تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-09-2016

خوف کے کیل

میں جو حقائق اور واقعات کا ادنیٰ سا شاہد ہوں‘ میرے حواس برقرار نہیں رہتے۔میرے حواس میں ہر وقت زلزلہ آیا رہتا ہے۔ جو لوگ ان حالات و واقعات کے مینوفیکچرر ہیں‘ ان کی حالت کیا ہوتی ہو گی؟ میرا اندازہ ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ یہ کسی کا ساختہ نہیں۔ اپنے آپ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تازہ ''ہونی‘‘ سپیکر قومی اسمبلی کی تخلیق ہے۔ ''تخلیق‘‘ اس لئے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں‘ اس کے اختیارات آئین کے تحت استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ آئین کی وردی اتار کے رکھ دی جائے‘ تو پھر سپیکر صاحب جو کچھ بھی کریں‘ ان کا خودساختہ ہے۔ کسی زمانے میں مجھے ان سے تبادلہ خیال کے سرسری سے مواقع ملے ہیں۔ اس دوران جو کچھ میں جان سکا‘ وہ بہت ہی معقول اور سمجھدار معلوم ہوئے۔ قومی اسمبلی کے کافی پرانے رکن ہیں۔ لیکن ہمیشہ قواعد و ضوابط کے اندر رہے۔ سیاسی جماعت کے رکن وہ ضرور تھے۔ لیکن جتنی سیاست وہ کرتے تھے‘ وہ بڑے ڈھب اور ڈھنگ کی تھی۔ حتیٰ کہ سپیکر بننے کے بعد بھی ان کا طرزعمل اور رو یہ ‘ قواعد و ضوابط کی حدود کے اندررہتا تھا۔ عمران خان کی سیاست نے انہیں بگاڑ دیا۔ اچھے بھلے آرام سے جیت لیا کرتے تھے۔ سارا فساد عمران خان نے جمے جمائے سیاسی حلقوں میں اتارچڑھائو پیدا کر کے‘ اچھے بھلوں کی وہ حالت کر دی‘ جو ٹھہرے پانیوں میں کشتیاں چلانے کے عادی لوگوں کی لہروں کے تیور اچانک بدل جانے پر ہوا کرتی ہے۔ قصور ایاز صادق کا نہیں تھا۔ تحریک انصاف نے بچپن کا زمانہ بڑی شرافت اور رکھ رکھائو میں گزارا تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں ‘تحریک بگڑے بچوں کی طرح مچل گئی۔ اچھے بھلے شرفاء جو اپنے مقابل کو آنکھیں اور پیسہ دکھا کر گھر بٹھا دیا کرتے تھے‘ اس بار اپنے طاقتور حریفوں کی خونخوار آنکھیں دیکھ کر بھی اکڑ گئے۔ اپنے ڈبے خالی دیکھ کر ان کے اوسان خطا کر دیئے۔ 
باربار جیتے ہوئے امیدواروں کو جیسے جیسے خبر ملی کہ ان کے خالی ڈبے ہوا کے جھونکوں میں جھوم رہے ہیں‘ تو انہیں یقین نہ آیا۔ سچی بات ہے‘ یقین بڑے بڑے سیاسی ماہرین کو بھی نہیں آ رہا تھا۔ خواجہ سعد رفیق جو خوداعتمادی سے مینار پاکستان پر چڑھے بیٹھے تھے ،میدان میں ہونے والے انتخابی کھیل کو آرام کرسی پر بیٹھ کر دیکھ رہے تھے۔ خواجہ آصف جن کے والد جنرل ضیاالحق کی گھڑی ہوئی اسمبلی‘ کے میرمنشی تھے‘ انہوں نے جنرل ضیا کی ٹیم کا حصہ بن کر‘ قومی اسمبلی کی نشست دبوچ لی تھی۔ لودھراں میں صدیق بلوچ نے‘ جہانگیرترین کو چت کر کے‘ سارے صوبے کو حیران کر دیا تھا۔ ایاز صادق گہرے دریا کی مطمئن لہروں جیسی چال چلتے ہوئے‘ قومی اسمبلی میں داخل ہونے کے عادی ہو چکے تھے۔ 2002ء میں کسی کو پتہ نہ چلا کہ اس نام کا کوئی شخص بھی قومی اسمبلی میں داخل ہو گیا تھا۔ 2008ء میں بھی ایاز صادق نے‘ اچھے چال چلن والے سیاستدان کی طرح‘ خاموشی سے اپنی رکنیت بھگت لی۔ 2013ء میں ان کی پارٹی نے ‘انہیں ایسے حلقے میں اتار دیا‘ جسے قیادت نے انتہائی محفوظ تصور کیا اور یہ کافی محفوظ بھی تھا۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ یہاں اچانک عمران خان کا جھکڑ آئے گا اور انہیں اپنا اور پارٹی کا سارا زور لگا کر ‘مشکل سے نشست حاصل کرنا پڑے گی۔ انتخابی نتائج میں اپنا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں دیکھ کر ایاز صادق نے یہی سمجھا کہ جتنے اعتماد اور اطمینان سے انہوں نے قومی اسمبلی کی پچھلی دو مدتیں پوری کی ہیں ‘وہ تیسری بار بھی سکون سے گزار لیں گے۔ مگر بھلا ہو تیز بولرعمران خان کا کہ انہوں نے بائونسر پہ بائونسر پھینکنے شروع کر دیئے۔ ایاز صادق باربار تیز گیند سے اپنا سر بچاتے ہوئے‘ تھک گئے اور اکتا کر کہا ''بھاڑ میں جائے یہ اننگز‘ میں پھر سے کھیلوں گا۔‘‘ وہ پھر سے کھیل بھی لئے۔ دوبارہ سپیکر بھی بن گئے۔ عمران نے ان کا پیچھا پھر بھی نہ چھوڑا۔ایاز صادق ایک فلمی ہیرو کی طرح تلملا کر چیخ پڑے ''تاریخ پہ تاریخ‘ تاریخ پہ تاریخ‘ تاریخ پہ تاریخ۔‘‘ انہوں نے اپنی ڈگمگاتی جیت کی فائل پھاڑ کے‘ ایک طرف پھینکی اور ''پھر سے‘‘ الیکشن میں کود پڑے۔ اس بار پانی پرسکون نہیں تھا۔ انتہائی پُرزور لہریں اٹھ رہی تھیں۔ ایاز صادق لہروں کے تھپیڑوں سے لڑتے لڑتے آخر کار کنارے پر پہنچ گئے مگر اس مرتبہ انہوں نے ساری وضعداری اور شرافت کو ایل ڈی اے ہیڈکوارٹر میں‘ جلے ہوئے ریکارڈ کی طرح شعلوں میں پھینک کر راکھ بنا دیا۔ اب اس راکھ کی ایک ایک چٹکی ‘ہتھیلی پہ رکھ کے‘ پھونک سے اڑاتے اور قہقہے لگاتے ہیں۔ ایازصادق نے ذاتی غصہ تو اتار لیا اور اتارتے رہتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کے روانی سے بہتے پانی میں رکاوٹ کھڑی ہو گئی ہے۔ پانی ‘اپنا راستہ چھوڑ کر‘ کمزور رکاوٹیں توڑتا ہوا ادھراُدھر نکل رہا ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ بہکا اور بھٹکا ہوا پانی کس طرف جا نکلے گا؟ 
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مِری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
شعر بے محل اور بے موقع ٹپک پڑا۔ لیکن اس وقت کونسی چیز ہے ؟جو برمحل اور برموقع ہو رہی ہو؟ جو الیکشن جیتے ہوئے ہیں‘ انہیں ساڑھے تین سال کے بعد پتہ چل رہا ہے کہ اصل میں تو وہ ہارے ہوئے ہیں۔ ایاز صادق کی روایتی وضعداری نے‘ انہیں ہٹ دھرمی سے ایڑیاں رگڑنے سے منع کر دیا۔ انہوں نے ضمنی الیکشن میں دوبارہ کودنے کا چیلنج قبول کر لیا۔ لیکن توقع کے مطابق کرسی آرام دہ نہیں۔ باربار ہلتی اور جھٹکے لگاتی ہے۔ لگتا ہے کہ ایاز صادق بھی اب اس کرسی کے عادی ہو گئے ہیں۔ لیکن جمہوری کلچر کی دعائیں کرنے والے ساڑھے تین سال تک بدمزہ ہو کر‘ دعائیں کر رہے ہیں کہ کنکروں سے بھرا ‘سالن کھاکے دانت تڑوانے سے تو بہتر ہے کہ آدمی ڈھنگ سے بنائی ہوئی دال کھا لے۔ دوسری طرف حکمران جماعت ‘دھاندلی کے طعنے سنتے سنتے اَڑ گئی ہے اور اس نے ٹھان لیا ہے کہ وہ کنکروں سے بھرے سالن کے لقمے چباتے ہوئے‘ اپنے دانت تڑوا لے گی لیکن حریفوں کو کیک پیسٹری نہیں کھانے دے گی۔ ہماری یہی عادت جمہوریت کو پنپنے کی مہلت نہیں دیتی۔ ہمارا جمہوری نظام اگر بوٹوں کی ٹھوکروں سے بچ نکلے‘ تو ہم خود اسے توڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ بازار میں گھومتے گھومتے ‘ایک خان صاحب کا دل ‘مٹھائی دیکھ کر مچل گیا۔ انہوں نے سیربھر برفی تلوائی اور دکان کے سامنے لکڑی کے بنچ پر بیٹھ کر کھانا شروع کر دی۔ برفی کے اندر گھس کر ایک کالی بِھڑ بیٹھی ہوئی تھی۔ خان صاحب برفی چبانے میں مست تھے۔ منہ کے اندر برفی کے ساتھ گئی بھِڑنے جان بچانے کے لئے آہ و بکا شروع کر دی۔ خان صاحب ''برفی‘‘ کو مزید زور سے چباتے ہوئے بولے: ''خوچہ! چیں کر یا پیں کر‘ خان تو اپنا پیسہ کھا کے رہے گا۔‘‘ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ جب دل چاہتا ہے‘ جمہوریت کی برفی کھانے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی عادت کے مطابق قواعد اور قوانین کی بھِڑوں کو چبانے لگتے ہیں اور جب وہ جان بچانے کے لئے چیختی ہیں‘ تو ہم کہتے ہیں ''خوچہ! چیں کر یا پیں کر‘ خان تو اپنی مرضی کرے گا۔‘‘ ہم بھی آج کل وحشت کے عالم میں جو مٹھائی ہاتھ لگتی ہے‘ کھا رہے ہیں۔ کرپشن کا پیسہ ۔ ناجائز قبضے کی زمین۔ غریب کا گھر ۔ہاتھ میں آیا بٹیرا۔ غریب کے حق کا انصاف۔ ہم ہر چیز چبا جاتے ہیں۔اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ حق مانگنے والوں کی ٹانگیں توڑ دیتے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجائیں‘ تو اینٹیں ٹوٹ جاتی ہیں اور ذرا سی غلطی ہو جائے‘ تو ہاتھ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اینٹیں ہم توڑ دیتے ہیں۔ قوانین ہم توڑ دیتے ہیں۔ انصاف کا لفظ لکھنے والا قلم‘ ہم توڑ دیتے ہیں۔ سرکاری خزانے کی دولت‘ پاناما پہنچا دیتے ہیں اور ہمارے جوتوں میں خوف کے کیل نکل آتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved