تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-09-2016

روشنیوں کا شہر

قبائلی علاقے اور بلوچستان کی طرح‘ کراچی کے دہشت گردوں کا خاتمہ بھی سہل نہیں۔ اس کے لیے کئی محاذوں پر لڑنا ہو گا اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ۔ افسوس کہ وزارتِ عظمیٰ پر وہ آدمی فائز ہے‘ امن کی اہمیت کا جسے کوئی ادراک نہیں۔ جس کا خیال ہے کہ ترقی و تعمیر تارکول کی سڑکوں کے وسیع و عریض جال کو کہتے ہیں۔
بڑی خبر کراچی سے آئی‘ جہاں صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں فاروق ستار کی ایم کیو ایم نے خاک چاٹی۔ 2013ء کے الیکشن میں‘ اسی حلقے سے‘ اسی پارٹی کے اشفاق حسن منگی نے 60 ہزار ووٹ لیے تھے۔ گھٹ کر اب وہ صرف 15000 رہ گئے‘ پچیس فیصد۔ ڈالے گئے کل ووٹوں کا صرف 6.7 فیصد۔
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے سوال کیا ہے اور اس سوال کا جواب فاروق ستار کے ذمہ ہے کہ الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کرنے والے ٹولے نے انتخابی مہم میں اپنا موقف صراحت سے کیوں بیان نہ کیا۔ پاکستان کو کینسر‘ ناسور اور دہشت گردی کا گڑھ قرار دینے والے نیم پاگل آدمی کی انہوں نے مذمت کیوں نہ کی۔ آخر وہ کس چیز کے لیے ووٹ مانگ رہے تھے؟ کراچی شہر کے مسائل حل کرنے کے لیے؟ کوڑے کے ڈھیر‘ پانی کا قحط‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں‘ ٹرانسپورٹ اور کوٹہ سسٹم کا خاتمہ کرنے کے لیے؟ ہڑتال تو کیا‘ ان چیزوں پر ایم کیو ایم نے بھرپور احتجاج کبھی نہ کیا۔ اب بھی بلدیات کے لیے اختیار حاصل کرنے سے زیادہ‘ فاروق ستار اینڈ کمپنی کی توجہ اپنی کھال بچانے اور مہاجروں کو مظلوم ثابت کرنے پہ ہے۔ وہی جذبات اور وہی تعصبات کا کھیل۔
کراچی کے ایک نیک نام پولیس افسر سے پوچھا: جمعرات کے دن حلقہ 127 میں کیا ہوا۔ سادہ اطوار آدمی نے کہا: پیپلز پارٹی کی سیٹ تھی‘ اسے واپس مل گئی جناب۔ ایم کیو ایم والے غنڈہ گردی سے جیتا کرتے تھے۔ اب کی بار بھی کوشش انہوں نے بہت کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کے مطابق زیادہ ووٹ یہاں سندھیوں اور بلوچوں کے ہیں۔ منصفانہ الیکشن میں ایم کیو ایم کبھی ظفرمند نہیں ہو سکتی۔ مصطفی کمال کا اندازہ مختلف ہے۔ ابھی ابھی ان سے بات ہوئی تو کہا: جی نہیں‘ اردو بولنے والوں کے ووٹ زیادہ ہیں۔ اپنی خاموشی سے رائے دہندگان نے فاروق ستار کے موقف کو مسترد کر دیا۔ ان کا دعویٰ ماننے سے انکار کر دیا کہ الطاف حسین سے وہ الگ ہو چکے ہیں۔ مصطفی کمال نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم کو ملنے والے اصل ووٹ سات‘ آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں۔ شادمان کے علاقے میں تین چار پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ جمانے کا انہیں موقع مل گیا تھا؛ لہٰذا‘ کراچی کی مقامی زبان میں‘ آزادی سے‘ ووٹ وہ چھاپتے رہے‘ ورنہ ان کی شکست اور بھی شرمناک ہوتی۔ 
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی روش نہیں بدلی۔ اب بھی غنڈہ گردی ہی پر وہ انحصار کرتے ہیں۔ پولیس افسر نے‘ جسے برسوں سے میں جانتا ہوں اور جو ایک صداقت شعار آدمی ہے‘ یہ کہا: دہشت گرد بھی اپنی روش کیا کبھی تبدیل کیا کرتے ہیں؟ فاروق ستار کے دعوے کو انہوں نے مضحکہ خیز کہا کہ صرف ایم کیو ایم حقیقی کے لوگ فساد کے مرتکب ہوئے۔ بتایا گیا کہ ان کی استعداد کچھ ایسی زیادہ نہیں۔ ''لانڈھی اور کورنگی کے دو تھانوں تک محدود‘‘ انہوں نے کہا۔ اس قدر بڑے پیمانے پر بسیں اور کاریں جلانے کے واقعات کیوں رونما ہوئے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: پولیس اور رینجرز نے صورتحال کو سمجھنے میں غلطی کا ارتکاب کیا۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد کا وہ شکار ہو گئے۔ ان کا احساس یہ تھا کہ اس قدر شدید عوامی دبائو میں غیر قانونی حربے اختیار کرنے سے وہ گریز کریں گے۔ لاتوں کے بھوت مگر باتوں سے نہیں مانتے۔
پولیس اور رینجرز نے پولنگ سٹیشنوں پر حفاظتی انتظامات کیے تھے؛ چنانچہ بڑے پیمانے کی گڑبڑ وہاں تو ہو نہ سکی۔ گلیوں اور بازاروں میں ایم کیو ایم حقیقی اور ایم کیو ایم الطاف حسین کے قانون شکن متصادم رہے۔ گاڑیاں جلانے کے کم از کم تین واقعات کے بارے میں پولیس کو یقین ہے کہ اس کے ذمہ دار فاروق ستار گروپ کے لوگ ہیں‘ اگر اسے فاروق ستار گروپ کہا جا سکے۔ ''باقی دو کے بارے میں بھی زیادہ تر امکان یہی ہے‘‘ انہوں نے کہا۔ پوچھا گیا: اس قدر وثوق سے وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ جہاندیدہ آدمی نے کہا: شواہد پہ انحصار ہوتا ہے‘ جن کی گاڑیاں جلی ہیں‘ ان سے بات کی گئی اور اردگرد کے لوگوں سے معلومات حاصل کی گئیں۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کے دہشت گردوں کی قوت میں کمی نہیں آئی؟ شاید یہ اہم ترین سوال ہے اور شاید رینجرز کے متعلقہ افسر ہی درست جواب فراہم کر سکتے ہیں۔ کوشش کے باوجود ان میں سے کسی سے رابطہ نہ ہو سکا۔ رینجرز حکام میڈیا سے بے نیاز ہیں؛ تاہم شکایت وہ کیا کرتے ہیں کہ ان کے خلاف بے سروپا خبریں اور تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس افسر سے پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا: دبائو بڑھتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں یا کراچی سے بھاگ لیتے ہیں۔ جینز والے (ایم کیو ایم کے دہشت گرد) سری لنکا‘ تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی راہ لیتے ہیں۔ شلوار قمیض والے (تحریکِ طالبان پاکستان) وزیرستان یا دوسرے قبائلی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ بعض پنجاب میں جا چھپتے ہیں۔
فاروق ستار گروپ سے جنہیں حسنِ ظن تھا اور جو ان کے لیے مواقع ارزاں کرنے کی بات کر رہے تھے‘ اپنے موقف پر انہیں شاید نظرثانی کرنا ہو گی۔ ان میں سے وہ جو سچائی کے متلاشی ہیں‘ آنکھیں بند کرکے بھارتی پروپیگنڈے کو جو قبول نہیں کرتے اور سیاسی مصلحتوں سے بلند ہو کر سوچ سکتے ہیں۔
فاروق ستار اور ان کا گروہ‘ الطاف حسین پر اس طرح ایمان لایا‘ نعوذ باللہ‘ جس طرح کسی پیغمبر پر ایمان لایا جاتا ہے۔ پاکستان کا جھنڈا اس نے جلایا تو انہیں ملال تک نہ ہوا۔ دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے نوجوانوں کو بھارت بھیجا تو کوئی خلش انہیں محسوس نہ ہوئی۔ امریکہ اور برطانیہ سے ہزاروں کو ویزے دلوائے تو کوئی سوال ان میں سے کسی کے ضمیر میں ابھر نہ سکا۔ ایک ایک کرکے 1995ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے دو سو پولیس افسر قتل کر دیے گئے تو انہیں ہرگز کوئی دکھ نہ پہنچا۔ کراچی کے بارہ ہزار شہری شہید کر دیے گئے اور یہ لوگ شادکام رہے۔ قیام پاکستان کو‘ اس شخص نے تاریخ انسانی کی سب سے بڑی حماقت قرار دیا‘ تو یہ خاموش رہے۔
کراچی‘ کوئٹہ اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی‘ اپنی نوعیت کے پہلے واقعات نہیں۔ تاریخ اس طرح کے حادثات سے بھری پڑی ہے۔ نو سو برس پہلے‘ شیخ الجبال کے پیروکاروں نے عالم اسلام کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ اب جنہیں حشیشین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شب کی تاریکی میں کہیں کوئی خنجر بردار نمودار ہوتا‘ کسی جنرل امیر یا گورنر کے قلب میں پیوست کر دیتا۔ عظیم ریاضی دان‘ شاعر اور ماہرِ فلکیات عمر خیام کو وہ اس کے گھر یا رصدگاہ سے اٹھا لے گئے تھے۔ کئی دن تک مصنوعی جنت میں رکھا گیا۔ یہاں وہ لوگ پہرہ دار تھے‘ جو ذہنی تطہیر کے تمام مرحلوں سے گزر چکے تھے۔ ہیرالڈلیم نے ''عمر خیام‘‘ کے عنوان ہی سے اس کی روداد لکھی ہے اور یہ بھی کہ عرب نابغہ اس جنت سے کیونکر فرار ہو سکا۔ اس قدر یہ لوگ طاقتور تھے کہ صلیبیوں کو روند ڈالنے والا صلاح الدین ایوبی ایسا بے بہا جنرل بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا؛ تاآنکہ تاتاری طوفان نے ان کا خاتمہ کر دیا۔
قبائلی علاقے اور بلوچستان کی طرح‘ کراچی کے دہشت گردوں کا خاتمہ بھی سہل نہیں۔ اس کے لیے کئی محاذوں پر لڑنا ہو گا اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ۔ افسوس کہ وزارتِ عظمیٰ پر وہ آدمی فائز ہے‘ امن کی اہمیت کا جسے کوئی ادراک نہیں۔ جس کا خیال ہے کہ ترقی و تعمیر تارکول کی سڑکوں کے وسیع و عریض جال کو کہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved