اقتدار جمہوری نظام کے تحت ہو یاغیرجمہوری ‘ انجام قریب قریب ایک جیسا ہوتا ہے۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما‘ ابھی وائٹ ہائوس میں قیام پذیر ہیں۔ کوئی مائی کا لال یکم جنوری 2017ء تک‘ وائٹ ہائوس میں ایک رات بھی نہیں گزار سکتا۔ قریباً ساڑھے تین ماہ تک وہ امریکہ کے صدر ہیں۔ لیکن چینی کچھ زیادہ ہی حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ان کے پروٹوکول میں ایوان اقتدار کے اندر بیٹھے مہمانوںکو بھی ناپ تول کر عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ ''جی 20 ‘‘کی ہانگ ژو کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ صدر بارک اوباما ‘اس کانفرنس میں شرکت کے لئے امریکی صدر کے خصوصی طیارے میں ہانگ ژوپہنچے۔ ان سے پہلے ننھے منے ملکوں کے جو سربراہ بھی آرہے تھے ان کا ریڈکارپٹ پر استقبال ہوا‘ لیکن جب صدر اوباما آئے توٹی وی پر دنیا بھر کے جو ناظرین اس تقریب کی کوریج دیکھ رہے تھے‘ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ صدراوباما کا خصوصی جہاز ‘ جس کا مرکزی دروازہ ان کے لئے مخصوص ہے۔ جیسے ہی وہ کھلتا ہے‘ تودروازے کے اندر ریڈکارپٹ چمکتا دکھائی دیتاہے۔ سامنے زمین سے لے کر جہاز کے فرش تک ‘ریڈکارپٹ بچھا ہوتا ہے اور نیچے میزبان ملک کے اعلیٰ ترین عہدیدار‘ استقبال کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ توقع کے مطابق میزبان ملک یعنی چین کے صدر کو استقبال کے لئے منتظر ہونا چاہیے تھا۔ مگر وہاں تو صورتحال ہی عجیب تھی۔ صدر اوباما کے سامنے خالی سیڑھی تھی۔ جہاز کے اندر انہیں ساتھ لے کر ‘باہر آنے کے لئے‘ جس پروٹوکول کے افسر کو جانا تھا‘ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ اکیلے اوباما صاحب ''گواچی گاں‘‘ کی طرح ادھر ادھر دیکھتے ہوئے برآمد ہوئے اور عام لوگوں کی طرح ننگی سیڑھیوں پر اترتے ہوئے زمین پر آگئے۔ زیادہ حیرت اس پر ہوئی کہ میزبان ملک کی طرف سے‘ ان کے استقبال کے لئے‘ چینی پروٹوکول کا ایک عام سا افسر خالی ہاتھ کھڑا تھا۔ پھولوں کا گلدستہ تو کیا؟ ایک پھول بھی اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔
جو آخری منظر دنیا بھر کے ٹی وی ناظرین کے لئے باعث حیرت بلکہ عبرت تھا‘ وہ یہ کہ صدر اوباما کی پروٹوکول ٹیم کے ایک اعلیٰ افسر‘ میزبان پروٹوکول افسر سے اپنے صدر کے ویرانیوں بھرے استقبال کی وجہ دریافت کر رہے تھے۔ چینی میزبان بڑے درشت انداز میں بتا رہا تھا کہ ''میں تو اپنی ڈیوٹی پر ہوں۔ مجھے استقبال کے لئے جو ہدایات دی گئی ہیں‘ میں ان پر عمل کر رہا ہوں۔‘‘ امریکی افسر نے کوئی استفسار کر لیا ہو گا۔ استقبال کے لئے آئے ہوئے میزبان افسر نے جس طرح جواب دیا‘ اس پر تو ساری دنیا یقینا حیرت زدہ رہ گئی ہو گی۔ چینی افسر دونوں بازو اور دونوں لاتیں‘ زور زور سے ہلاتے ہوئے ‘تشنج زدہ منہ سے پتہ نہیں کیا کچھ کہہ رہا تھا؟ لیکن جو سلوک وہ امریکی صدر سے کر رہا تھا‘ وہ ہرگز کسی سربراہ مملکت کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بعد سب کی اپنی اپنی قیاس آرائیاں ہیں۔ میری قیاس آرائی یہ تھی کہ چین کو علم ہے کہ وہ مستقبل کی دنیا میں صف اول کی سپر پاور ہو گا۔ امریکہ نے فی الحال سپرپاور کی سیٹ نہیں چھوڑی اور فوجی طاقت کے حوالے سے ‘وہ آج بھی ایک سپرپاور ہے۔ مگر چینیوں کو کس بات کا ڈر؟ ان کی آبادی ہی اتنی زیادہ ہے کہ چینیوںکو ختم کرناکسی بڑی سے بڑی طاقت کے بس کی بات نہیں۔ جبکہ چین کے پاس امریکہ اور اس کے سارے حواریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بڑے دنگلوں میں اکھاڑے کے اندر دونوں پہلوانوں کو نکلتے ہی دیکھ کر‘ اندازے کر لئے جاتے ہیں کہ جیت کس کے بدن سے ظاہر ہو رہی ہے؟ اور جیتنے والے کو بھی یہ پتہ ہوتا ہے کہ مقابل میں کتنا دم ہے؟ جب چین کو یہ علم ہو کہ سامنے کون ہے؟ اور اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ تووہ بھی پروٹوکول بک میں درج کر لیا جاتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق ہانگ ژو ایئرپورٹ پر صدر اوباما کا استقبال کرنے کے لئے جو پروٹوکول افسر بھیجا گیا‘ شعبہ میزبانی نے اسے جو لکھ کر دیا‘ اس کے مطابق عمل ہو گیا۔
ان دنوں چین کے ساتھ ہم بڑی گرمجوشی سے جپھیاں ڈال رہے رہیں۔ چین بھی بوریاں بھر کے ڈالر دے رہا ہے۔ چینی ڈالروں سے ہوتی ہوئی تیز رفتار ترقی کو ہم حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور وہ آپس میں جو سلوک کرتے ہیں‘ وہ بھی ہمارے لئے حیرت انگیز ہے۔ ان کی زبان ہماری سمجھ میں نہیں آتی‘ لیکن وہ آپس میں پیار بھری بات چیت بھی کر رہے ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ان کے درمیان زبردست لڑائی ہو رہی ہے اور یہ ایک دوسرے پر جھپٹے کہ جھپٹے۔ ہمارے لوگ تجربے سے صرف یہ سمجھ پائے ہیں کہ جب چینی زبانی کلامی گفتگو کر رہے ہوں‘ تو یقینا دوستانہ تبادلہ خیال کر رہے ہوتے ہیں اور اگر ایک دوسرے پر کوک کی بوتلیں پھینکنے لگیں‘ تو سمجھ لیں کہ معاملہ لڑائی کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ میں نے جب سے صدر اوباما کا'' چینی سٹائل‘‘ استقبال دیکھا ہے‘ دعا کر رہا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم
اور پنجاب کے وزیراعلیٰ تاحیات برسراقتدار رہیں۔ اگر ہمارے بیرونی دوستوں کو ذرا سا بھی شک پڑا کہ ''بھائیوں کی جوڑی‘‘ کا اقتدار خطرے میں ہے‘ تو ان کے استقبال کے لئے وہی پروٹوکول بک نہ کھول لی جائے‘ جو صدر اوباما کے لئے کھولی گئی۔اوباما بہرحال ایک سپرپاور کے سربراہ ہیں۔ ان کا لحاظ کر لیا گیا ہو گا۔ ورنہ ہمارے حکمرانوں کی ''شاہی جوڑی‘‘ کے ساتھ سخت کلامی کے علاوہ کوک یا سیون اپ کی ایک آدھ بوتل بھی پیٹ میں گھونپی جا سکتی ہے۔اس پر حیرت نہیں ہونا چاہیے۔ آنے والی دنیا کا نقشہ ‘ہمارے چینی دوست بنا رہے ہیں۔یاد رکھیے کہ امریکہ اور چین آپس میں گہرے دوست ہیں۔ ہم بھی گہرے دوست ہیں۔اگر امریکی سربراہ مملکت کا یوں استقبال کیا جا سکتا ہے تو ہمارے اور امریکہ کے درمیان ذرا سا ہی فرق تو ہے۔ ایٹم بم ان کے پاس بھی ہے اور وزیراعظم نوازشریف کی مہربانی سے ‘ہمارے پاس بھی ہے۔ ایوان صدر ان کے پاس بھی ہے اور ہمارے پاس بھی۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے‘ مہربانی فرماتے ہوئے ایک درویش صفت شخص کو‘ رہائش کے لئے ایوان صدر دے رکھا ہے۔ ہمارے صدر صاحب نے کرپشن کو پکڑنے کا شاندار فارمولا بنا رکھاہے‘ جسے وہ چھپاتے بھی نہیں۔ انہوں نے ایک بہت بڑی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے یہ راز کھول ہی دیا کہ ''جو آدمی کرپٹ ہو ‘اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھئے۔ آپ کو نحوست برستی ہوئی نظر آئے گی۔‘‘ صدر صاحب کا یہ
فارمولاجان لینے کے بعد بھی اگر نیب اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں ‘کرپٹ عہدیداروں کو نہیں پکڑتیں‘ تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ صدر صاحب خود بھی ‘چیئرمین نیب کی طرح منحوس شکلیں دیکھ دیکھ کراکتا چکے ہیں۔ صدر مملکت کی طرح ہمارے چیف آف آرمی سٹاف بھی بہت نیک دل ہیں۔ صدر صاحب چہروں پر کرپشن کی نحوست دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں اور ہمارے چیف آف آرمی سٹاف بھی کرپشن کے بارے میں سب کچھ جان لینے کے باوجود ‘ شایدمنہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔ کراچی کے پرامن شہریوں کے سوا‘ ان کی مہربانیوں سے‘ کم لوگ ہی فیض یاب ہو پائے ہیں۔ وہ قبائلی علاقوں میں گئے‘ تو دہشت گردوں کو ایک طرف نکال دیا اور عام شہریوں کو دوسری طرف۔ جن کے چہروں پر نحوست نظر آتی ہے‘ وہ اسی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ مردمومن اگر ٹھان لیں‘ تو تین مہینے کا عرصہ بھی بہت ہے۔ اگر وہ ان تین مہینوں میں کرپٹ لوگوں کے چہرے غور سے دیکھ لیں‘ تو شاید ہماری قسمت بھی بدل جائے۔پاناما میںچھپی بیٹھی ہماری دولت واپس آ جائے۔