عمران خان کی ریلیوں کے حوالے سے ٹاک شو میں سلمان غنی کی بات درست تھی کہ کوئی بھی سیاسی سرگرمی ناکام نہیں ہوتی۔ نواب زادہ صاحب یاد آئے، کہا کرتے تھے، سیاست اعصاب کی جنگ ہے۔ اپوزیشن کو کوئی نہ کوئی پولیٹیکل ایکٹیوٹی کرتے رہنا چاہیے۔ حکمرانوںکے اعصاب کتنے بھی مضبوط ہوں، اپوزیشن کی سرگرمی سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کسی ایجنڈے کے بغیر بھی کھانے پر مل بیٹھیں تو حکمرانوں کو تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ خیال بھی رہے کہ آئے روز کے جلسے جلوس عوام تو ایک طرف، خود سیاسی کارکنوں اور ''فنانسرز‘‘ (جدید اصطلاح میں ''اے ٹی ایم مشینیں‘‘ کہہ لیں) کے لیے بوجھ نہ بن جائیں اور نوبت ان کی اکتاہٹ تک نہ پہنچ جائے۔ اپنی توانائیاں اور وسائل اصل معرکے کے لیے بھی بچا رکھنے چاہئیں اور جمہوری معاشروں میں اصل معرکہ عام انتخابات ہوتے ہیں۔
لیکن یہاں عمران خان کی حالیہ ریلیوں کے حوالے سے سوال کی نوعیت دوسری تھی۔ یہ معمول کی رابطہ ٔ عوام مہم نہیں۔ خان نے انہیں اپنی عوامی طاقت کے مظاہرے کا عنوان دیا تھا اور یوں حکمرانوں سے زیادہ خود اپنے لیے آزمائش کا سامان کر لیا تھا۔ 6 اگست کو پشاور سے اٹک تک ریلی نے خان کی عوامی طاقت کے حوالے سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا تھا۔ یہ ریلی بنیادی طور پر اس کے اپنے صوبے (کے پی کے) میں تھی جسے دارالحکومت سے شروع ہو کر پنجاب کی سرحد پر ختم ہو جانا تھا۔ قیامت کی نظر رکھنے والوں نے اس میں سرکاری نمبر والی گاڑیاں بھی ڈھونڈ نکالی تھیں۔ اسی شام خود پشاور میں امیر مقام نے مسلم لیگ (ن) کا خاصا بڑا شو کر لیا تھا (حصہ بقدر جثہ) حالانکہ اس میں مشرف دور میں میاں صاحب سے عہد وفا نبھانے والے اصل نون لیگیوں کا تعاون بھی اسے حاصل نہ تھا۔
6 اگست کے بعد اگلی ریلی 13 اگست کو پنڈی/ اسلام آباد والی تھی۔ 8 اگست کے سانحہ کوئٹہ کے بعد (جس میں بلوچستان کی وکلا قیادت سمیت 50 سے زائد وکلا نشانہ بن گئے تھے۔ شہدا کی کل تعداد 75 کو پہنچ گئی تھی) خان کے سیاسی کزن نے ملک کے 100 سے زائد شہروں میں ''قصاص دھرنے‘‘ چار روز کے لیے ملتوی کر دیئے تھے لیکن خان نے جو فیصلہ کر لیا، سو کر لیا۔ ''شکست‘‘ کی طرح ''نظرِثانی‘‘ کا لفظ بھی شاید اس کی لغت میں نہیں۔ خان 13 اگست کی پنڈی/ اسلام آباد ریلی پر قائم رہا۔ اسی شام فرزند ِلال حویلی نے اپنے الگ میلے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ناقدین سیاسی طاقت کے ان دونوں مظاہروں کو غیر متأثرکُن قرار دے رہے تھے۔ کیا خان کی مئی 2013ء والی عوامی پذیرائی رو بہ زوال تھی؟ خان اب 3 ستمبر کی ریلی کے ذریعے مخالفین کی اس خوش فہمی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے پنجاب کے آخری کونے سے بھی کارکنوں کی معقول شرکت کو یقینی بنانے کا اہتمام ہوا۔ خیبر پختونخوا کی قیادت کو بھی متوجہ کیا گیا۔ بلوچستان اور سندھ کو بھی اپنا اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کہا گیا۔ خان اسے لاہور کے''پانی پت‘‘ میں فیصلہ کن سیاسی معرکہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا، عوام کا لشکرِ جرار لاہور کی دیواروں سے ٹکرائے گا اور دنیا دیکھ لے گی‘ لاہور کس کا قلعہ ہے؟ ابتدائی اعلان کے مطابق آغاز گجرات سے ہونا تھا، پھر گوجرانوالہ سے لاہور تک کی بات ہوئی۔ پھر کالا شاہ کاکو (مریدکے) مقامِ آغاز قرار پایا اور آخر میں نوبت شاہدرہ سے آغاز تک پہنچ گئی۔ شیڈول سے چار گھنٹے تاخیر کے ساتھ شروع ہونے والی ریلی نے چیئرنگ کراس تک پہنچنے میں 8 گھنٹے لگا دیئے تھے ایک دن پہلے مردان کچہری کا سانحہ ہو چکا تھا۔ 3 ستمبر کی ریلی کا التوا ممکن نہ تھا، تو کم از کم خان کی ریلیوں کے روایتی راگ رنگ
اور ڈھول ڈھمکوں ہی سے احتراز کر لیا ہوتا۔ اس میں قاف لیگ کی بھرپور شرکت کا اعلان بھی کیا گیا تھا، لیکن اس کا کنٹینر خراب ہونے کی اطلاع آ گئی۔ پیپلز پارٹی نے علامتی شرکت کے لیے جنابِ لطیف کھوسہ کو بھیج دیا تھا۔ ''کرپشن‘‘ کے خلاف ان کی تقریر کا اپنا لُطف تھا۔ وہ وکیل ہیں، اور کروڑوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی ملزمہ ایان علی کی وکالت پر کوئی اصولی اعتراض نہیں بنتا۔ لیکن وہ عدالت سے باہر بھی، میڈیا میں جس طرح اس ''معصوم بچی‘‘ کا مقدمہ لڑتے اور اسے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان پر پیچ و تاب کھاتے ہیں، وہ وکالت سے خاصا بڑھ کر ہوتا ہے۔ پھر ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جناب کھوسہ عدالت میں کیس لڑ رہے تھے اور صاحبزادہ سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر، یا سول سوسائٹی کو ساتھ ملا کر، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ''معصوم بچی‘‘ کی رہائی کے لیے مظاہرے کر رہا تھا۔ ادھر شاہ محمود قریشی کا دھیان ہجوم سے زیادہ چودھری سرور پر تھا کہ وہ خان کے شانہ بشانہ یا پہلو بہ پہلو نہ ہو پائیں۔ قریشی صاحب اس میں کامیاب رہے اور کیمروں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے چودھری صاحب کو بار بار ایڑیوں کے بل کھڑا ہونا پڑا۔ میڈیا میں خان سے ہمدردی رکھنے والے بھی ریلی کے شرکا کی تعداد 10 ہزار سے زائد نہیں بتا رہے تھے اور اس میں لاہوریے کتنے تھے؟ خان کا 2014ء کی دھرنا مہم والا لب و لہجہ عود کر آیا تھا۔ ایف بی آر، نیب اور الیکشن کمشن سمیت، 'ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے
میں‘۔ ایف بی آر کے چیئرمین پر تو وہ روزانہ کروڑوں ڈالر دبئی بھجوانے کا الزام بھی عائد کر رہا تھا۔ (حیرت ہے، خان یہ کیس عدالت میں کیوں نہیں لے جاتا؟)۔
اسی شام خان کے سیاسی کزن کی پنڈی آمد، شاید حکومت کو ''سرپرائز‘‘ دینے کی کوشش تھی۔ جلسہ گاہ جانے سے قبل پنڈی کے فائیو سٹار ہوٹل میں آرام کو، دور کی کوڑی لانے والوں نے ایک سفارت کار سے ملاقات کا بہانہ قرار دیا۔ فرزند لال حویلی اس رات اپنی تقریر میں شاید تمام حدود پھلانگ گیا تھا اور خود علامہ صاحب بھی شریف برادران پر الزامات میں جس حد تک چلے گئے، وہ پاکستان کی ''لولی لنگڑی جمہوریت‘‘ ہی میں ممکن ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے وزیر اعظم کے اس دعوے اور وعدے کی تصدیق کی کہ 2018ء تک بجلی کی پیداوار میں 16 ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہو جائے گا؛ البتہ اس حوالے سے ان کا یہ ''انکشاف‘‘ دلچسپ تھا کہ یہ بجلی شریف برادران کی شوگر ملوں میں پیدا کی جائے گی۔ 4 ہزار میگاواٹ شہباز شریف کی رمضان شوگر ملز میں اور 6 ہزار میگاواٹ بڑے میاں صاحب کی چودھری شوگر ملز میں‘ مزید یہ کہ یہ 16 ہزار میگاواٹ انڈین انجینئرز کے ذریعے پیدا ہو گی، اور پھر شریف برادران اسے پاکستانی عوام کو بیچیں گے۔ اور یہ جو ملک کے مختلف حصوں میں سولر، ہائیڈرالک، تھرمل اور ونڈ سمیت بجلی کے مختلف منصوبوں پرکام ہو رہا ہے، اس میں گنے کا جُوس تیار ہو گا؟