وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سینٹ میں کہا ہے کہ رئوف کلاسرا نے پندرہ برس قبل ان سے زبردستی انٹرویو لیا تھا۔ زبردستی اس لیے کہ چوہدری نثار کسی کو انٹرویو نہیں دیتے۔ ان کا معیار سخت ہے۔ بہت مشکل آدمی ہیں۔ اس لیے انہیں مجبورکر کے انٹرویو لیا گیا تھا۔
شاید سارے ہی پوٹھوہاری مشکل ہیں۔ اٹھارہ برس پوٹھوہارکی خوبصورت دھرتی پر رہنے کے بعد میں یہ بات کہہ سکتا ہوںکہ پوٹھوہاریوں سے دوستی اور دشمنی آسان کام نہیں ۔ دونوں کو نبھانے کے لیے عمر بیت جاتی ہے۔ سات دریا اور سات جنگل عبورکرنے پڑتے ہیں۔ ایرانی جنگجو خود کو بڑی چیز سمجھتے تھے، وہ سکندر یونانی کو نہ روک سکے اور میدان سے بھاگ گئے۔ اپنے ہی سردارکا سر پیش کرکے جان چھڑائی لیکن ہمارا پوٹھوہاری ہیرو راجہ پورس ڈٹ گیا۔ دو پوٹھوہاریوں، چوہدری نثار اور بابر اعوان سے مل کر یہ احساس ہوا کہ ان دونوں سے دوستی اور دشمنی اتنی آسان نہیں۔ ان سے دوستی ہو یا دشمنی، سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔
بابر اعوان بھی اسی مزاج کے ہیں۔ ملتے تو وہ سب سے ایسے ہیں جیسے سب کے دوست ہیں لیکن چند ہی خوش نصیب ہوںگے جنہیں وہ اپنا دوست سمجھتے ہوںگے۔ بابر اعوان کے معیار پر پورا اترنا آسان نہیں ہے۔ بابر اور نثار میں ایک اور بات بھی مشترک ہے، بلاکی ذہانت اور سیاسی سوجھ بوجھ۔ بابر اعوان پر لاکھ تنقید کی جاسکتی ہے، لیکن ان سے ذہین آدمی میں نے کم ہی دیکھا ہے۔ اسی طرح چوہدری نثار ہیں۔ میں ن لیگ میںکسی کو سیاسی طور پر عقل مند اور بالغ سمجھتا ہوں تو وہ چوہدری نثار ہیں۔ بابر، اعوان ہیں اور چوہدری نثار، راجپوت لیکن دونوں ہیں پکے پوٹھوہاری۔ دوستی دشمنی میں کھرے!
چوہدری نثار نے کیا یاد دلا دیا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔2001ء میں میں نے ڈان چھوڑکر دی نیوز جوائن کر لیا۔ایڈیٹر شاہین صہبائی نے چند ماہ کے اندرجنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوںکا جینا حرام کر دیا۔ آخر جنرل مشرف نے شاہین کے سمدھی کے ذریعے جو فوج میں کسی نچلے درجے پر کام کرتے تھے، شاہین صہبائی پر واشنگ مشین چوری کرنے کا مقدمہ بنوا دیا۔ اسی واشنگ مشین مقدمے میں شاہین صہبائی کے ایک برادر نسبتی کوکراچی سے گرفتارکرکے اڈیالہ جیل پنڈی لایا گیا جو چھ بچیوںکا باپ تھا اور ساتواں بچہ بیگم کے پیٹ میں تھا۔ شاہین کے ایک نوجوان بھتیجے کو بھی اسی مقدمے میں پنڈی سے اٹھاکر اڈیالہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ خود شاہین صہبائی خوش قسمت تھے کہ امریکہ چلے گئے۔ یہ ایک اورکہانی ہے کہ ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں نے کیسے نواز لیگ کے ظفرعلی شاہ کے ذریعے پنڈی کی عدالتوں سے دو ماہ کی مسلسل محنت کے بعد ان کی جان چھڑائی۔کتنے لوگوں سے مل کر سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ان معصوم لوگوں کاکیا قصور تھا۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ صحافت اور صحافی کس بلا کا نام ہے۔ اس سلسلے میں میرے دوست ہارون الرشید نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہارون الرشید اور میں جنرل حمید گل (مرحوم) سے بھی ملے تھے کہ آپ ہی ایجنسیوں کو سمجھائیں۔کبھی جنرل مشرف آپ کے گھر آپ سے مشورے لینے آتے تھے، ان کو فون کریں کہ ان معصوموں پر رحم فرمائیں۔کراچی کے چھ بچیوں کے باپ کا کیا قصور ہے۔ اس کی بیوی اپنی بچیوںکوکراچی چھوڑکر اپنیخاوندکو چھڑانے کے لیے اسلام آباد میںدر درکی ٹھوکریںکھا رہی ہے۔ جنرل گل نے اپنے تئیںکوشش کی۔ ہارون الرشیدکے جو بھی ذرائع تھے انہوں نے استعمال کیے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں ہر ہفتے عدالت پہنچ جاتے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف جوگریڈ بائیس کے افسر اور او ایس ڈی تھے سے کئی بار کہا کہ سر آپ میرے ساتھ نہ جایا کریں، جنرل مشرف آپ بھی پر نزلہ گرائے گا۔ وہی ہوا۔ بعد میں ان پر نیب کی طرف سے بائیس مقدمے بنوائے گئے۔ وہ ایک عجیب انسان تھے۔ بولتے چھوڑو یار، شاہین صہبائی نے کیا غلط کیا ہے۔ اگر اس نے غلط کیا بھی ہے تو اس کو پکڑو۔ ان معصوم لوگوںکاکیا قصور جو یہاں جیل میں پڑے ہیں۔کراچی سے آئی ہوئی اس ماں کاکیا قصور جو اپنی چھ بچیوںکو تنہاکراچی چھوڑ آئی ہے تاکہ بچیوںکے باپ کو واپس لے جائے۔
ہمیں ہرہفتے نئی پیشی ملتی۔ ہر ہفتے ڈاکٹر ظفرالطاف مجھے گھر سے اپنی گاڑی پر لیتے اور ہم پنڈی جا کر ظفرعلی شاہ کے پاس جا کر بیٹھ جاتے۔ شاہ جی بھی بڑے پیارے انسان ہیں۔ بڑی عزت کرتے، چائے پلاتے، ناشتہ کراتے اور ہمیں علم ہوتا کہ ہونا اج وی کُجھ نئیں۔ عدالت میں پیش ہوتے، وہاں پہلے سے انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگ موجود ہوتے۔ جج سے مل چکے ہوتے کہ جناب ریاست کی سکیورٹی کا معاملہ ہے، ان لوگوں کی ضمانت نہیں لینی۔ چنانچہ اور ضمانت نہ ہوتی ۔ لیکن ہم مایوس نہ ہوئے۔ یہ ایک طویل کہانی ہے کہ کس طرح ان معصوم لوگوںکی جان جھوٹے مقدموں سے چھوٹی۔ آج وہی جنرل مشرف عدالتوں سے بھاگ کر دبئی اور لندن میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ انسان بھی کیا چیز ہے۔ ایک وقت تھاکہ جنرل مشرف کے حکم پر چھ بچیوں کے باپ کوکراچی سے واشنگ مشین چوری کیس میں پکڑکر اڈیالہ جیل ڈال دیا گیا اور آج وہ خود عدالتوں میں پیش ہو رہا ہے اور دہائی دے رہا ہے کہ وہ بے گناہ ہے اورکوئی اس کی اس طرح سننے کو تیار نہیں جیسے کبھی شاہین صہبائی کے اس بردار نسبتی اور اس کے بھانجے جو اڈیالہ جیل میں قید تھے کے بارے میں میری، ڈاکٹر ظفرالطاف، ہارون الرشید اور ظفر علی شاہ کی کوئی سننے کو تیار نہ تھا۔
انہی دنوں میں نے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ شروع کی تو سیاستدانوں سے ملنا جلنا شروع کیا۔ بلاشبہ 2002ء کی اسمبلی میں بہتر سیاستدان اور مقرر موجود تھے۔ ان کی تقریروں نے ہمیں بھی جنرل مشرف کے نظام سے چڑ دلوا دی تھی۔ بلوچ اور پختون قوم پرستوں کی تقریروں نے رنگ دکھانا شروع کیا۔ میڈیا کے لوگ زیادہ تر پنجاب سے تھے، لہٰذا ان سب کی آنکھیں پہلی دفعہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود ان قوم پرستوں کی تقریروں سے کھلیں کہ اس ریاست میں حب الوطنی کے نام پرکیا سودا بیچا جارہا ہے اورکیسے اس دھرتی کے سپوت اب جنرل مشرف دور میں غدار قرار دیے جا رہے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں سابق وزیراعلی بلوچستان سردار اختر مینگل کو کراچی کی ایک عدالت میں ایک لوہے کے پنجرے میں قید کر کے پیش کیا جاتا تھا۔
بلوچوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفے دے کر غلطی کی تھی کیونکہ وہ سب پنجابی میڈیا کو شعور دے رہے تھے کہ ان کے ساتھ اسلام آباد کیا ظلم کر رہا ہے، ان کے ساتھ کیا زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ ان سب کے پارلیمنٹ سے چلے جانے کے بعد نقصان یہ ہوا کہ بلوچوں کی نمائندگی نہ ہونے سے ان کی آواز دب گئی۔ جو چند ایک ان کی جگہ پارلیمنٹ میں پہنچے وہ اتنے کمزور اورکمپرومائز کرنے والی آوازیں تھیںکہ ان کا اثر نہ ہو سکا۔ یوں بلوچوں کی جگہ پختونوں کی آواز سنی جانے لگی۔
سردار عطااللہ مینگل اور اختر مینگل کو اس غلطی کا احساس بہت دیر بعد ہوا۔ اس لیے اختر مینگل نے 2013ء کے الیکشن میں واپسی کی ٹھان لی۔ لیکن اتنا عرصہ گزرگیا تھا کہ ان کی جگہ کچھ اور لوگ لے چکے تھے۔ اگرچہ وہ الزام لگاتے ہیںکہ انہیں الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے ہروایا۔ ثناء بلوچ جیسے بڑے قد آور قوم پرستوںکو جان بوجھ کر ہرایا گیا تاکہ وہ اسلام آباد کے ایوانوں میں اپنی گرجدار آواز میں حکمرانوںکو چیلنج کرنا نہ شروع کردیں۔ سردار مینگل کو بہت دیر ہوگئی تھی۔ انہیں بلوچ قوم کا مقدمہ اسلام آباد بیٹھ کر ہی لڑنا چاہیے تھا، خصوصاً جب اسلام آباد میڈیا کی نئی خواتین اور نوجوان صحافی ان کی باتوں سے متاثر ہو رہے تھے، ان کی باتیں سمجھ رہے تھے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا برسوں سے بولا ہوا جھوٹ ایکسپوز ہورہا تھا۔ مجھے یاد ہے، جب محمود خان اچکزئی تقریر کے لیے کھڑے ہوتے تو پریس گیلری بھر جاتی۔ ہر طرف خاموشی چھا جاتی۔ ان کی گرجدار آواز ایوان میںگونجتی تو لگتا کہ کوئی پرانا رومن سینیٹر اپنے بادشاہ جنرل سیزرکو چیلنج کر رہا ہے۔ اور پھر وہ دور بھی ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا کہ اچکزئی تقریر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو پریس گیلری میں موجود لوگ چائے پینے کے لیے چلے جاتے ہیں اور ہائوس میں ان کی تقریرکے دوران گپیں چل رہی ہوتی ہیں۔
سینیٹ میں اچکزئی کا حوالہ چوہدری نثارعلی خان دے رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے میرا نام لیا اورکہاکہ رئوف نے ان سے پوچھا تھاکہ آپ کوکون سا سیاستدان اچھا لگتا ہے تو اس کا جواب دیا تھا، خان ولی خان اور محمود اچکزئی(چوہدری نثار پر میرا لکھا ہوا پروفائل میری کتاب 'ایک سیاست کئی کہانیاں‘ میں سب سے زیادہ پڑھا گیا۔) چوہدری نثار نے اچکزئی کی بہت تعریف کی تھی۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ انہیں ہمیشہ اچکزئی نے متاثرکیا۔ آج سینیٹ میں اسی اچکزئی پر ان کا پرانا مداح تنقیدکر رہا تھا۔اچکزئی یہ نہ سمجھ سکے، کچھ لوگ طاقتور لوگوںکو چیلنج کرتے ہوئے ہی دلوںکو بھاتے ہیں۔ میں چوہدری نثار کا دکھ سمجھ سکتا ہوں۔ شاید وہ بھی اپنے سیاسی ہیرو اچکزائی کو اس رول میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے، چاہے وہ ان کی پارٹی کا ساتھ ہی کیوں نہ دے رہے ہوں۔ وہ اچکزئی کو ایک باغی کے روپ میں ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک ایسا باغی جو اقتدار کے لیے سرنڈر نہیںکرتا، اقتدارکی سیاست نہیں کرتا، اپنا اور اپنے خاندان کا فائدہ نہیں دیکھتا۔ چوہدری نثار علی خان اکیلے محمود اچکزئی کے گرویدہ نہیں تھے؛ سلیم صافی، عامرمتین اور میرے جیسے بھی ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ ان سے جڑا رومانس کب کا ٹوٹ چکا۔ اچکزئی صاحب کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ان کے مداحوں میں بلوچستان، فاٹا کے پختون ہی نہیں بلکہ میرے جیسے سرائیکی، عامر متین جیسے پنجابی اور چوہدری نثار علی خان جیسے پوٹھوہاری بھی تھے جو اب ان کے مداح نہیں رہے۔
کسی رات کی گہری تنہائی میں محمود اچکزئی یہ ضرور سوچیں کہ ان جیسے لوگوں کے لیے اقتدار ان کے زوال کا آغاز ہوتا ہے عروج نہیں۔۔۔۔!