تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     11-09-2016

قربانی کی روح

مسلمان معاشروں میں ہمیشہ سے قربانی کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہمارے آباؤاجداد بھی قربانیاںکرتے رہے اور ہم بھی بچپن سے اپنے گھروں اور گرد و پیش میں لوگوں کو قربانیاں کرتے اور جانوروں کی قربانیاں ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ عیدالاضحی کی آمد سے قبل جانوروں کی منڈیاں لگ جاتی ہیں اور ملک بھر سے اونٹ، گائیں، بکرے، دنبے اور چھترے ان منڈیوں کی زینت بن جاتے ہیں۔ گاہکوں کا رش ان منڈیوں میں پورے عروج پر ہوتا ہے۔ مال دار لوگوں کی کثیر تعداد اپنی مالی حیثیت کے مطابق ان منڈیوں سے جانور خریدتی ہے۔ اسی طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اور نادار لوگ بھی اپنی حیثیت کے مطابق جانوروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان جانوروں کو عید سے قبل اپنے گھروں، فارم ہاؤسز، چراگاہوں اور کھلے میدانوں میں رکھ کر ان کی خوب اچھے طریقے سے نگہداشت کی جاتی ہے۔ بچوں کو بھی ہمیشہ سے جانوروں کے ساتھ دل بہلانے کا ذوق رہا ہے؛ چنانچہ وہ بھی اپنے والدین پر جانوروں کی خریداری کے لیے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ جانوروں کی آمد پر بچے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ جانوروں کو سجانا، ان کی کھال پر مہندی اور دیگر رنگوں سے نقش و نگار بنانا، ان کو چارا کھلانا اور ان کی سیوا کرنا، ان تمام کاموں میں بچے بڑوں سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں رہتے۔ جب قربانی کا دن آتا ہے تو پیشہ ور اور غیر پیشہ ور قصائی ہر جگہ پھیلے نظر آتے ہیں۔ منہ مانگے داموں قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں۔ قربانی کا گوشت کاٹنے کے بعد اس کی دستیوں اور رانوں کو بالعموم اپنے اعزہ و اقارب اور تعلقات عامہ کو تقویت دینے کے لیے موثر لوگوں کو تحفے کے طور پر دے دیا جاتا ہے۔ غرباء اور مساکین کی بڑی تعداد بھی کسی حد تک اس گوشت سے فیض یاب ہو جاتی ہے؛ تاہم لوگوں کی اکثریت غریبوں کے حق کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتی۔ گوشت کے اچھے حصوں کو بغیر کسی تاخیر کے اپنے پیاروں کے گھر پہنچا دیا جاتا ہے‘ لیکن بالعموم غریب نادار اور مساکین دروازوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ ان کی باری قربانی کا گوشت بانٹے جانے کے بعد اس وقت آتی ہے جب قربانی کرنے والے حجت پوری کرنے کے لیے، قربانی کے نام کی لاج رکھنے کے لیے یا اپنے ضمیر کے بوجھ کو دور کرنے کے لیے ان کو بھی بچے کچے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں۔ 
جہاں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے مال کے ایک حصے کو جمع کرکے قربانی کو خریدتی ہے وہاں پر بہت سے لوگ اپنی مالی اور سماجی حیثیت کے اظہار کے لیے بہت بڑی بڑی قربانیاں خریدتے ہیں۔ بڑی قربانی کا خریدنا اس وقت باعث برکت ہے جب انسان کی نیت اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو‘ لیکن جب جانوروں کو فقط اپنے مالی اور سماجی حیثیت دکھانے کے لیے خریدا جائے تو اس وقت انسان کو اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کی دلی کیفیات سے بخوبی آگاہ ہے۔ قربانی کر لینے کے بعد مختلف رفاہی ادارے اور انجمنیں قربانی کی کھال کے حصول کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں اور قربانی کرنے والے لوگ اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق خدمت خلق کے کسی نہ کسی ادارے یا انجمن کو کھالیں دے دیتے ہیں۔ قربانی کرنے کے بعد ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ اس پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ قربانی کرنے سے پہلے سودی لین دین کرنے والے بہت سے لوگ قربانی کر لینے کے بعد بھی سودی لین دین جاری رکھتے ہیں۔ فواحش، منکرات اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے بہت سے لوگ قربانی کرنے کے بعد بھی اپنے اسی طرز عمل کو برقرار رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے بہت سے لوگ قربانی کرنے کے بعد پرانی روش پر گامزن رہتے ہیں۔ غور 
کرنے کی بات یہ ہے کہ پیسہ لگا کر، وقت اور توانائیاں صرف کرکے جس قربانی کو ہم کرنے جا رہے ہیں کیا ہم نے اس قربانی کی روح کو سمجھنے کی بھی کبھی کوشش کی ہے؟ بچوں کے جانوروں کی سیوا کرنے میں کوئی قباحت نہیں، قربانی کے لیے اچھے جانور کا انتخاب کرنا بھی قابل تحسین ہے، قربانی کا گوشت بانٹنے کے لیے جستجو کرنا اور قربانی کی کھالوں کے مستحق لوگوں تک پہنچانے کے لیے تگ و دو‘ ہر اعتبار سے قابل تعریف ہے‘ بشرطیکہ قربانی کی وہ روح‘ جو ہمارے دین نے ہمیں بتائی ہے‘ ہمارے اندر موجود رہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ قربانی کرنے والوں کی کثیر تعداد قربانی کے تقاضوں اور قربانی کی حقیقی روح کو بھول چکی ہے‘ اور لوگو ں کی کثیر تعداد اسے ایک تہوار اور رسم کے طور پر نبھا رہی ہے۔ 
قربانی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے درمیان تنازع بھی قربانی ہی کے مسئلے پر پیدا ہوا تھا۔ جس بھائی کی قربانی قبول نہ ہوئی اس نے اُس بھائی کو شہید کر دیا‘ جس کی قربانی کو اللہ نے قبول کر لیا۔ اس نے اپنی شہادت سے پہلے اپنے بھائی کو اس بات کی تلقین کی تھی کہ تو اپنے عمل کی اصلاح کرے اور تقویٰ کو اختیار کرے تو بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ پرہیزگاروں کی قربانی قبول کر لیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی تاریخ کو ایک نیا رنگ عطا کر دیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کے لیے آمادہ و تیار ہو گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نصرت عطا فرما کر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قربانی کے جذبے کو قبول فرما لیا۔ رہتی دنیا تک آپ کی اس سنت کو مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنا دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی متاع عزیز کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں قربان کر دیا تھا‘ لیکن کیا جانور کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے ہم بھی بوقت ضرورت اپنی متاع عزیز کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان کرنے کا جذبہ اپنے دل میں پیدا کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا وہ چھری جو جانور کے گلے پر چلتی ہے وہ ہمارے نفس کی اکساہٹ، ہماری جھوٹی تمناؤں اور خواہشات پر بھی چلتی ہے یا نہیں؟ 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام حمید میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کو تمہارا (قربانی کے جانور کا) گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہارے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ کیا اس قربانی کو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے خوف اور خشیت کے احساسات کے ساتھ کر رہے ہیں یا فقط اپنی نمود و نمائش کے لیے کر رہے ہیں۔ اگر تو یہ جانور ہم خشیت الٰہی کے لے ذبح کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور غریب پروری کے جذبات کو اپنے دل میں جگہ دے رہے ہیں تو یقینا یہ قربانی دنیا و آخرت میں ہماری فلاح کا سبب ہو گی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے اور ہم فقط نمود و نمائش چاہتے ہیں یا اپنے بڑے بڑے ریفریجریٹرز میں گوشت جمع کرنا چاہتے ہیں یا اپنی سماجی اور مالی حیثیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث رہنی چاہیے کہ کل قیامت کے دن ایک شہید، عالم اور قاری کو جہنم میں فقط اس لیے پھینک دیا جائے گا کہ انہوں نے یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے اپنی شہرت کے حصول کے لیے کیے ہوں گے۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور جب تک مسلمان موجود ہیں‘ یہ جاری و ساری رہے گی‘ لیکن قربانی کی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کی روح کو بھی اپنے دل میں جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو پھر ہم صحیح معنوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved