مستقبل سے پریشان ، سہمی اور گھبرائی ہوئی قوموں کو دولت کی فراوانی یا عددی طاقت نہیں بلکہ بلند حوصلے اور مصلحتوں سے بے نیاز ایسی قیادت ہمت و استقلال کا پیکر بناتی ہے جو حضرت علامہ اقبال ؒکے فرمان ''نگاہ بلند، سخن دلنواز، جان پرسوز‘‘ کا نمونہ ہو۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی دنیا نے دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی کہ خوف و ہراس کے سمندر میں غوطے کھانے والے بلوچستان کے عوام نے اس سال چودہ اگست کو یوم آزادی اور چھ ستمبر کو یوم دفاع سینہ تان کر، تمتماتے ہوئے چہروں کے ساتھ بھر پور طریقے سے منایا۔ فوج اور عوام نے یک جان و ہم آواز ہو کر اپنی بیرونی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا ایک بار پھر عہد کیا۔ جب نیت نیک ہو، قیادت بے خوف اور دشمن کو پہچاننے والی ہو، دبنے اور جھکنے والی نہ ہو تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ خدائے برحق اور نیتوں کا حال جاننے والا عالم الغیب اس کا بھرپور صلہ نہ دے۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ''خدائے زندہ زندوں کا خد ا ہے‘‘۔ ایک طرف پاکستانی قوم اپنی نظروں کے سامنے وطن کے سر فروشوں کی روح پرور للکار سنتے ہوئے اپنے دلوں کو گرما رہی تھی تو دوسری جانب بلوچستان، شوال، راجگال، ستار کلے نارے نائو اور خیبر ایجنسی سے ملحق پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر واقع بھارت نواز دہشت گردوں کی آخری پناہ گاہوں کو ہمارے جانباز تباہ و برباد کرتے ہوئے نعرہ تکبیر کی گونج کے ساتھ سبز ہلالی پرچم نصب کر رہے تھے۔
اس معرکہ حق و باطل میں اب بھی مذہب اور انسانیت کی تذلیل کرنے والے دہشت گردوں کا چن چن کرصفایا کیا جا رہا ہے۔ پاک وطن کے محافظ اپنی جانوں کی قربانی دے کر گلستان وطن کی اپنے خون سے آبیاری کر تے ہوئے رتبہ شہادت کے بلند مقام پر فائز ہو رہے ہیں۔ یہ وہ فتح ہے جس کا دہشت گردی کے ہر مخالف کو عرصہ دراز سے انتظار تھا۔ لیکن یہ فتح صرف انہی کو ملتی ہے جن کے سامنے اﷲ کی رضا کی خاطر ہر وقت شہا دت کی آرزو سمندر کی لہروں کی طرح موجزن ہو۔ یہی وہ وادی تیراہ، شوال اور راجگال ہے جن کو1980ء کی دہائی میں افغان مجاہدین نے روسی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی گزرگاہ بنایا ہوا تھا۔ اور یہیں سے نائن الیون کے بعد ہر قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود خیبر ایجنسی میں واقع لنڈی کوتل کے رستے پاکستان کی سرحدوںکے اندر لایا جا رہا تھا۔ جب وادی سوات کے امن کو پارہ پارہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا تھا تو سوات سے بھاگ کر مولوی فضل اﷲ اور اس کے انسانیت دشمن دہشت گرد یہیں پناہ لے رہے تھے اور یہیں سے سوات اور وادی تیراہ کے لئے ان کی رسد گاہ کا کام کرزئی اور بھارتی گٹھ جوڑ کی مدد سے بے خوفی سے کیا جا رہا تھا۔
جنرل مشرف نے 2005ء میں پاکستان کی عسکری قوتوں کی قربانیوں سے وادی تیراہ کا پاکستان اور اسلام سے وفاداری نبھانے والے انصار الاسلام کے ذریعے کنٹرول حاصل کیا تھا۔ تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے یہاں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے انصار الاسلام پر یکے بعد دیگرے کئی حملے کئے لیکن ہر بار انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جب ان کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں تو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہوئے منگل باغ کے ذریعے لشکر اسلام اور تحریک طالبان کا آپس میں اتحاد کرا دیا؛ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ تحریک طالبان نے کبھی کسی سے اتحادنہیں کیا تھا بلکہ وہ شروع سے ہی اکیلے کام کرنے کی عادی تھے۔ علاقے میں موجود ان دو متحارب قوتوں کا اتحاد کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن چونکہ منگل باغ اور محسود کی دہشت گرد تنظیموں کی ہر قسم کی حربی، غذائی اور جسمانی ضروریات بھارت کے علاوہ افغان لیڈر کرزئی اور عبداﷲ عبد اﷲ دو مختلف اداروں کے ذریعے مہیا کر رہے تھے اس لئے انہیں جلد ہی اس میں کامیابی مل گئی۔ دوسرے بھارت کی ایجنسیوں کے سامنے کسی بھی وقت پاکستانی فوج کے بھر پور حملوں سے تحریک طالبان اور منگل باغ کی جنوبی اور شمالی وزیرستان سے بھاگنے کی ممکنہ صورت حال بھی تھی، اس لئے بھارت اور حامد کرزئی نے آنے والے وقت میں وادی تیراہ اور شوال کے بعد راجگال اور ستار کلے کو دہشت گردوں کا ٹھکانہ بنا دیا اور پھر اپنے ایجنٹوں کا محفوظ ٹھکانہ بنانے کے لئے خیبر ایجنسی اور باڑہ میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار منگل باغ اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد گروپوں کو یکجا کر دیا اور اس کے لئے سوات میں تحریک طالبان کے کمانڈر ابن امین کی خدمات حاصل کی گئیں جس کا منگل باغ سے قریبی رابطہ رہتا تھا۔ بھارت، منگل باغ کی تمام ضروریات ابن امین کے ذریعے ہی پوری کرتا تھا۔ یہ سب کام اس وقت کئے گئے جب پاکستان کے اندر عدلیہ کی آزادی کے نام سے افتخار چوہدری کی جنرل مشرف کے خلاف تحریک نے ملکی نظم و نسق کو تقریباً مفلوج کر رکھا تھا۔
6 ستمبرکو جب وطن کے سمندروں کی موجوں کے ساتھ رواں دواں پاک بحریہ، ارض پاک کی مٹی کے ایک ایک ذرے کی پاسبان بری فوج اور ملک کی فضائوں کی نگہبان پاک فضائیہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے ہر مرد و زن کے حوصلوں کو نئی شان اور نئی اڑان دیتے ہوئے''اﷲ ہو‘‘ کی روح پرورگونج کے ساتھ بے خوف و خطر اپنی موجودگی اور حکومت کی رٹ کا پیغام دے رہی تھیں تو دوسری جانب افغان صوبے ننگر ہار کے دو اہم اضلاع در بابا اور نازیان سے ملحق وادیاں اور درے جو دشمنان پاکستان کا مورچہ تھیں، ان کے ہاتھوں سے فولادی ایمان کی طاقت سے چھینا جا رہا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم یہاں نصب تھا۔ یہاں ہر طرف لشکر اسلام اور تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی حکومت تھی، یہی وہ راستہ تھا جہاں ننگ انسانیت دہشت گردوں اور ان کے آقائوں کے پاکستان اور افغانستان میں بلا روک ٹوک آنے جانے کے محفوظ راستے تھے اور ان راستوں پر چلنے والے دہشت گردوں کے ناپاک وجود کو ختم کیا جا رہا تھا۔ انہی مقامات سے نریندر مودی کے بھیجے ہوئے حرام پر پلنے والے دہشت گرد ''کراس بارڈر موومنٹ‘‘ کرتے رہتے تھے اور جس کے کنٹرول پر تحریک طالبان پاکستان اور منگل باغ فخر سے کہا کرتے تھے کہ یہاں سے ہم جب اور جہاں چاہیں پاکستان کی عوام اور فوج کو اپنے دہشت گردوں کے ذریعے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
وادی شوال ، راجگال، ستار کلے سمیت وادی تیراہ کے پر خطر معرکے انجام دیتے ہوئے پاکستان نے اقوام عالم سمیت افغانستان پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغان عوام کی سالمیت کے لئے اتنا ہی پر جوش اور مخلص ہے جتنا اپنے وطن کی سرحدوں اور عوام کے لئے ہے اور افغانستان کی عوام سمیت ان کے صدر اشرف غنی احمد زئی کو دوستی اور باہمی دفاع کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے پاک فوج کے جانثاروں نے شوال کا کنٹرول سنبھالنے کے معرکوں میں جسم و جان کی قربانی دے کر اپنے سرخ لہو سے ''برادر افغان سلامت باشد‘‘ تحریر کر دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ افغانستان کی قیادت کالی ماتا کے زہرکو اپنی مسلمان ماں کے پاک دودھ پر فوقیت دیتی چلی آ رہی ہے۔