تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     11-09-2016

جنوبی ایشیا کے مسلمان

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو اپنے بنائے ہوئے پاکستان ہی سے نہیں، اِس دُنیا سے رخصت ہوئے بھی اڑسٹھ برس بیت گئے، لیکن آج بھی اُن کی ذات پاکستانی سیاست میں سب سے بڑا اور سب سے مستند حوالہ ہے۔ آج بھی رہنمائی کے لیے اُن کی طرف دیکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُن کے نظریات کی تغلیط کرنے والے بھی انہی سے استفادہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال و افعال کی من مانی تشریح و تعبیر کرنے والے کم نہ ہوں، طرح طرح کے فرقہ باز احادیث ہی نہیں قرآن کریم کی آیات سے بھی مطلب براری کرنے میں طاق ہوں، وہاں قائد اعظمؒ کے سر پر اپنی اپنی ٹوپیاں سجانے والے نوسر بازوں کا ماتم کیسے کیا جائے، اور ان کی عقل و دانش پر آنسو کیوں کر بہائے جائیں؟... اُمت مسلمہ مسلسل ان لوگوں کی زد میں رہی ہے، جنہوں نے اسلام کی بیخ کنی کے لیے اسلام ہی کا نام استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ خلفائے راشدین کے قاتل بھی کلمہ گوئی کا دعویٰ رکھتے تھے۔ کفر کے فتوے لگانے والوں اور واجب القتل قرار دینے والوں کے ماتھوں پر بھی محراب سجے ہوئے تھے۔ آج بھی ملت اسلامیہ اغیار کے ساتھ ساتھ انہی کے ہاتھوں خوار و زبوں حال ہے، جو اسلام کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں۔ اسلام ہی کے نام پر وہ بے گناہوں کو نشانہ بناتے، عورتوں اور بچوں پر ظلم ڈھاتے، بستیاں تاراج کرتے، مسجدیں اور مدرسے مسمار کرتے، اور بازاروں کو کھنڈر بناتے ہیں۔ خود کش حملہ آور جنّت ہی کی تلاش میں اپنے آپ کو بم بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے خالق اور سہولت کار اپنے رب کو راضی کرنے کے نام پر اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنانے پر تُلے ہیں۔ جس اللہ نے واضح طور پر اعلان کر رکھا ہے، اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنی کتاب کا حصہ بنا دیا ہے کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اور ایسے قاتلوں کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے‘ اُسی اللہ کا نام لیتے ہوئے اُس ہی کے کلام کی تلاوت کرتے ہوئے خود کش بمبار تیار کیے جاتے، اور انہیں اپنے اہداف پر داغا جاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس سب کے پیچھے اغیار کا ہاتھ ہے، کسی حد تک یہ درست بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کا انکار کیسے کیا جائے کہ استعمال ہونے والے اپنے آپ کو مجتہد قرار دیتے ہیں، اور اپنی آزاد روی پر اصرار کرتے ہیں۔
اُمت مسلمہ پر زمین تنگ ہو رہی ہے، اس کے اپنے خطہ ہائے ارضی پر فساد برپا ہے، لاکھوں کیا کروڑوں بے گھر ہیں، لاکھوں قتل کیے جا چکے، اور لاکھوں اپاہج اور لاچار بن چکے۔ بیوائوں اور بچوں کی تعداد گنی نہیں جا سکتی... فرقہ باز مقدس مقامات پر بیٹھے ہوئے زہر اُگل رہے ہیں۔ سعودی عرب کے مفتیء اعظم نے ایران کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی جبکہ ایرانی قیادت سعودی حق حکمرانی کو چیلنج کر رہی ہے۔ مقدس مقامات کو 'واگزار‘ کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے... جیسے آل سعود کی حکومت دو چار دن پہلے ہی قائم ہوئی ہو، اور جیسے شیعہ مسلک ایران نے حال ہی میں اختیار کیا ہو۔ برسوں بلکہ صدیوں کی نفی کرکے اپنے آپ کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کا یہ حق کہ وہ مقدس مقامات کا انتظام چلائے، عالم اسلام نے اجتماعی طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اس علاقے میں جس کی حکومت قائم ہوئی، اس ہی نے حرمین کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔ تاریخی طور پر کبھی عالم اسلام نے اجتماعی طور پر یہ فریضہ ادا نہیں کیا، اس مقصد کے لیے کوئی مشترکہ کونسل قائم نہیں کی۔ جتنی بڑی یہ حقیقت ہے، اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ شیعہ اور سنی مکاتب فکر ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو جسد واحد کا حصہ سمجھا ہے۔ سعودی مفتی فقہ کا یہ بنیادی اصول کیسے بھول گئے کہ کفر کا فتویٰ کسی ایک انسان کے افکار اور عقائد پر تو لگایا جا سکتا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی کسی ایسے گروہ کو کیسے ہدف بنایا جا سکتا ہے، جو توحید رسالت اور آخرت پر یقین رکھتا ہو۔ شیعہ اور سنی ایک ہی چہرے کی دو آنکھیں اور ایک ہی وجود کے دو حصّے ہیں۔ صدیوں انہوں نے ایک وسرے سے رشتے ناتے جوڑتے، ایک دوسرے کا ذبیحہ کھاتے، ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر طواف کعبہ اور وقوفِ عرفات کیا ہے۔ برا ہو گروہی مفادات کا اور تنگ نظر سیاست و قیادت کا کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات پر بیٹھنے والوں کو اپنے منصب اور اپنے مقام کا پاس نہیں رہا... چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی۔
بات پاکستان سے شروع ہوئی تھی، لیکن پھیلتی چلی گئی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کا گلا کاٹنے والے بھی تکبیر پڑھ کر ہی یہ کار بے خیر سرانجام دے رہے ہیں۔ تو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے افکار و خیالات کو مسخ کرنے والوں کو کسی شمار قطار میں کیونکر رکھا جائے۔ پاکستانی دانشوروں کے ایک حصے میں فرقہ باز مولویوں کا رنگ ڈھنگ نمایاں ہے۔ قائد اعظمؒ کے مُنہ میں ایسے ایسے الفاظ ڈالتے ہیں، جن کا نہ انہوں نے کبھی تصور کیا، نہ کبھی اُن کی زبان سے ادا ہوئے۔ انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے، پاکستانی ریاست کو اس کے بنیادی نظریے سے محروم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا کوئی ایک قول بھی ایسا پیش نہیں کر سکتے جہاں انہوں نے سیکولرازم کو اپنی منزل قرار دیا ہو۔ یہ درست ہے کہ وہ پاپائیت کے خلاف تھے۔ مذہبی طبقے کی اجارہ داری کو اسلام کا نام قرار دینے پر تیار نہیں تھے، لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے برآمد ہو گیا کہ اسلامی اور جمہوری اقدار کا فروغ ان کی زندگی کا محور نہیں تھا؟ اڑسٹھ برس گزرنے کے بعد بھی پاکستانی قوم کیا، پورے جنوبی ایشیا کے مسلمان اپنے الگ تشخص پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کشمیر میں آزادی کے بلند ہوتے ہوئے نعرے، بنگلہ دیش میں مسلم قومیت کی حفاظت کے لیے سر بکف مجاہد اور ہندوستان میں اپنے حقوق کا ادراک کرتے ہوئے مسلمان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاست پر مہر توثیق ثبت کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بسنے والی قومیں ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کریں گی، ایک دوسرے کو جینے کا حق نہیں دیں گی، تو سب کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ اکثریت کے زعم میں مبتلا مودی جی مہاراج اور شریمتی حسینہ واجد کسی مغالطے میں نہ رہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved