شریف برادران کا کاروبار پوری قوم کا درد سر بن گیا ہے۔
اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا: وہ قومیں برباد ہوئیں جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتی تھیں۔
علامہ طاہرالقادری نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ شریف خاندان کی فیکٹریوں میں بھارتی کاریگر مصروف عمل ہیں۔ اب کی بار یہ تعداد اور بھی حیران کن حد تک زیادہ ہے‘ تین سو! انجینئر‘ آئی ٹی سپیشلسٹ اور ویلڈر وغیرہ۔ علامہ کا کہنا ہے کہ پولیس رپورٹ سے انہیں مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ پچاس بھارتیوں کی انہوں نے فہرست بھی جاری کی۔ ان کے کاغذات دکھائے۔ یہ بھی کہا کہ 2010ء تک سالانہ صرف دس کروڑ روپے بھارت منتقل ہو رہے تھے‘ بڑھ کر جو اب 470 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ایل ڈی اے‘ نندی پور اور میٹرو کے کاغذات دانستہ طور پر جلائے گئے کہ جُرم کا نشان مٹایا جا سکے۔ ابھی علامہ کی پریس کانفرنس جاری تھی کہ رمضان شوگر ملز میں آتشزدگی کی خبر آئی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟
شریف خاندان کی طرف سے جاری کی گئی تردید ادھوری ہے۔ اس میں کہا گیا کہ کوئی بھارتی شہری ان کے کارخانوں میں کام نہیں کر رہا‘ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ کبھی کوئی بھارتی ان فیکٹریوں میں نہیں تھا۔ اگر یہ الزام درست ہے کہ پاکستانی سرمایہ بھارت منتقل ہو رہا ہے تو یہ ایک سنگین صورتحال ہے۔
ماضی میں پاکستانی عوام کو کرپشن سمیت اپنے حکمرانوں سے بہت سی شکایات رہی ہیں مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ شریف خاندان علامہ طاہرالقادری کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کرتا تو شکوک بڑھتے چلے جائیں گے‘ جو پہلے سے موجود ہیں۔
تین روز قبل کراچی میں سٹاک ایکسچینج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ سرمایہ باہر نہیں جا رہا بلکہ پاکستان لایا جا رہا ہے۔ بعض اوقات وہ ایسی عجیب بات کرتے ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کراچی‘ کوئٹہ‘ لاہور اور پشاور سے غیر قانونی طور پر سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ چند سال قبل سٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا تھا کہ 25 ملین ڈالر روزانہ‘ 9125 ملین سالانہ۔
چند ہفتے قبل دبئی سے موصول ہونے والی مستند معلومات کے مطابق گزشتہ تین برس میں‘ پاکستانیوں نے اس تجارتی مرکز میں چار بلین ڈالر کی جائیداد خریدی ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک خوفناک بات تو ہے ہی‘ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم سرمائے کے فرار کو چھپانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ حیران کن اعلان کیا تھا کہ چین‘ پاکستان کی شخصیت اور عزت کا محافظ ہے۔ وزیر اعظم ایسے حیران کن بیانات کیوں جاری کرتے ہیں؟
سب سے بڑا مسئلہ شریف خاندان کی کاروباری سرگرمیاں ہیں۔ بہت سے ذمہ دار لوگ اصرار کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ دبئی‘ سعودی عرب اور لندن کے علاوہ بھارت میں بھی انہوں نے سرمایہ لگا رکھا ہے۔ محض یہ کہہ کر ان الزامات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کے ساتھ ان کی وفاداری پر شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ کسی نہ کسی سطح پر ان کی تحقیقات کرنی چاہیے اور ایسی تحقیقات جن پر اعتماد کیا جا سکے۔ اگر کچھ دانستہ طور پر افواہیں پھیلا رہے ہیں تو قانون کے سامنے انہیں جوابدہ ہونا چاہیے۔ عبرتناک سزا انہیں ملنی چاہیے۔ اس کے برعکس شریف خاندان‘ اگر اپنی دولت بیرون ملک‘ خاص طور پہ بھارت بھیج رہا ہے تو ملک کے ساتھ ان کی وفاداری مشکوک قرار پائے گی۔
قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر‘ وزیر اعظم اعتراف کر چکے ہیں کہ 1974ء میں‘ ان کے خاندان نے دبئی میں ایک سٹیل مل قائم کی تھی‘ بعدازاں‘ جسے سعودی عرب منتقل کر دیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ قانون کے مطابق تھا؟ 1974ء کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن واضح الفاظ میں کہہ چکے کہ مالی قوانین تب بے حد سخت تھے‘ ایک ڈالر بھی ملک سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
پاناما لیکس میں سامنے آنے والے انکشافات کو وزیر اعظم مسلسل ٹال رہے ہیں۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ سعودی عرب کی سٹیل مل بیچ کر لندن کے مکانات خریدے گئے۔ شواہد اس کے برعکس ہیں۔ صدیق الفاروق اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں گواہی دے چکے کہ یہ 1992-93ء میں شریف خاندان کی ملکیت تھے۔ صاحبِ معاملہ جج نہیں ہوتا۔ تمام تر شواہد کے باوجود اپوزیشن کے الزامات کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ ہی شاید وہ ادارہ ہے جس کا فیصلہ ملک بھر کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے۔
شریف خاندان کا طرز حکومت عجیب ہے۔ ان کے ہاں دولت کے ڈھیر لگے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے لیے سرکاری وسائل بیدردی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا ہیلی کاپٹر اور سرکاری طیارہ خاندان کے دوسرے افراد بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایک قابل اعتماد تحقیقات سے واضح ہونا چاہیے کہ ایسا ہے یا نہیں؟ بیدردی کے ساتھ سرکاری خزانہ استعمال کرنے کے بعض دوسرے شواہد البتہ موجود ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے ضمنی بجٹ کے مطابق 23 کروڑ رائے ونڈ روڈ پر شریف خاندان کی زرعی اراضی کے اردگرد لوہے کی باڑ لگانے پر صرف کئے گئے۔ پنجاب پولیس کے گیارہ سو جوان اور افسر جہاں پہرہ دیتے ہیں۔ اب اس جاگیر کے اردگرد کنکریٹ کی چار فٹ چوڑی دیوار تعمیر کی جا رہی ہے۔ پنجاب سیکرٹریٹ کے متعلقہ افسروں کا کہنا ہے کہ اب تک 35 کروڑ صرف کئے جا چکے اور اتنے ہی مزید خرچ ہوں گے۔
ایک ایسے ملک میں‘ جہاں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اور ساٹھ فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے‘ حکمران خاندان اس قدر وسیع و عریض رہائش گاہ میں شاہانہ زندگی بسر کرنے پہ کیوں مصر ہے۔ شاید ساری دنیا میں کسی بھی حکمران کے لیے یہ سب سے بڑی رہائش گاہ ہے۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کے گھر اس کے ایک کونے میں سما جائیں۔ بتایا گیا کہ 96 ایف ماڈل ٹائون لاہور میں‘ جہاں وزیر اعلیٰ کا بیشتر وقت گزرتا ہے‘ کنکریٹ کی ایسی ہی ایک دیوار بنائی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی مختلف رہائش گاہوں پر پولیس کے بارہ سو سے زیادہ جوان اور افسر پہرہ داری کرتے ہیں۔ خود ان کی اہلیہ محترمہ ایک بیان میں کہہ چکی ہیں کہ یہ صریح اسراف ہے اور شریف خاندان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی رہائش گاہ تو وہ مکان ہے جو شاید بیس پچیس کمروں پر مشتمل ہے۔ ساڑھے تین سو ایکڑ زرعی زمین کے گرد‘ سرکاری خزانے سے‘ اس قدر مہنگی چاردیواری تعمیر کرنے کا جواز کیا ہے؟ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہمہ وقت اس پر پولیس کے چوکس جوانوں کا پہرہ موجود رہتا ہے۔ شریف خاندان اس قدر خوفزدہ کیوں ہے؟ ان کے کلیجے حلق میں کیوں اٹکے رہتے ہیں۔
ترقیاتی منصوبوں میں ان کی ترجیحات ذاتی ہیں۔ وزیر آباد میں دل کے مریضوں کا ہسپتال سالہا سال سے ویران پڑا ہے‘ او پی ڈی البتہ چالو ہے۔ کیا صرف اس لئے وہ مکمل نہ کیا جائے گا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اس کا آغاز کیا تھا۔ میو ہسپتال کا ٹاور بھی کہ ملک کا سب سے بڑا ہسپتال بڑھتے پھیلتے لاہور اور گرد و نواح کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔
سال گزشتہ شریف خاندان اور ان کے متعلقین نے جو ٹیکس ادا کیا‘ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
شہباز شریف : 76,00000/-
اسحاق ڈار : 39,00000
حمزہ شہباز: 63,00000/-
نوازشریف 22,00000/-
پورے خاندان کا ٹیکس ملا کر بھی جہانگیر ترین سے1,75,00000/- روپے کم ہے‘ جنہوں نے 375,00000/- روپے ادا کئے۔ نوٹس جہانگیر ترین کو بھیجے جا رہے ہیں‘ شریف خاندان کو نہیں۔
اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا: وہ قومیں برباد ہوئیں جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتی تھیں۔