آج سے ڈیڑھ دہائی قبل 11ستمبر 2001ء کو امریکہ میں دہشت گردی کی جو ایک بڑی واردات ہوئی تھی، اس کے دنیا بھر میں بہت ہی اذیت ناک مضمرات سامنے آئے ہیں۔ جہاں اس دہشت گردی سے القاعدہ کے روپ میں مذہبی جنون کو بڑے پیمانے پر شہرت حاصل ہوئی تھی، وہاں دنیا بھر میں مسلمان پس منظر رکھنے والے مضطرب، بحران کی شدت سے پریشان و بیزار نوجوانوں میں انتہا پسندی، مہم جوئی اور وحشت کا ایک نیا رجحان تیزی سے پھیلا۔ لیکن یہ اثرات صرف مسلمان اکثریتی ممالک میں ہی مرتب نہیں ہوئے بلکہ یورپ‘ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے مسلمان تارکینِ وطن میں بھی رجعتیت کے رجحانات کو فروغ حاصل ہوا تھا۔ وہ نئی نسل‘ جس کا جنم ان ترقی یافتہ معاشروں میں ہوا تھا اور جو یہیں پر پروان چڑھی تھی، کو مغربی سرمایہ داری کے زوال سے پیدا ہونے والی اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی بیگانگی نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ ان نوجوانوںکا اس وحشت کی جانب راغب ہو کر‘ اس مہم جوئی کے ذریعے کسی تصوراتی مقصد کی لاامتناعی تلاش میں بھٹکنے اور 'نجات‘ کی تلاش کے عمل کا شکار ہونا‘ نسبتاً زیادہ آسان تھا۔ اس واقعے سے القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کو مخصوص پرتوں کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ ان کی مالیاتی اور افرادی کمک اور طاقت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ ان میں شامل ہونے والے زیادہ تر نوجوان پڑھے لکھے تھے اور ہنرمند بھی۔ ان میں سے بہت کم کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا بلکہ یہ زیادہ تر درمیانے طبقات اور سماجی و معاشی طور پر نسبتاً بہتر پیشوں سے منسلک تھے۔ کچھ تیکنیکی پیشوں میں ملازمت رکھتے تھے اور ایک قابل ذکر تعداد بیروزگار مگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی۔ وحشت پر مبنی فرقہ وارانہ مسلح اور دہشت گرد تنظیمیں بنا کر ایک وسیع کاروبار کا آغاز ہوا۔ کچھ پرانے پاپیوں نے پہلے سے چلنے والے اس مذہبی کاروبار کی تنظیموں کو مزید وسیع اور سفاک بنایا، بلکہ اس جنونیت کے نئے نئے فرقے بھی ایجاد یا دریافت کیے گئے۔ آج جتنے فرقے پائے جاتے ہیں 15 سال پہلے اتنی فرقہ واریت تھی ہی نہیں۔ اس دہشت گردی کو بہت سی ریاستیں اور حاکمیتیں بھی اپنے مذموم مقاصد اور مالیاتی و عسکری مفادات کے لیے پراکسیوں کے طور پر استعمال کرنے لگیں۔ اس 'دھندے‘ کو تقویت دینے کے لئے کروڑوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس سے یہ دہشت گردی کا ناسور پھیلتا چلا گیا اور پاکستان سے لے کر افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ تک کو خونریزی اور بربادیوں سے تاراج کرتا گیا۔ دوسری جانب امریکی اور یورپی سامراجیوں نے اس دہشت گردی کی واردات کو کہیں زیادہ عیاری سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ سامراجی ماہرین نے ایک فوری اور دور رس 'حکمت عملی‘ وضع کی۔ خارجی میدان میں انہوں نے اس 'واقعے‘ کو ایک انتہائی پُرفریب جواز بنا کر افغانستان، عراق اور دوسرے علاقوں میں وحشیانہ جارحیت سے قبضے کرنے شروع کر دیے۔ داخلی طور پر امریکی حکمرانوں نے اس المناک واقعہ کے صدمے میں ڈوبے ہوئے امریکی عوام کو ایک ''قومی یکجہتی‘‘ میں جوڑ کر امریکہ میں مزدوروں کی اجرتوں میں کٹوتیاں اور ان کی ملازمتوں کی رعایتوں میں شدید کمی کرکے اپنے شرح منافع میں تیز اضافے کی واردات کر دی۔
اس ایک واقعے سے جتنا مذہبی دہشت گردی کو فروغ اور مالیاتی بہتات حاصل ہوئی تھی اس سے دولت کی لالچ اور سفاک طاقت کی ہوس کے لیے‘ اس دہشت گردی کو مزید جدت اور وسعت دینا لازم تھی اور انہوں نے یہ کیا۔ سامراجیوں نے اس دہشت گردی کے نام پر اپنی لوٹ مار اور غارت گری کو تسلسل دینا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن جہاں آج دہشت گردی کے مذہبی پیشوائوں کے لیے اس جنون اور وحشت کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے‘ وہاں امریکی سامراجیوں کی قومی جڑت ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ ''آکوپائی وال سٹریٹ‘‘ تحریک‘ ایک اور ننانوے فیصد کے تضاد کو زبان زد عام پر لا کر 'اجاگر‘ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس تحریک سے امریکہ میں (حکمران طبقے کی شعوری کاوشوں سے) ملفوف 'طبقاتی کشمکش‘ سماج میں واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ آج امریکی معاشرہ نسلی، فرقہ وارانہ اور ریاستی جبر کے خلاف مختلف مظلوم پرتوں کی نفرت اور بغاوت کے مقابل ہے، جس نے اس کی قومی یکجہتی کو چور چور کر دیا ہے‘ لیکن جو دور رس حکمت عملی سامراجیوں نے بنائی تھی اس کے تحت سامراجی ممالک کے عوام میں خصوصاً ایک خوف اور عدم تحفظ کا مسلسل احساس پیدا کرکے طبقاتی استحصال کو زیادہ جبر سے مسلط کرنا تھا۔ اس وقت امریکہ میں حالت یہ ہے کہ 83 فیصد لوگ داعش کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ میڈیا اور حکمران ریاستیں اس ''خطرے‘‘ کا مسلسل پرچار کرکے عام لوگوں کے ذہنوں کو مائوف کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہوائی سفر سے لے کر شاپنگ اور دوسرے روزمرہ کے کاموں میں ہر جگہ اس 'خطرے‘ سے مشکلات
میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے۔ ہر طرف سکیورٹی اتنی بڑھا دی گئی ہے کہ عام انسانوں کی زندگیوں میں کٹھنائیاں اور بوجھ کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ذہنی طور پر اس قسم کے واقعات ایسے نفسیاتی زخم لگاتے ہیں کہ جسمانی زخموں کے بھر جانے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔ اس قسم کی تلاشیاں‘ الارم اور ایسے دہشت گردی کے حملوں کی خبریں عوام کے ان نفسیاتی زخموں کو پھر سے کرید دیتی ہیں۔ جس طرح دہشت گردی ایک بہت بڑا منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اسی طرح 'تحفظ‘ اور 'انتباہ‘ بھی ایک بہت منافع بخش صنعت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ امریکہ میں صرف ''ہوم لینڈ سکیورٹی‘‘ کی نئی وزارت کے اخراجات 79 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کی سکیورٹی کمپنیاں اربوں کا کاروبار کر رہی ہیں‘ لیکن شرح منافع کے حصول کے لیے ہر چیز کی پیداوار اور فراہمی کی کوالٹی میں گراوٹ لائی جاتی ہے۔ اس طرح سکیورٹی میں بھی ''دو نمبری‘‘ پائی جاتی ہے۔ امریکہ کے ایک ماہرِ سکیورٹی بروس شنائیر نے ہوائی اڈوں اور دوسرے مقامات کی سکیورٹی کو ''سکیورٹی تھیٹر‘‘ قرار دیتے ہوئے 3 ستمبر کو یہ انکشاف کیا کہ امریکہ کی ''ہوم لینڈ سکیورٹی‘‘ کی وزارت کی ایک خفیہ ٹیم نے جو تجربہ کیا‘ اس میں جعلی بندوقوں اور بمبوں کو انہوں نے 70 مرتبہ مختلف ''بیگیج سکینرز‘‘ سے گزارنے کی کارروائیاں کیں۔ ان میں سے 67 کامیاب رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے عہد کے سیاست دان اور ذرائع ابلاغ چونکہ ایک بیمار نظام زر کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے وہ اس قسم کی دھماکوں اور خود کش حملوں کی
خبریں اور بیانات کو بہت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں‘ لیکن اس مبالغہ آرائی سے عام لوگ‘ جو پہلے ہی اپنی روزی روٹی کے مواقع کی قلت سے پریشان ہیں‘ ذہنی طور پر مزید مجروح ہوتے ہیں۔ شاید حکمران طبقات کے نمائندے ایسی سنسنی خیزی جان بوجھ کر پھیلاتے ہیں تاکہ عوام مزید خوف و ہراس سے مفلوج ہو کر ان کے ظلم و استحصال کے خلاف بغاوت نہ کر سکیں۔ اس سے نہ صرف دہشت گردوں کو شہ ملتی ہے بلکہ معاشرے میں دکھ اور اذیت بھی بڑھ جاتے ہیں‘ لیکن ہر چیز کا ایک انت ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت کو میڈیا اپنی ریٹنگ اور حکمران طبقات کے سیاست دان ایک حد تک ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ جوں جوں روزمرہ کی خبروں میں دہشت گردی ایک معمول بننا شروع ہو جاتی ہے‘ اس سے مرتب ہونے والے عوامی نفسیات پر شاک اور صدمے کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کے ایک سروے کے مطابق ایک مخصوص عرصے کے بعد ان ممالک کے ٹیلی ویژن چینلز نے ان دھماکوں اور وارداتوں کی کوریج کو کم کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان خبروں کے مسلسل چلانے کی وجہ سے عوام میں ان سے بیزاری بڑ ھ گئی تھی اور ان چینلز کی ریٹنگ تیزی سے گرنا شروع ہو گئی تھی۔ 11 ستمبر کی المناک دہشت گردی میں جو 3000 امریکی جان سے گئے تھے ان کی اکثریت محنت کشوں کی تھی۔ عراق‘ افغانستان اور دوسرے خطوں میں سامراجی جارحیت سے لاکھوں غریب ہی مارے گئے تھے۔ دہشت گردی کا شکار بھی زیادہ تر محروم طبقات کے افراد ہوتے ہیں اور ریاستی سکیورٹی آپریشنوں سے بھی زیادہ تر عام انسان ہی جانیں گنواتے ہیں۔ سامراجیت اور مذہبی دہشت گردی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں اس نظامِ زر کی پیداوار اور اس کے آلہ کار ہیں۔ ایسا فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام‘ نسل انسان کو ان بربادیوں اور خونریزیوں کے علاوہ دے بھی کیا سکتا ہے!!