کراچی والوں کو یہ دن بھی دیکھنا تھا؟ کہاں وہ دن کہ ایم کیو ایم کارسمی نام لیوا بھی اگر کوئی حکم دے بیٹھتا تو بازار ہو یا محلہ، اردگرد کے سارے لوگ‘ اپنی اپنی خدمات لے کر مودب حاضر ہو جاتے۔ انتخابات ہوتے تو سیکٹر انچارج کا حکم پہنچتے ہی سارے لوگ ‘متعلقہ حلقے کے انتخابی دفتر میں حاضر ہو جایاکرتے۔ امیدوار کے کارندے دو ہی سوال کرتے کہ تمہارا نام انتخابی لسٹ میں ہے یا نہیں؟ نہیں میں جواب ملتا تو دوسرے امیدوار سے پوچھتے کہ ''کیا اس کے پاس شناختی کارڈ ہے‘‘؟ اگرنہ میں جواب ملتا تو اسے ویٹنگ لسٹ میں شامل کر کے بٹھا دیا جاتا اور بشرط ضرورت اسے پولنگ بوتھ میں داخل کرنے کا انتظام ہو جاتا۔ یہ ذمہ داری امیدوار کی ہوتی کہ ووٹروں کی فہرست میں نام اور شناختی کارڈ کے بغیر بھی‘ ووٹ ڈلوا دیا جاتا۔ امیدوار مزید احتیاط کے طور پر شناختی کارڈز سے بھرا ہوا ایک تھیلہ‘ متعلقہ سٹاف کے حوالے کرتا اور وہ فٹا فٹ تھیلے سے ووٹنگ کی پرچی نکال کر‘ اسے اپنے کارندے کے سپرد کردیتا جو بڑی احتیاط سے پولنگ بوتھ میں جا کر ووٹ ڈبے کے اندر ڈال دیتا۔میں نے خواہ مخوا بلاوجہ کی مشقت ‘ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈال دی ہے‘ ورنہ اس کے امیدوار تو گھر کے اندر بیٹھے بیٹھے ووٹ ڈلوا دیا کرتے اور شام کو انہیں صرف یہ احتیاط کرنا پڑتی کہ ووٹوں کی تعداد ‘حلقے کے اصل ووٹروں سے زیادہ نہ ہو جائے۔کبھی ایسا ہو بھی گیا تو اعتراض کرنے والے مخالف امیدوار کو تھپڑ مار کے‘ قائل کر لیا جاتا کہ ڈبوں سے ووٹ پورے نکلے ہیں۔ یہ جو تم اضافی ووٹوں کی گستاخی کر رہے ہو‘ اسے ہم معاف کرتے ہیں۔تم خیر خیریت سے گھر چلے جائو اورخیر خیریت سے نہیں جانا چاہتے تو ہم تمہیں خود بھیج دیتے ہیں۔ وہ سامنے پڑی چارپائی دیکھ لو۔ اس کو اپنے سٹریچر کے لئے پسند کر لوگے؟ یہ تھا ایم کیو ایم کا انتخابی میلہ۔گزشتہ روز صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی ایک نشست پر‘ ضمنی انتخاب ہو رہا تھا۔ ایم کیو ایم کے لیڈروں اور امیدوار کو وہی جتن کرنا پڑے جو کبھی ایم کیو ایم کے مخالف امیدوار کیا کرتے تھے۔
اب انتخابات میں حصہ لینے کے شاہی طور طریقے ہوا ہو چکے۔ ایم کیو ایم کا امیدوار‘ فہرست میں ووٹروں کے نام دیکھ کر‘ کوئی سفارشی ڈھونڈتا اور پھر ووٹر کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ ٹھکانے پر جا کر ووٹ مانگتا اور جب اسے ترت جواب ملتا کہ'' ہم تو آپ کے مخالف امیدوا رکو ووٹ دے رہے ہیں‘‘۔ ایم کیو ایم کا امیدوار غصے میں آکر ایک تھپڑ تیار کرتا لیکن اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے‘تیار شدہ تھپڑ کو محفوظ کر کے‘ واپسی پر یہ تھپڑ اس مخلص کارکن کے سپرد کر دیتا ہے‘ جو اسے اپنے ساتھ لے کر ووٹر کے گھر پہنچا تھا۔عام رواج یہ تھا کہ پارٹی کا کوئی مخلص ورکر‘ آٹھ دس ووٹروں کی ذمہ داری لینے والے شہری کو ''بھائی‘‘ کا پیغام دیتا کہ گھر کے کسی بزرگ کو سارے خاندان کے شناختی کارڈ‘ دے کر میرے ساتھ بھیج دیں۔ میں''بھائی‘‘ کے امیدوار کوو وٹ ڈلواکر بندے اور شناختی کارڈ دونوں کو واپس بھیج دوں گا۔ایم کیو ایم کے بھی کیسے ناز نخرے ہوا کرتے تھے؟ بھائی لوگ سابقہ تجربات کی بنا پر اس ضمنی الیکشن میں بھی‘ اطمینان سے کیمپ آفس میں پائوںپسار کر بیٹھے رہے کہ ووٹر خود ہی حاضر ہوں گے اور'' سلام‘‘ پیش کر کے واپس چلے جائیں گے۔پولنگ کے دن جب صبح کے پہلے تین چار گھنٹوں تک‘ کوئی ووٹر ہی پولنگ سٹیشن کے قریب نہ پھٹکا تو بھائی لوگوں کے سر چکرانے لگے۔پرانے طور طریقے یاد کر کے‘ایک یوتھ ونگ کے ایک دستے کو موٹرسائیکلوں سمیت بھیجا گیا۔ مخالف امیدوار کے جتنے ووٹر پولنگ سٹیشن آچکے تھے۔ ان سے شناختی کارڈچھینے اور ڈرا دھمکا کر گھروں کو بھیج دیا۔ پرانا طریقہ یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے ڈیڑھ دو درجن‘ جوان موٹرسائیکلوں پر پولنگ سٹیشن پہنچتے۔ آپس میں تقسیم ہو کر‘ ایک دوسرے کے ساتھ مار پیٹ شروع کر دیتے اور اسی دوران لڑتے لڑتے مخالف فریق کے ووٹروں کو اپنے نرغے میں لے لیتے۔ وہ بے چارے فساد سے بچ نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہوتے تو ان نوجوانوں میں سے ایک گروپ‘ انہیں ہمدردی سے دھکیلتا ہوا‘ پولنگ سٹیشن کے اندر لے جاتا۔ بھائی کے مخلص کارکن‘ ان کے ووٹ پارٹی کے ڈبوں میں ڈلوا کر انہیں رخصت کر دیتے۔ اگر آپ اس دن کے ضمنی الیکشن کے مناظر‘ ٹی وی پر دیکھیں تو آپ کو فوراً ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ایک ساتھ پولنگ سٹیشن پہنچنے والے‘ یہ نوجوان آپس میں مار پیٹ کیوں کر رہے ہیں؟ گھریلو خواتین اور ان کے شریف مرد‘ دھماکہ خیز لڑائی میں پھنس کر‘ جان بچانے کے لئے بھاگنے کی سوچتے۔ پارٹی کے مخلص کارکن جلدی سے آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کرتے اور ان کے ووٹ اپنے آدمی کے حق میں ڈلوا کر‘ انہیں فارغ کر دیتے۔ یہ تھے ایم کیو ایم کے '' مخلص ووٹر‘‘۔ووٹ حاصل کرنے کے اس شریفانہ نسخے کے علاوہ اور بھی کئی طریقے تھے لیکن ماحول سازگار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ خواجہ اظہار الحسن اور خالد مقبول صدیقی جیسے سینئر رہنما‘ جن کے سامنے ووٹر خود پیش ہو جایا کرتے‘ اس مرتبہ ووٹروں کی تلاش میں گلی گلی گھوم رہے تھے۔ پولنگ سٹیشن لے جانے کے لئے رہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہیں مل رہا تھا۔ خواجہ اظہار اور خالد مقبول صدیقی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آج ووٹر‘ ان سے کنی کترا کر کیوں نکل رہے ہیں؟ براہ راست اپنے ووٹ لے کر ان کی خدمت میں پیش کیوں نہیں ہو رہے؟
چند روز پہلے تک‘ ایم کیو ایم گُندھے ہوئے میدے کی طرح یک جان تھی۔ اب اس کے ٹکڑے ہوتے ہوتے ‘تین تک پہنچ چکے ہیں۔گنتی بہت آگے تک جاتی ہے۔الطاف بھائی نے اپنی پارٹی کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر‘ بدحواسی میں اسے فاروق ستار کے سپرد کر دیا۔اب تک کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ الطاف بھائی کی جگہ کون لے گا؟ فاروق ستار کی جگہ کون لے گا؟ اور سب سے بڑھ کر‘ انیس قائم خانی کی کرسی کون سنبھالے گا؟ماضی میں ایم کیو ایم کے یہ بڑے بڑے لیڈر امید رکھتے تھے کہ ملک کا جو بھی اعلیٰ عہدیدار کراچی آئے گا ‘ وہ نائن زیرو پر حاضری دے کر‘غیر حاضر الطاف بھائی کی مزاج پرسی ضرور کرے گا۔وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔اب صدر‘ وزیراعظم اور وفاقی وزیر‘ کوئی بھی ایم کیو ایم کے صف اول کے لیڈروں کا ٹیلی فون بھی نہیں سنتا۔ٹوٹی پھوٹی ایم کیو ایم کے ٹوٹے پھوٹے ایک مجاور‘ خالد مقبول صدیقی ہیں۔الطاف بھائی نے انہیں ایم این اے بھی بنوا رکھا ہے۔اسی بھرم میں انہوں نے قومی اسمبلی کے اندر ‘وزیراعظم نوازشریف کو دیکھ کر‘ اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور مائیک پر‘ کھلے بندوں وہ معروضات شروع کر دیں‘ جو یہ لوگ تخلیے میں کرنے کے عادی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف ‘ خالد مقبول صاحب کو بے تحاشہ
بولتے دیکھ کر‘ جلدی سے باہر کی طرف چل دئیے۔ رک جاتے تو خالد مقبول صدیقی جس طرح بچھے جا رہے تھے۔ اسے دیکھ کر ڈر لگ رہا تھا کہ وہ وزیراعظم سے پانچ روپے کا نیا سکہ ہی نہ مانگ لیں۔اچھا ہوا میاں صاحب نے موقع نہ دیا ورنہ ان کے جیالے ‘ ان دنوںٹانگیں توڑنے کے لئے بند ے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ بعد میں خالد مقبول صدیقی نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر لگے ہوئے مائیک پر‘ باقی ماندہ تقریر کرنے کی ٹھانی مگر یہ نہ تو کراچی تھا‘ نہ حیدر آباد۔ نہ الطاف بھائی کے فدائین کا ہجوم اور نہ ہی غرض مندوں میں دیگ بٹ رہی تھی۔اچھا ہوا کہ آس پاس کوئی دیگ نہیں تھی ورنہ ایم کیو ایم کے صف اول کے رہنما ‘ پلائو کی پلیٹ بھر کے‘ پارکنگ کی طرف بھاگ رہے ہوتے۔میں نے یہ کالم مکمل کر کے‘ایک دوست کو سنایا۔ اس نے مشورہ دیا ''اب کراچی کا رخ مت کرنا!‘‘۔پتہ نہیں اس نے کیوں یہ مشورہ دیا؟ایم کیو ایم کے فراغت یافتہ لیڈر بھی‘ ہمارے وزیراعظم کو گھیر کے تقریریں سنا دیتے ہیں۔ مجھے کس بات کا ڈر؟۔