تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-09-2016

کیا پنجاب حکومت سن رہی ہے؟

جہلم اور وہاڑی کے محض دو حلقوں میں ایک لاکھ افراد کا حکومت وقت پر عدم اعتماد کا اظہار معمولی واقعہ نہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ شریف برادران کے اسلوب حکومت میںکوئی ایسا خلا ہے جس پر عوام کی ایک بڑی تعداد نہ صرف خوش نہیں ہیں، بلکہ انہیں اگر موقع ملے تو وہ متبادل قیادت کو ترجیح دیں۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ حکومت نے اگر عوام کی اس آواز سے کان بند کیے رکھے تو یہ اس کے لیے خسارے کا سودا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ خلقِ خدا کو حکمرانوں کی کس بات نے ناراض کیا؟ 
اس میں شبہ نہیں کہ ایک مستحکم انفراسٹرکچر کے بغیر معاشی ترقی تو دور کی بات، معاشی سرگرمی ہی ممکن نہیں۔ معاصر دنیا میں ترقی کے جو مراکز موجود ہیں، ان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کو اولیت حاصل رہی۔ چین، ملائیشیا، ترکی اور بھارت، سب نے موٹرویز، میٹروز اور سڑکوں کے وسیع و عریض نظام کی بنیاد پر سرمایے کو دعوت دی۔ سرمایے نے جہاں اپنے لیے فضا سازگار دیکھی، وہاں کا رخ کیا۔ اس لیے ایک بڑے انفراسٹرکچر کی تعمیر اگر حکومت کی ترجیح ہے‘ تو یہ قابل فہم ہے؛ تاہم اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی ایک دوسری ذمہ داری ہے جو کم اہم نہیں اور وہ سماجی ترقی ہے۔ پنجاب حکومت نے اسے بے دردی سے نظرانداز کیا۔
صحت، تعلیم اور جینے کے لیے پُرامن ماحول، انسانی معاشرے کی بنیادی ضروریات ہیں۔ ان کی فراہمی حکومت کا اصل وظیفہ ہے۔ ان معاملات میں پنجاب حکومت کی کارکردگی پریشان کن حد تک خراب ہے۔ بجٹ کی فراہمی سے لے کر احکام کے نفاذ تک، ہر معاملے میں قدم قدم پر ایسی داستانیں بکھری پڑی ہیں‘ جو یہ گواہی دے رہی ہیں کہ عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ سماجی ترقی کے لیے تعلیم، صحت اور پولیس کے محکموں میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اس باب میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ پولیس میں خرابی اتنی ہمہ جہتی ہے کہ اس کا حال ہر آدمی سناتا ہے۔ مثال کے طور پر سٹریٹ کرائمز مبالغہ آمیز حد تک بڑھ چکے ہیں۔ میں راولپنڈی شہر کے آباد ترین علاقوں میں سے ایک میں رہتا ہوں۔ میں گزشتہ سالوں میں ذاتی طور پر کئی بار اس لاقانونیت کا شکار ہو چکا۔ میری گلی میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہو چکے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ محلے نے اپنی حفاظت کے لیے اپنے طور پر چوکیدار وغیرہ کا انتظام کر رکھا ہے۔ جرائم روز افزوں ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔
تعلیم کا حال ہمارے سامنے ہے۔ اساتذہ پر دباؤ بڑھا دیا گیا ہے لیکن انہیں سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ترجیح نہیں۔ سکولوں میں سٹاف رومز ہی نہیں اور اگر کہیں ہیں تو ان میں کرسیاں تک نہیں۔ سب جائزے اور سروے یہ بتاتے ہیں کہ شہر تو شہر، اب دیہات میں بھی لوگ نجی سکولوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ منہ مانگی فیس وصول کر رہے ہیں اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ کسی نظم کے تابع نہیں۔ سب سے بُرا حال صحت کا ہے۔ ہسپتال آبادی کے مقابلے میں کہیں کم ہیں اور پھر ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ بھی فراہم نہیں کیے جا رہے۔ بڑے شہر کے ہسپتالوں کی کہانیاں میڈیا پر دکھائی اور سنائی دیتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ ترجیحات کا حال یہ ہے کہ راولپنڈی کے مری روڈ پر ایک میٹرو کھڑی ہو گئی لیکن اسی سڑک کے کنارے، گردوںکا ایک ہسپتال تین سال پہلے زیر تعمیر تھا، آج بھی اُسی طرح زیر تعمیر ہے۔ دیہات کو تعلیم اور صحت کے حوالے سے جس طرح نظرانداز کیا گیا، وہ ایک المیہ داستان ہے۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔
انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سماجی ترقی میں جو پریشان کن تفاوت ہے، اس کا مظہر لاہور شہر ہے۔ لاہور شہر پہ جس طرح وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں اور دیگر صوبے کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس سے پنجاب میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے۔ لاہور کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کے ہسپتال بہتر نہیں ہو رہے لیکن سڑکوں پہ سڑکیں بنوائی جا رہی ہیں۔ میں نے کسی عقل مند آدمی کو نہیں سنا جو اورنج ٹرین کے منصوبے کی حمایت کرتا ہو۔ اس منصوبے میں جمالیاتی ذوق سے محرومی کا جو مظاہرہ ہوا، وہ بھی کم تشویشناک نہیں۔ لاہور پر وسائل کا یہ بے رحمانہ استعمال دیکھتے ہوئے، میں جب اس کے سیاسی مضمرات کو دیکھتا ہوں تو مجھے وقت کے حکمرانوں کی بصیرت پر مزید افسوس ہوتا ہے۔ لاہور پہ سب کچھ لٹانے کے باوجود ن لیگ کو کیا ملا؟ کشمیر کے انتخابات میں واحد نشست جو تحریک انصاف کو ملی وہ لاہور کی تھی۔ لاہور سے تحریک انصاف کو ن لیگ سے زیادہ نہیں تو کم ووٹ بھی نہیں ملے۔ تحریک انصاف یہاں سے ضمنی الیکشن بھی جیتی۔ مسلم لیگ کے سعد رفیق اور ایاز صادق شکست سے بال بال بچے۔ اتنا کچھ لٹانے کے باوجود لاہور شہر سے جیتنا، 2018ء کے انتخابات میں ن لیگ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اگر یہ وسائل دیہی پنجاب پر صرف ہوتے تو لوگ نواز شریف پر ووٹ تو کیا، اپنی جان نچھاور کر دیتے۔ اس افسوسناک سیاسی صورت حال کے باوجود لاہور پر التفات اور کرم ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ اب وزیر اعظم نے 22 ارب کی ایک اور سڑک تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
انفراسٹرکچر کی تعمیر ناگزیر ہے، لیکن سماجی ترقی اس سے کم اہم نہیں۔ صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو کم از کم صحت، تعلیم اور امن و امان فراہم کریں۔ یہ سچ ہے کہ میں اپنے بارہ سالہ بچے کو دن کے وقت بھی گھر سے باہر بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ میرے اندر موجود اس خوف کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ دہشت گردی کا معاملہ نہیں، ان عام جرائم کے اثرات ہیں جنہیں دنیا بھر میں پولیس کی مدد سے دور کیا جاتا ہے۔ شہباز شریف صاحب کے ترکی اور چین کے دورے پنجاب کے عوام کو تحفظ اور تعلیم نہیں دیں گے۔ یہ سماجی اصلاحات ہیں جن سے یہ کام ہوتا ہے۔ افسوس کہ وہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ عوام لیکن بیدار ہیں۔ جہلم اور وہاڑی میں انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کر دیا ہے۔ صوبائی حکومت کو بڑے فرق کے ساتھ ضمنی الیکشن جیتنا چاہیے تھا۔ چند سو ووٹوں سے جیت کوئی جیت نہیں ہوتی۔ ذرا تصور کیا جائے کہ اگر حکومت کی چھتری بھی نہ ہوتی تو رائے عامہ کس طرح اپنے غصے کا اظہار کرتی۔ اس وقت عمران خان کی سیاسی قوت کی اساس ان کی کوئی خوبی نہیں، حکومت وقت کی خرابیاں ہیں، جن میں سر فہرست سماجی ترقی کا نہ ہونا ہے۔
پنجاب حکومت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اب دو سال صرف تعلیم، صحت اور امن و امان کی فراہمی کے لیے خاص کر دے۔ دن رات اس پہ کام کرے اور اصلاحات لائے۔ میٹرو کی افادیت اپنی جگہ لیکن معاشرہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ تعلیم اور صحت کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف میٹرو عوام کا دل جیتنے کے لیے کافی نہیں ۔ ابھی وقت ہے۔ چند ماہ بعد یہ بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے کہ نزع کے وقت توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔ جمہوری حکمرانوں کی قوت بندوق نہیں، عوام کا اعتماد ہے۔ نواز شریف صاحب کو اگر جمہوریت کا مقدمہ لڑنا ہے تو اس کے لیے جمہور کے دکھوںکا مداوا کرنا ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved