تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-09-2016

ٹوٹے اور بازیافت وغیرہ

ہمارے وزیر اعظم
جہاں ہماری طرف سے پرو پاکستان میر قاسم علی کو پھانسی دینے پر احتجاج کیا جا رہا ہے وہاں بنگلہ دیش حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے اس معاملے پر وزیر اعظم کی سنگدلانہ خاموشی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کو پاکستان سے محبت پر جان سے ہاتھ دھونا پڑے اور مولانا کی یہ فکر مندی بالکل جائز ہے اور انہوں نے وزیر اعظم کی حب الوطنی پر بھی ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور اس لیے کہ بھارتی وزیر اعظم اور ان کے وزراء کی پاکستان بارے ہرزہ سرائی پر بھی وزیر اعظم کا انہیں ترکی بہ ترکی بیان نہ دینا معنی خیز ہے۔ ادھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ دھرنوں سے نہیں بلکہ خود حکمرانوں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت جس الزام کا جواب نہیں دیتی اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اسے درست تسلیم کرتی ہے‘ کر لو جو کرنا اسی سلسلہ میں سب سے دلچسپ بیان چودھری پرویز الٰہی کا ہے جن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی تائید اور امداد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان مخالفوں کے ساتھ نرمی برتی جائے جبکہ ایک صاحب نے کہا ہے کہ مودی اور نواز شریف پگڑی بدل بھائی ہیں!
سی پیک یا کالا باغ ڈیم
بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ سی پیک منصوبے کا انجام بھی کالا باغ ڈیم سے مختلف نہیں ہو گا جس کے باعث حکومت کی غلط حکمت عملی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے گا کیونکہ بدنیتی پر مبنی ڈویلپمنٹ کو بلوچستان کے عوام کبھی قبول نہیں کریں گے۔ وہ اگلے روز کوئٹہ میں سانحہ کوئٹہ کے شہیدوں کی یاد میں منعقد کیے گئے ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جو کوئٹہ میں باب بلوچستان فٹ بال سٹیڈیم میں رونما ہوا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سی پیک منصوبہ صرف پنجاب کے لیے ہے اور حکمران صرف پنجاب کے مفادات کی آبیاری کر رہے ہیں اور انہیں بلوچستان کی ڈویلپمنٹ کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ 46بلین ڈالر میں سے جو کہ اس منصوبے پر خرچ ہوں گے، بلوچستان کے حصے میں ایک بلین ڈالر بھی نہیں آتے۔ مینگل صاحب کو باغی علیحدگی پسندوں میں شمار نہیں کیا جاتا اس لیے ان کے اعتراضات کو رفع کرنے کی ضرورت ہے جبکہ کے پی کے میں بھی اس منصوبے کے بارے میں ایسے ہی خیالات پائے جاتے ہیں جبکہ اس منصوبے کے مدارالمہام چوہدری احسن اقبال یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ اس پر سارے صوبے مکمل طور پر متفق ہیں۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی
پاناما لیکس والا معاملہ جہاں کھائی میں پڑتا جا رہا تھا وہاں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سید خورشید احمد شاہ کی سربراہی میں ایف بی آر اور نیب وغیرہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی کارکردگی کے حوالے سے 8 ستمبر تک قومی اسمبلی میں اپنا جواب داخل کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی اے سی پاناما لیکس پر ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے سکتی ہے‘ حکومت جس کی مخالفت کرے گی کیونکہ اس نے اسمبلی میں پاکستان کمیشن آف انکوائری بل پیش کر رکھا ہے۔ سید خورشید احمد شاہ نے یہ اجلاس پاکستان تحریک انصاف کے مطالبے پر منعقد کیا تھا چنانچہ اس پر پی اے سی کے جوائنٹ سیکرٹری نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو فنانس سیکرٹری اور نیب کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ 8 ستمبر کو کمیٹی کے اجلاس میں حاضر ہوں اور اپنا سارا ریونیو ریکارڈ ہمراہ لائیں جس میں پاناما لیکس کے حوالے سے جملہ دستاویزات بھی شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے تمام کوششوں کے ناکام ہو جانے پر وہ یہ اقدام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ گویا اور کہیں کچھ ہو نہ ہو پی اے سی نے اپنا لُچ تل دیا ہے! ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
بازیافت
یہ شعر جس کا دوسرا مصرعہ اتنی بار استعمال ہوا کہ شاید اور کوئی بھی نہ ہوا ہو لیکن ایک تو پورا شعر معلوم نہیں تھا اور دوسرے شاعر کا کوئی اتا پتا نہیں تھا‘ سو ہماری مشکل حسب معمول دلاور احمد فگار نے آسان کر دی ہے۔ پہلے پورا شعر سنیے:
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
اس شعر کے خالق ایک انتہائی غیر معروف شاعر خالد محمود خالد ہیں جن کا تعلق غالباً چکوال سے تھا اور دورانیہ 13جون 41ء کے لگ بھگ۔
اس کے علاوہ ایک خوبصورت شعر ہمارے فیض احمد فیض کا موصول ہوا ہے جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا ۔ شعر دیکھیے ؎ 
شمع نظر‘ خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں تیری محفل سے آئے ہیں
شکریہ دلاور احمد فگار!
اور اب آخر میں یہ اطلاع کہ خاکسار کے کلیات غزل اب تک کی پانچویں جلد رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے چھاپ کر شائع کر دی ہے اور قیمت 1500روپے رکھی ہے اس کاانتساب نظم کے بے حد خوبصورت شاعر ابرار احمد کے نام ہے۔
آج کا مقطع
اتنا ہی غم میں سوکھتا جاتا ہوں اے ظفرؔ
جتنا ہرا بھرا میرے بھائی کا باغ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved