تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-09-2016

بندھی آپ کے در پہ بھی ایک گائے

شکر، صد شکر کہ کئی طرح کے جتن کرنے کی بدولت کم از کم ایک مرحلۂ شوق تو طے ہوا۔ ذبیحے کی خاطر جو کچھ لازم ہے اُس کا اہتمام ہوا۔ مویشی منڈی کی جاں گُسل منزل سے گزر کر آپ بھی سُرخ رُو ہوئے۔ ؎ 
بندھی آپ کے در پہ بھی ایک گائے 
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے! 
مگر یاد رکھیے، یہ مطمئن ہو رہنے کا مقام نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کا سَمے شروع ہوتا ہے اب! قربانی کا جانور آپ سے ایک قدم آگے ہے اِس لیے آپ کا سَمے شروع ہوتا ہے اور اُس کے مزے شروع ہوتے ہیں! 
اب سے ذبیحے تک کئی مراحل باقی ہیں۔ اور یاد رہے کہ اِن میں سے ہر مرحلہ آپ کو ذبیحے کی سی کیفیت سے دوچار کرنے کی سکت رکھتا ہے! پہلا مرحلہ ہے ناز برداری کا۔ آپ کا عہدِ شباب شاید کب کا گزر چکا ہے۔ اُس عہد کی کچھ یادیں تو آپ کے ذہن میں اب بھی تازہ ہوں گی۔ اور کچھ یاد ہو نہ ہو، ناز برداری تو آپ شاید ہی بُھولے ہوں! بھری جوانی میں کسی نہ کسی کے ناز تو اُٹھائے ہی ہوں گے۔ بس، تو پھر اُس کیفیت کو دُہرانے کے لیے تیار ہوجائیے۔ ایک بار پھر ناز برداری کا عہدِ زرّیں خود کو دُہرانے کے لیے تیار ہے، بلکہ اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔ مگر گھبرائیے مت۔ خاتونِ خانہ کے ذہن میں کسی قسم کے تحفظات نہیں اُبھریں گے۔ اِس بار آپ کے کھاتے میں محض ایک جانور کی ناز برداری جو لکھی گئی ہے! خاتونِ خانہ کو معلوم ہے کہ کچھ دن کی ناز برداری ہے اور پھر چُھری اور بُغدے کی منزل ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر آپ اِس عمر میں کسی ماہ جبیں کے ناز اُٹھانے پر تُل جائیں تب بھی خاتونِ خانہ کو ذرّہ بھر اعتراض نہ ہوگا ... بشرطِ کہ آپ کچھ دن کی ناز برداری کے بعد اُس ماہ جبیں کو بھی اُسی طور چُھری اور بُغدے کی منزل سے گزاریں جس طور گائے کو گزارنے والے ہیں! 
خریداری کے بعد ذبیحے تک قربانی کے جانور کی خاطر مدارات اور ناز برداری کے ہاتھوں بہت سے لوگ اَدھ مُوئے سے جاتے ہیں اور پھر اُن پر قربانی کے جانور کا گماں ہونے لگتا ہے! ایسا اِس لیے ہے کہ قربانی کا جانور جتنے دن دروازے سے بندھا رہتا ہے، میلے کا سماں بھی گھر سے جُڑا رہتا ہے ... اور اس میلے کے تمام اخراجات غریبِ خانہ یعنی صاحبِ خانہ ہی کو جھیلنا پڑتے ہیں! اِس دوران جو لوگ گھر آتے ہیں اُن کے دل و نظر کی تسکیں سامان محض قربانی کا جانور دیکھنے سے نہیں ہوتی بلکہ اِس میں خاصا اہم، بلکہ کلیدی کردار چائے پانی کا ہوتا ہے! 
آپ نازک مزاج ہوں یا نہ ہوں مگر قربانی کا جانور بہت نازک مزاج اور حَسّاس ہوتا ہے، بات بات پر بِدک جاتا ہے۔ آپ نے بھلے ہی نہ سُنا ہو مگر میر ببر علی انیسؔ کا یہ مقطع قربانی کے ہر جانور کو ازبر ہوتا ہے کہ ؎ 
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دَم 
انیسؔ! ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 
ایسے میں اُس کے لیے کسی معقول گوشۂ تنہائی کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔ آپ سوچیں گے اب تک آپ کو تو ڈھنگ کا گوشۂ تنہائی میسر نہیں ہوا۔ بھئی، آپ جانور تھوڑی ہیں! تنہائی، صفائی، نہلائی، دُھلائی ... یہ سب تو جانوروں کے چونچلے ہیں! دیہی ماحول میں جاکر دیکھ لیجیے، لوگ ماں باپ کے ہاتھ پیر نہیں دباتے مگر گائے بیل کو نہلانے کے بعد تیل چپڑ کر مالش بھی کرتے ہیں! دل چھوٹا مت کیجیے ورنہ کمتر ہونے کا احساس آپ کے دل و دماغ کو جکڑ لے گا۔ قربانی کے جانور کو معقول سا گوشۂ تنہائی الاٹ کرکے کونا پکڑیے! 
جہاں قربانی کا جانور باندھا گیا ہو وہاں دورِ جدید کی بے ہنگم موسیقی کے اہتمام سے گریز کیجیے۔ پُرسکون دیہی ماحول میں پروان چڑھنے والے جانور موسیقی کے معاملے میں بہت حَسّاس اور رمز شناس ہوتے ہیں۔ بے سُرے گلوکاروں کی چیخ پُکار اُن کی طبیعت میں تکدّر پیدا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مضطرب ہوکر رَسّی تُڑانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں! جس طور تھوڑے کو بہت اور خط کو تار سمجھا جاتا ہے بالکل اُسی طور ہمارے مشورے کو غنیمت جانیے اور پوری کوشش کیجیے کہ ہمیش رشمیّا سمیت کسی بھی بے سُرے کا گایا ہوا کوئی گانا قربانی کے جانور کی سماعت سے نہ ٹکرائے۔ اگر نئے گانے سُننے سے جانور میں کوئی ذہنی مرض پیدا ہوگیا تو وہ قربانی کے قابل نہ رہے گا! 
قربانی کے جانور کی کِھلائی پِلائی بھی ایسا معاملہ نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے یا ہلکا لیا جائے۔ پِلائی کا تو یہ ہے کہ چلو، وہ پانی بھی پی لیتا ہے مگر کِھلائی کے معاملے میں لاپروائی نہیں چلے گی۔ آپ کے گھر میں کبھی گریڈ 22 کا کوئی افسر آیا ہے۔ اگر آیا ہے تو یاد ہوگا کہ اُس کی خاطر مدارات کیسے کی گئی تھی! اور اگر نہیں آیا تو کسی سے پوچھ لیجیے۔ قربانی کے جانور کو بھی اُس کے گلے پر چُھری پِھرنے تک گریڈ 22 کا افسر ہی سمجھیے، بلکہ کبھی کبھی تو اعلٰٰی افسران بھی شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ ہمیں اُتنی عزت نہیں دی جتنی قربانی کے جانور کو دی جاتی ہے! 
ہم جانتے ہیں کہ آپ سفید پوش طبقے سے ہیں اِس لیے کچھ بھی کھا پی لیتے ہیں اور وہ ہضم بھی ہو جاتا ہے۔ اِس یومیہ معمول یا اُصول کا اطلاق قربانی کے جانور پر مت کیجیے گا۔ کوئی چیز اگر سڑ بھی جائے یا سڑنے والی ہو تو اُسے ہضم کرنا آپ کے لیے کوئی مشکل مرحلہ نہیں کہ حالات نے آپ کے ہاضمے کو لکڑ ہضم پتھر ہضم کردیا ہے مگر یاد رکھیے، قربانی کے جانور کو جو لُوسن درکار ہے وہ اعلٰی معیار ہی کا نہیں بلکہ تازہ بھی ہو! اگر ایسا نہ ہو تو صحت متاثر ہونے کی صورت میں جانور ''داغی‘‘ ہوجائے گا! اہلِ خانہ آپ میں نُقص برداشت کرلیں گے، قربانی کے جانور کا ''داغی‘‘ ہو جانا کسی طور ہضم نہیں کر پائیں گے! 
قربانی کا جانور آپ اِس لیے تو نہیں لائے نا کہ تاوان وصول کیا جائے؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اُسے مَغوی کی طرح اپنے دروازے سے باندھے نہیں رکھنا ہے۔ آپ مردُم بیزار ہوسکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ زیادہ ملنا ملانا آپ کو پسند نہ ہو مگر قربانی کے جانور کو اپنے جیسا مت سمجھیے۔ آپ نے دیہی ماحول میں جانوروں کو خوب مٹر گشت کرتے دیکھا ہوگا۔ یعنی یہ کہ وہ خاصے ''سوشل‘‘ ہوتے ہیں! پھر آپ نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ وہ شہر میں پہنچ کر گھومنا پھرنا، لوگوں کے درمیان سے گزرنا پسند نہیں کریں گے؟ سیدھی سی بات ہے، آپ کو قربانی کے جانور کی ''ڈیلی واک‘‘ کا بھی اہتمام کرنا ہے تاکہ اُس کے پیٹ اور دماغ دونوں کا ہاضمہ درست رہے! اِسی صورت وہ آپ سے اور آپ کے اہلِ خانہ و محلہ سے ''ہل‘‘ سکتا ہے، وگرنہ ایسا ہلتا رہے گا کہ کسی کے اچھے خاں بھی سنبھال نہ پائیں گے! 
قربانی کے جانور کی ڈیلی واک اُس کی صحت اور آپ کی شہرت کے لیے بہت اچھی ہے! قربانی کے جانور کو دیکھنا کارِ ثواب کے ساتھ ساتھ ذریعۂ تفریح بھی ہے۔ اور جانور کے پہلو بہ پہلو آپ کا پایا جانا بھی چھوٹے موٹے تماشے سے کم تو نہیں ... بالخصوص اُس وقت جب اپنے سے کئی گنا وزنی و طاقتور جانور کو ایک ذرا سی، ازار بند نُما رَسّی کی مدد سے کنٹرول کرنا آپ کے لیے جُوئے شیر لانے جیسا ثابت ہو رہا ہو! ہم نے محسوس کیا ہے کہ کبھی کبھی تو قربانی کے جانور بھی جان بوجھ کر تھوڑا سا چُلبلا پن دکھاتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ اُنہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کیسا تماشا کھڑا کرتی ہے! جو لوگ قربانی کے لیے کوئی جانور خرید نہیں پاتے وہ بھی اِن دنوں میں ڈیلی واک کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ اِس طرح کے تماشے ٹکٹ خریدے بغیر دیکھ سکیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved