6ستمبر کسی زمانے میں یوم دفاع تھا‘ اب یوم شہدا ہے۔ نام سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا‘ اہمیت دن کی ہے۔ قائد اعظمؒ نے کہا تھا: گلاب کو جس نام سے پکاریں وہ گلاب ہی رہے گا۔ یوم شہدا کا مقصد ان شہیدوں اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو دفاع وطن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا کر قومی تاریخ میں امر ہو گئے۔ قوم بحیثیت مجموعی اس یوم کو فخریہ انداز میں مناتی ہے اور یاد رکھتی ہے کہ بھارتی جرنیلوں کو 6 ستمبر کی شام لاہور کے جمخانہ کلب میں جام لنڈھانے کی خواہش کتنی مہنگی پڑی؛ تاہم یہ بحث بھی غلط نہیں کہ 1965ء کی جنگ میں ہم نے کیا کھویا؟ کیا پایا۔
گوہر ایوب خان کا موقف ہے کہ ان کے والد فیلڈ مارشل ایوب خان جنگ نہیں چاہتے تھے۔ گوہر ایوب خان نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت نے 1965ء کی جنگ کا جو منصوبہ منظور کیا‘ وہ ستمبر سے قبل اسلام آباد پہنچ گیا اور فوجی قیادت کے علم میں تھا۔ اس کے باوجود ہمارے فوجی جرنیلوں اور حکمرانوں کی تیاریوں کا یہ عالم تھا کہ دشمن نے لاہور کا رخ کیا تو محافظ لاہور میجر جنرل (ر) سرفراز خان میجر عزیز بھٹی شہید‘ میجر شفقت بلوچ اور دیگر قطعی لاعلم تھے۔ انہیں دشمن کی نقل و حرکت کا اندازہ تھا‘ نہ مناسب نفری اور ہتھیار دستیاب۔ شفقت بلوچ تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ محض چھٹی حس کی وجہ سے وہ اور ان کے ساتھی الرٹ تھے‘ کسی افسر نے انہیں مطلع نہیں کیا تھا۔
آپریشن جبرالٹر شروع کرنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا‘ سادگی اور سادہ لوحی نہیں حماقت ہے‘ جو ہماری قیادت سے سرزد ہوئی۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے سیل نے گمراہ کیا تو یہ بھی ایوب خان کا قصور ہے کیونکہ ایک تجربہ کار فوجی کے طور پر انہیں نتائج و عواقب کا بہتر ادراک ہونا چاہیے تھا۔ یہ صرف اس وقت کے جی ایچ کیو کی ناکامی نہ تھی بلکہ انٹیلی جنس اداروں کی کارگزاری پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ بھارتی فوج کی پیش قدمی سے قبل از وقت آگاہ تھے‘ نہ کر سکے۔ 1980ء کے عشرے میں جب بھارت نے براس ٹیک مشقوں کا آغاز کیا تو ہماری فوجی قیادت نے فوراً اسے جنگ کا پیش خیمہ سمجھا۔ بھارتی فوج اصل گولے بارود سے لیس تھی اور وہ اپنی توپوں‘ ٹینکوں اور بمبار ہوائی جہازوں کا رخ کسی وقت بھی پاکستان کی طرف موڑ سکتی تھی؛ چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت کا رُخ کیا اور اندرا گاندھی کے سپوت وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام دیا: اگر آپ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ سوچ لیں کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ میں وطن واپسی پر صرف ''فائر‘‘ کا لفظ بولوں گا اور تباہی مچ جائے گی۔ راجیو گاندھی کے ایک مشیر نے بعدازاں لکھا کہ یہ سن کر باس کا رنگ فق اور چہرہ پسینے سے شرابور ہو گیا۔
ایوب حکومت کی لاعلمی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کی اس نے بھارتی عزائم سے دوست ممالک کو آگاہ کیا‘ نہ عالمی سطح پر سفارتی مہم چلائی۔ ہمارا جو علاقہ بھارت کے قبضے میں گیا‘ وہ اس کی جارحانہ اور فاتحانہ پیش قدمی اور ہماری پسپائی نہیں بلکہ پہلے ہی روز شب خون کے نتیجے میں ہاتھ سے نکلا۔ 6 ستمبر کے بعد بھارت کو ہر جگہ سخت مزاحمت اور دلیرانہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ چونڈہ میں ٹینکوں کی تاریخی لڑائی اور فضائیہ کی فاتحانہ کارروائی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایم ایم عالم صرف پاکستانی قوم کے ہیرو نہیں بلکہ دنیا بھر کی فضائیہ کے لیے قابل تقلید مثال ہیں۔ دوران جنگ اختر حسین ملک کی جگہ یحییٰ خان کی تعیناتی اور وزارت دفاع و وزارت خارجہ میں سرد مہری ہمارے فیصلہ سازوں کی کوتاہ اندیشی کا ثبوت ہے جس کا کوئی جواز آج تک سامنے نہیں آیا۔
ان خامیوں‘ کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود بھارت پاکستان کو اپنے منصوبے اور عزم کے مطابق شکست نہیں دے سکا۔ وہ 17 روزہ جنگ میں اپنا ایک بھی مقصد پورا نہیں کر سکا۔ لاہور پر قبضے اور پاکستان کے مشرق و مغرب کو ایک دوسرے سے کاٹنے کی خواہش پوری ہوئی نہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوصلے پست کرنے میں کامیابی ملی۔21 ستمبر 1965ء کو فائر بندی ہوئی جسے 51 سال گزر چکے مگر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جانے کے باوجود حق خود ارادیت کی تحریک زندہ و پائندہ اور توانا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارت آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فوجی‘ سیاسی اور سفارتی مشکلات سے زیادہ کا سامنا کر رہا ہے اور وہ بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایک طبقہ مگر پاکستان میں ایسا ہے جو 1965ء میں پاکستان کی ناکامی اور بھارت کی فتح کو ثابت کرنے پر تلا ہے اور دور کی کوڑیاں لانے میں مصروف رہتا ہے۔ اس مرعوب و مایوس گروہ کو مسلمہ فوجی تھیوری متاثر کرتی ہے کہ اگر کوئی ملک فوجی جارحیت کے مقاصد حاصل نہ کر سکے‘ جوابی مزاحمت میں پسپائی پر مجبور ہو تو اسے شکست خوردہ ہی تصورکیا جاتا ہے نہ بھارتی جرنیلوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں اعتراف شکست پر یقین ہے۔ وہ پاکستان کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شکست کا ڈھول پیٹتے ہی رہتے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان کو شکست فاش ہوئی اور ملک ٹوٹ گیا مگر جب بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل مانک شا سے کرن تھاپر نے پوچھا کہ پاکستانی فوج ٹھیک سے لڑ نہیں پائی‘ وہ لڑنے کے جذبے سے محروم تھی‘ تو مانک شاہ نے جواب دیا‘ ''نہیں ایک پیشہ ور فوجی کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں نے شجاعت اور بہادری کی مثالیں قائم کیں۔ اپنے وطن سے ہزار میل دور‘ مقامی آبادی کی حمایت سے محروم اور جرنیلوں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے وہ جیت نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے پورے مشرقی حصہ کا دفاع کرنا تھا‘ میں نے صرف چند کلومیٹر علاقے پر قبضہ کے لیے حکمت عملی ترتیب دی تھی‘‘۔ 1965ء میں ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں نے جو کارنامے انجام دیے وہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں۔ عزیز بھٹی شہید‘ سرفراز رفیقی شہید‘ میجر شفقت بلوچ‘ ایم ایم عالم اور دیگر کو کون بھول سکتا ہے‘ جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر قوم کی آبرو رکھ لی‘ قومی آزادی کا تحفظ کیا۔
1965ء میں ہماری کامیابی یا کامیاب دفاع کا سبب قومی اتحاد تھا‘ فوج کا جذبہ جہاد اور دوست مسلم ممالک کی طرف سے بے مثل و بے نظیر عملی تعاون۔ مسلم امہ نے اپنے وجود کا جو احساس 1965ء میں دلایا وہ بعدازاں کبھی نہیں ہوا۔ ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تانجاک کاشغر
کی تلقین اقبالؒ نے ایک مخصوص پس منظر میں کی تھی مگر اس کی تجسیم پاکستان کے دفاع کے سلسلے میں ہوئی۔ ترکی‘ ایران‘ مصر اور الجزائر ہر مسلم ریاست نے اپنے وسائل پاکستان کے لیے وقف کر دیے۔ کہیں سے فوج اور کہیں سے ہتھیار دستیاب تو کسی نے ڈاکٹر اور نرسیں بھیج کر اسلامی اخوت کا ثبوت دیا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ 1965ء کی جنگ سے دشمن نے سبق سیکھا‘ ہم خرمستیوں میں مشغول رہے۔ اس نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں وسائل کی نامنصفانہ تقسیم‘ نسلی و لسانی مغائرت اور ہزار میل کے فاصلے کو ہمارے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ نفسیاتی برتری کے لیے 1965ء کی جنگ میں اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا اور پاکستان میں ففتھ کالمسٹوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ پروپیگنڈا اب بھی جاری ہے۔ 1965ء میں ہم صرف مسلمان اور پاکستانی تھے 1971ء میں ہم بنگالی‘ پنجابی‘ سندھی‘ مہاجر‘ پشتوں‘ بلوچی میں بدل گئے اور آج بھی اپنی اسی شناخت پر مُصر ہیں۔ ہم نے کیا سیکھا؟ کیاکھویا؟ کیا پایا؟ قومی سطح پر لاحاصل بحث شد و مد سے جاری ہے اور قوم گروہوں‘ تنظیموں اور نسلی‘ لسانی اور مسلکی فرقوں میں تقسیم‘ نوجوان نسل کو گمراہ کرنے پر کمربستہ اور شکست خوردگی کا شکار۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔ حالت جنگ میں ہماری یہ حالت ہے امن کے زمانے میں ہم نے ایک دوسرے سے کیا کچھ نہ کیا‘ کیا کچھ نہیں کریں گے؟ سیاست‘ اقتدار‘ محاذ آرائی چھینا جھپٹی اور لوٹ مار سے فرصت ملے تو کوئی سوچے۔ ؎
میر سپاہ ناسزا‘ لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش‘ جس کا نہ ہو کوئی ہدف