تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-09-2016

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘ ازسید انیس شاہ جیلانی

اندرونِ سرورق بھی تو ہو
مشاہیرِ عصر کی خوشہ چینی میرا برسوں سے مقدّر ہے‘ ادیبوں اور شاعروں کی گل اُفشانیٔ گفتارکو جیسا میں نے سُنا تھا ویسا ہی نقل کر دیا۔ لغات ناملائم کی بھرمار کو فحش نگاری اور عُریاں گفتاری کیوں کہیے۔ تکیہ کلام بھی تو آخر ایک چیز ہے۔ ہماری تہذیبی زندگی میں اسے عیب نہیں ہنر جانا گیاہے۔ پھلجھڑیوں پر کوئی چوکی کوئی پہرہ نہ کسی نے بٹھایا‘نہ یہ ممکن ہی ہوا ۔میں کوئی خدائی فوجدار بھی نہیں‘ نماز میری ٹپے دار‘ روزے مجھ سے رکھے نہیں جاتے۔ شراب پیتا ہوں‘ سُؤرنہیں کھاتا‘ یہ غالب نے کہا تھا ۔ہم نے نہ کچھ کھایا نہ پیا لیکن پھر بھی آدھے مسلمان ہونے کا دعویٰ کون کرے‘ ہر طرح کی خرابیاں مجھ میں زیادہ ہیں کم نہیں۔ میں سلطان محمود غزنوی بھی نہیں ہوں‘ کوئی بُت تراشنے میں غیر معمولی ریاض کادم خم کس میں ہے۔ یہاں صاف گوئی کو عیب جوئی اور اختلافِ رائے کو مخالفت سمجھا جاتا ہے۔ یہ سفرنامہ شکیل عادل زادہ نے پڑھا تو فرمایا: اب اتنی بھی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت۔ حضرت جمیل جالبی نے لکھا: اسے فوراً چھپنا چاہیے۔ نظیر صدیقی نے کہا :میں اتنی صفائی اور سچائی سے نہ لکھتا‘ تم نے کیسے ڈالا‘ راغب مراد آبادی نے شاعری میں بات کی ہے ع
اک درسِ بصیرت یہ سفرنامہ ہے
محمود صاحب بولے‘ میاں ازالہ حیثیتِ عرفی میں مارے جائو گے۔ تحسین فراقی نے کہیں سے سُن گُن پا کر شوق مطالعہ ظاہر کیا۔ عطاء الحق قاسمی کا کہنا یہ تھا کہ لاہور آئو گے تو اس کے عیب و ثواب پر بحث ہو گی۔ جمیل صدیقی نے کئی عکسی نقول یاروں میں بانٹ کر اپنے دل کے حوصلے نکالے۔ محبی منظور احمد نے حد کر دی' تم قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہو‘ کہہ کر میری قیمت اور بڑھائی اور مرحوم محمد ایوب قادری گویا سب سے بازی لے گئے۔ محمد آباد کا سفر کیا اورخطِ شکستہ کیا سبھی کچھ پڑھ ڈالا۔سفر میں عام آدمی پر کیا گزرتی ہے وہ کیفیت سلیس اردو میں کہنا چاہیے ‘لکھ دی ہے تاکہ سند بھی رہے اور شاید وقتِ ضرورت کام بھی آئے۔
خاکسار‘ انیس شاہ جیلانی 12 اکتوبر 1986ء محمد آباد تحصیل صادق آباد
انتساب
سفرانسان کے لیے ازل سے مقدرکر دیا گیا ہے‘ جنت سے نکالے جانے کو محض تمہید جانیے۔ یہ سفر کیونکر کئے جاتے اور گزرے‘ ضبط تحریر میں بھی لائے جاتے رہے ہیں۔ سفر نامہ نگاری پرانی رسم ہے کچھ ایسی نئی تو نہیں۔اردو میں بھی اب عام ہے اور اس میں کہیں کہیں سچ کا گزرہوجاتا ہے۔سفر نامے پڑھنا اور محفوظ کرنا ایک عادت سی بن چلی ہے۔ میں اور میرا سفر نامہ مقبوضہ ہندوستان دم سادھے پڑے ہوئے تھے۔ اب گویا مسیحا ہاتھ لگ گئے ہیں‘ جان دونوں میں ڈالی جائے گی۔ ضیاء اللہ کھوکھر(گوجرانوالہ) کا اصرار ہے کہ سفر ناموں کی جمع آوری میں جو انہماک مجھے ہے تقاضا اس کا یہ ہے کہ اب اور کچھ نہ سہی تمہارا قصہ تو پاک کر ہی دوں یعنی اب سفرنامے چھاپے بغیر بات بنے گی نہیں۔ مجھے اور کیا چاہیے‘ مثل مشہور ہے راجہ کو بھائی رانی کہلائی۔
خاکسار انیس20نومبر1993ء
الف لام میم
میں ایک زمیندار نما کا کاشتکار ہوں۔ کاشتکار کدال کے ساتھ ساتھ وقت اور ضرورت پڑے تو لٹھ تو خوب چلا لیتا ہے‘ یہ قلم چلانے کی ایک ہی رہی‘ یہ وبال میں نے یونہی پال رکھا ہے۔ بالکل ''بے فضول‘‘۔ قلم کا روگ ذہنی جرأتِ فکر و نظر کا امین تو ہو سکتا ہے جسمانی قبائلیت اور جفا پیشگی کا خون کرتا تو ہے۔ سال چھ مہینوں میں یہ ابال اٹھتا اور گنتی کے چند صفحات یادگار چھوڑ جاتا ہے۔ باقی کے گیارہ 
مہینے انہی چند نظروں کی نوک پلک درست کرنے اور یاروں کو دیکھنے دکھانے میں تمام ہوتے ہیں‘ اور تو مجھ سے کیا لکھا جائے گا۔ بزعمِ خود خاکہ نویسی کی مشق کرتا اور صنفِ خاکہ نگاری پر ستم توڑتا رہتا ہوں۔ مجھے کسی کے مرنے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا‘ زندوں کے بخیے ادھیڑنے میں جو لذت ہے وہ مردوں کے کفن پھاڑنے میں کہاں۔بخیے ادھیڑنے سے مراد میں تو سچی اور کھری کھری کو لیتا ہوں‘ آپ کا جو جی چاہے کہیے۔ سچ لکھنا خاصا مشکل ہے لیکن سہنا اس سے بھی کڑا مرحلہ ہے‘ کیا عجب سچ لکھنے والے کا ظرف سچ سہنے میں بیش و کم نکلے۔ سوانح عمریاں خود نوشت حالات اور واقعات ‘آپ بیتی اور خاکے میرا محبوب اور مرغوب موضوع ہے۔ چربے خاکوں کے تواتار بھی لوں مگر سفرنامے تو پڑھنے کی حد تک دامنِ دل کو ضرور کھینچتے ہیں‘ لکھوں کیونکر‘ لیکن میں نے دلّی آگرہ اجمیر کے سفر سے زیادہ ہم سفروں کی سیر کو قلم کی زد میں لا کر کاغذ کے میدانوں میں دھکیل دیا ہے۔ سفرنامہ لکھنے کے آداب ہیں کیا‘ غالباً نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو میں بہرحال نہیں جانتا۔ جان کر کروں گا بھی کیا‘ جو کچھ ذہن پر نقش ہے الٹا سیدھا لکھا ہی ڈالا۔ میں تو چاہتے ہوئے بھی نہیں کہہ سکتا ‘نہیں جان سکا ''خاکہ‘‘ ہوتا کیا ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے انشائیے کی بحث ہے‘ کچھ لوگ انگریزی کے ''ایسے‘‘ کا ترجمہ انشائیہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ میں نے کہا تو میری جہالت کے پیش نظر میرے نوعمر انگریزی دان پڑوسی محمد دین جوہر نے مرا مذاق اڑایا‘ بہرحال سفر کے کچھ نہ کچھ سانحات محفوظ کر دیئے ہیں۔ یہ بالکل ذاتی نوعیت کے تاثرات ہیں۔یہ بھی تو ہے ‘قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ایک ایک سطر اپنے نہیں رہتے‘ پرائے ہو جاتے ہیں جو کچھ لکھا گیا اسے ایک نہ ایک دن عام تو ہونا ہے۔ ہمارے جیتے جی ہو جائے تو اچھا ہو‘ اس میں معروف لوگوں کی نقاب کشائی ہوئی ہے۔
حکومتیں یہ کیسے قوانین وضع کرتی رہتی ہیں ‘دیار غیرمیں جانا ہے اور گرہ میں ساڑھے چار سو روپلی‘ مجھے تو وہاں احمد سعید صاحب مل گئے تھے اور کچھ انگوٹھی بیچ کر کام چلایا‘ ظاہر ہے ہر شخص تو ایسا نہیں کر سکتا‘ اس کا مطلب ہے سفرنامہ ہی نہ کرو‘اگرکرو تو غیر قانونی حرکتوں کا مرتکب ہوئے بغیر رہا نہیں جانے کا۔ قانون رعایا کو خوش وقت رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں نہ کہ بات بات پر زندگی عذاب بن کر رہ جائے۔میں سفر کا آدمی نہیں ہوں، زندگی کا سفر ہی کیا کم ہے، دلّی کے اس اولیں پھیرے میں اور تو کچھ ہاتھ کیا لگتا، محمد محمود احمد اکبر آبادی دستیاب اور حضرتِ رئیس امروہوی غرقاب ہوئے۔ محمود صاحب کا نام برسوں سے سن رکھا تھا، ملاقات اب کے ہوئی۔ بمبئی کے سید اقبال نے محمود صاحب کے نام بالکل سچ لکھ دیا ہے:
''آئندہ معقول لوگوں کے ساتھ آئیے، آپ کی شخصیت اس بھیڑ میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے‘‘۔
آج کا مقطع
میں بھی سمجھے ہوئے تھا دوسروں کی طرح، ظفرؔ
کہ مرے شہر پہ حملہ نہیں ہونے والا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved