا اور فنشنگ پروڈکٹس بیچنا شروع کیں۔ پچھلے دنوں لندن میں ایک بڑے برانڈکی جرابوں پر میڈ ان پاکستان پڑھا تو فوراً خرید لیں۔کبھی کسی شرٹ، جین کی پینٹ یا چمڑے کی جیکٹ پر میڈ ان پاکستان نظر آئے تو ضرور خرید لیتا ہوں تاکہ غیرملکی دکاندارکا اعتماد پاکستانی پروڈکٹس پر بڑھے۔ تاہم خرم دستگیر کی بات سن کر لگا کہ اب بھی ویلیو ایڈیشن نہیں ہو رہی۔ اٹھارہ برس بعد وہی گردان سن رہا ہوںکہ جب تک ویلیو ایڈیشن نہیں ہوگی،ایکسپورٹ نہیں بڑھ سکے گی۔ بڑھنا تو ایک طرف،اب ہر سال ایک ارب ڈالر نیچے جا رہی ہے۔ دوسری طرف کاٹن کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کاٹن بیلٹ میں شوگر ملز لگ گئی ہیں۔اب کسان کوکاٹن کی فصل منافع نہیں دیتی۔ ہمارے ٹیکسٹائل مالکان بھارت سے کاٹن منگوا رہے ہیں۔ وہ اپنے کسان کو درست قمیت نہیں دیتے، بھارتی کسانوںکو پورا منافع دیںگے۔ 
ہمیں بتایا گیا تھا کہ یورپی ملکوں سے جی پلس سٹیٹس ملنے کے بعد پاکستانی مصنوعات کی مانگ مزید بڑھ جائے گی، دنیا ہمارا مال خریدنے کے لیے پاگل ہوجائے گی، ہم یورپی مارکیٹوں پر چھا جائیںگے اور پاکستان ڈالروں سے بھر جائے گا۔کدھرگیا جی پلس کا فائدہ جس کا اتنا ڈھول پیٹا گیا کہ سب اس کا کریڈٹ لینے لگے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جاتے وقت کہہ گئی تھی کہ جی پلس کی تیس کے قریب شرائط ہم نے پوری کی تھیں، نواز شریف کو بنا بنایا حلوہ ملا تھا۔ اسی ضمن میں پھانسی کی سزا معطل کی گئی تھی جو یورپ کی سب سے بڑی شرط تھی۔ تاہم نواز شریف دور میں جی پلس کا سٹیٹس ملا توکسی نے کہا گورنر پنجاب محمد سرورکا کارنامہ ہے۔کسی نے کہا نواز شریف کا نام سن کر ہی یورپی کانپ گئے تھے کہ شیر آگیا، لہٰذا فوراً ہی سٹیٹس دے دو۔ اس سے پاکستانی مصنوعات کو ٹیکس کی مد میں رعایت ملی۔ کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی میں بتایا گیاکہ پاکستانی تاجر جی پلس سٹیٹس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ صرف ایک ارب ڈالرکے قریب تجارت اوپرگئی حالانکہ توقعات اس سے بہت زیادہ تھیں۔ پاکستانی تاجراس ذہنیت سے نہیں نکل سکا کہ جو چند ٹکے ملتے ہیں انہی پر گزارہ کر لو۔ نقصان ہوگیا تو قرضہ معاف ہوجائے گا۔ جب تاجروں پر سے یہ دبائو ہی ختم ہوجائے گا کہ جو کچھ انہوں نے بینکوں سے لے رکھا ہے، اسے واپس کرنا ضروری نہیں تو پھر یقینًا وہ اتنی ہی محنت کریں گے کہ ان کی زندگی خوشحال رہے۔
پاکستان کے ساتھ بہت دھوکے ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کے وقت اکثر یہ نعرے لگائے جاتے تھے کہ چند برسوں بعد پوری ٹیکنالوجی پاکستان منتقل ہوجائے گی۔ سب جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے۔ پرزے اسمبل کر کے کام چلانے سے امپورٹ بل بڑھتا گیا۔ اب یہ حالت ہو چکی ہے کہ ہر سال پاکستان چوالیس ارب ڈالرکی اشیا درآمد اور صرف بیس ارب ڈالر کی برآمد کرتا ہے۔ باقی چوبیس ارب ڈالرکہاں سے لائے جائیں تاکہ امپورٹ بل کلیر کر سکیں؟ اللہ بھلا کرے اوورسیز پاکستانیوںکا جو ہر سال سولہ سے اٹھارہ ارب ڈالر تک کا زرمبادلہ بھیج دیتے ہیں۔ اب پتا چلا کہ زرمبادلہ میں بھی تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ پھر باقی کے چھ سات ارب ڈالرکہاں سے پورے ہوںگے؟ 
پہلے ہم نے دہشت گردی کا کھیل شروع کیا۔ہم نے امریکیوںکے ساتھ ایک ڈیل کر لی کہ ہمارے جنگی اخراجات آپ ادا کریںگے۔ امریکی ہر سال پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ادا کرتے رہے۔ امریکیوںکے بقول وہ پاکستان کو بتیس ارب ڈالر ادا کرچکے ہیں۔ اب امریکیوں نے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ مزید ڈالرنہیں دیں گے کیونکہ پاکستان کو امریکی ڈالرز سے زیادہ حقانی نیٹ ورک سے پیار ہے جو افغانستان میں یورپی اور امریکیوں فوجیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ پہلے امریکہ نے ایف سولہ طیاروں پر پانچ سو ملین ڈالر سبسڈی روک دی، پھر یہ طیارے ہی روک دیے۔ایک ارب ڈالر سالانہ پہلے ہی روک چکا تھا،اب بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کر لیا۔ لیکن ہمیںکوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارے لیے افغانستان کے حقانی اہم ہیں ۔کابل کی یونیورسٹی پر حملہ کر کے وہی کام کیا گیا جو پشاور میں ہوا تھا۔ پشاور کے سکول میں زیادہ تر پشتون بچے مارے گئے اور کابل میں افغان بچے۔
برطانیہ ہر سال پاکستان کو سوشل سیکٹر میں ایک ارب پاونڈ کی امداد دیتا ہے پھر بھی پاکستان کو چار سے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت رہتی ہے جو اسحاق ڈار ہر سال قرضہ لے کر پورا کر رہے ہیں ۔ اس لیے تین برس میں چوبیس ارب ڈالر کا قرضہ لیا جا چکا ہے۔ 
دوسری طرف سعودی عرب میں پانچ ہزار پاکستانی ورکر جیلوں میں ہیں۔ باقی کو نکالا جا رہا ہے۔ یورپی ملکوں سے بھی غیرملکی تارکیں وطن کو اب اس طرح کام کی اجازت نہیں جیسے پہلے تھی۔ ہر ماہ پاکستانی تارکیں وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ یوں زرمبادلہ مزید کم ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ 
کالا شاہ کاکو کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے وزیرتجارت خرم دستگیرکا نام لے کرکہا، آپ جتنا کھاتے ہیں اتنا کام بھی کیا کریں۔ بیچارے خرم دستگیر اس سے زیادہ کیا کام کرسکتے تھے؟ تین سال میں چار ارب ڈالرکی ایکسپورٹ نیچے لانے کے لیے انہیں خاصی محنت کرنی پڑی ہوگی۔ افسوس! نواز شریف کو گوجرنوالہ کے اس شریف النفس کشمیری بچے کے کھانے پر بھی اعتراض ہے۔ کیا وزیراعظم اب بچے کی جان لیںگے!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved