''میں اُس ذہنی دبائوکو بیان نہیں کر سکتا۔ شاید بیان کیا ہی نہیں جا سکتا۔ 9 بج کر 45 منٹ ہو چکے ہیں، 15 جنوری ہے۔ بغداد سے بغاوت کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ ٹی وی سکرین پر بغداد کے شہریوں کو دیکھتا ہوں...اوہ خدایا! اِن کی زندگیوں کو بچا۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلتا ہے۔ سکرین پر ایک بچہ دکھائی دیتا ہے۔ معصوم اور پیارا۔ میں خدا سے دُعا کرتا ہوں، ہم جو کچھ کرنے جا رہے ہیں وہ اس بچے کو نقصان نہ پہنچائے۔ واشنگٹن ٹائم کے مطابق رات آدھی گزر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی ڈیڈ لائن ختم ہو رہی ہے۔کویت سے عراق کے انخلاء کی ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہے‘‘۔ جارج بش، صدر امریکہ 15 جنوری 1991ء
''کئی ہفتوں سے امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں انٹی وار احتجاج کر رہی ہیں۔ چرچوں میں، سکولوں میں، گلیوں میں اور یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس کے باہر بھی سینکڑوں لوگ جنگ مخالف نعرے بلند کر رہے ہیں... مگر ہم فیصلہ کر چکے ہیں... مشکل فیصلہ! ہم نے طے کیا ہے کہ اس جنگ کے پہلے حملے کا وقت خلیج کے وقت کے مطابق رات 3 بجے ہو جو واشنگٹن کے وقت کے مطابق شام سات بجے ہو گا‘‘۔Brent Scowcroft چیف ملٹری ایڈوائزر، 16 جنوری 1991ئ۔
یہ دو اقتباسات ایک ہی کتاب سے لیے گئے ہیں۔ کتاب کا
نام ہے "The World Tranformed"۔ یہ کتاب امریکی صدر جارج بش اور اُن کے چیف ملٹری ایڈوائزر برنٹ سکاکرافٹ کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یاداشتوں پر مبنی کتاب کا مصنف انفرادی طور پر ہی اپنی یاداشتیں تحریر کرتا ہے مگر اس کتاب میں دو اہم شخصیات نے مل کر وقوع پذیر ہونے حالات و واقعات پر اپنی اپنی یادیں اور احساسات قلمبند کئے ہیں۔ 1989ء سے 1991ء کے دوران سرد جنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا۔ دیوار برلن گرائی جا رہی تھی اور امریکہ نے عراق میں ڈیزرٹ سٹارم کے نام پر ایک جنگ کا آغاز کیا تھا۔ سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ دنیا میں تنہا سُپر پاور کے طور پر اُبھر رہا تھا۔ اِن واقعات نے دنیا کی شکل کیسے تبدیل کی؟ آج ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اور تیسری دنیا کے کمزور معاشی صورت حال سے دو چار ملکوں کے برعکس امریکہ کی فارن پالیسیاں طویل مدتی بنیادوں بے ترتیب دی جاتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں صدور کے آنے جانے سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ امریکہ دنیا کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے اور اسے اپنی چوہدراہٹ کیسے منوانی ہے، یہ سب طے ہے۔
آفس میں جارج بش ہو، اس کا بیٹا جارج ڈبلیو بش ہو، کلنٹن ہو یا اوباما، یہ پالیسیاں معمولی رد و بدل کے ساتھ جاری رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان پر مسلط ہونے والی وار آن ٹیرر پر تحفظات کے باوجود اوباما امریکی فوجیوں کو مکمل طور پر افغان سرزمین سے واپس نہیں نکال سکے۔ یوں یہ بات بھی سچ ثابت ہوتی ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے مگر اُسے ختم کرنا مشکل۔ امریکہ کے لیے جنگ اپنی طاقت کے اظہار کا سب سے دلچسپ طریقہ ہے۔ ویتنام سے لے کر افغانستان تک امریکی جنگوں کی ایک تاریخ ہے۔ کہیں کھلم کھلا طبلِ جنگ بجایا تو کہیں پراکسی وار سے لطف
اُٹھایا۔ پاکستان بھی بد قسمتی سے امریکہ کی پراکسی وار کو بھُگت رہا ہے۔ تقریباً چھ سو صفحات کی یہ ضخیم کتاب کئی حوالوں سے دلچسپ ہے۔ دوسرے ملکوں پر جنگ مسلط کرنا، اُس کے بے گناہ شہریوں کو مرتے ہوئے دیکھنا، دنیا کو ریموٹ کنٹرول سے چلانا، ایک دستخط سے جنگ کا آغاز کرنا۔۔۔ امریکہ کی سُپر پاور ذہنیت اچھی طرح بے نقاب ہوتی ہے۔ مثلاً اس کتاب میں امریکی صدر جارج بش بطور خاص خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ''ہم پہلی دفعہ جنگ کی لائیو کوریج دیکھ سکیں گے، سی این این اس جنگ کو لائیو رپورٹ کرے گا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ امریکی میڈیا پرسنز کے تحفظ کے لیے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہیں مگر عام شہریوں کی ہلاکت کی خبریں اعداد کی صورت اُن تک پہنچتی ہیں تو اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ ''ہلاکتوں کی تعداد ہمارے خدشے سے کم ہے‘‘۔
خلیج کی سرزمین جنگ کے شعلوں سے جل رہی تھی۔ امریکی صدر اوول آفس میں بیٹھے اس جنگ کی لائیو کوریج دیکھ رہے تھے۔ ایک جگہ ڈائری کے صفحے سے یہ جملہ نقل کرتے ہیں: ''بہت سنجیدہ فضا ہے۔ ذہنی دباؤ اور تناؤ ہے، کوئی بھی ڈنر نہیں کر سکا مگر پھر پیزا اور سینڈوچ منگوائے گئے جس سے سب لطف اندوز ہوئے‘‘۔
کتاب میں کچھ یاداشتیں ریکارڈنگ پر مشتمل ہیں جنہیں بعد میں تحریر کیا گیا۔ اُس وقت جب پوری دنیا میں خلیج جنگ پر شدید تحفظات تھے، جنگ کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے، احساس دلایا جا رہا تھا کہ غیر امریکی انسانی جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ امریکی زندگی، ایسے وقت میں امریکہ کا صدر جارج بش ایک جگہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے: ''اس جنگ میں امریکہ پہلے سے جدید ہلاکت خیز اسلحہ استعمال کرے گا۔ امریکی ٹیکنالوجی پر ہمیں فخر ہے‘‘۔
یہ کتاب در حقیقت ایک آئینہ ہے جس سے ہم امریکی سُپر پاور ذہنیت کی تمام تاریکیاں بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ آج گیارہ دستمبر ہے۔ نائن الیون کو پندرہ برس بیت چکے۔ اس عرصے میں کتنے نائن الیون اس دنیا نے دیکھے! افغانستان پر مسلط ہونے والی وار آن ٹیرر نے نائن الیون کی کوکھ سے جنم لیا اور اس وار آن ٹیرر کی آگ کیسے ہمارے سکولوں، پارکوں، مسجدوں، اسپتالوں، گلیوں بازاروں تک پہنچی۔ کیسے اس آگ میں ہمارا امن، تحفظ کا احساس، راکھ ہوا۔ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جارج بش سے جارج ڈبلیو بش تک ایک شخص اوول آفس میں بیٹھ کر جنگوں کے فیصلے کرتا ہے۔ دنیا، خصوصاً تیسری دنیا کے ملک امریکہ کے لیے کسی ایسے کھلونے کی مانند ہے جِسے وہ اپنی مرضی سے توڑتا اور جوڑتا رہتا ہے۔ دنیا کو اپنے فضارات کے حساب سے تبدیل کرتا ہے۔ یہ کتاب اسی ذہنیت کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔