جیسا کہ یہ اصطلاح ظاہر کرتی ہے ، دہشت گردی کا مقصد خوف پھیلانا ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں القاعدہ اور داعش جیسے جہادی گروہوں کو اُن کی توقعات سے کہیں بڑھ کر کامیابی ملی ہے ۔ انیسویں صدی کے انتہا پسندوں کی نئی نسل نے نہتے اور معصوم شہریوں کے خلاف تخریبی کارروائیاں کیں۔ انارکی پھیلانے والی تنظیموں نے یورپ کے اہم شہروں میں بم دھماکے کرکے شہریوں کو خوف میں مبتلا کردیا۔ اُن کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھنے والی حکومتوں کو گرا کر اپنی مثالیت پسندی پر مبنی نظام قائم کرنا تھا۔ درحقیقت 1914 ء میںسراجیو میں ہونے والا دہشت گردی کا ایک واقعہ تھا جس کی وجہ سے پہلی جنگ ِ عظیم چھڑ گئی ۔
گزشتہ صدی کے اختتام تک دنیا سیاسی مقاصد کے لیے تشدد کے استعمال کی عادی ہوچکی تھی۔ انگلینڈ اورسپین میں بالترتیب آئی آر اے اور ای ٹی اے کے علیحدگی پسندتخریبی کارروائیاں کررہے تھے ۔ امریکہ میں بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہ اپنے مبہم نظریات کا پرچار کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لے رہے تھے ۔ تاہم نائن الیون سے پہلے امریکہ عالمی جہاد کے خطرے سے آگاہ نہ تھا۔ ان اہم ترین عمارتوں کے دہشت گردی کا نشانہ بننے سے پہلے امریکی دہشت گردی کو ایک دور افتادہ مسئلہ سمجھتے تھے ، اور یقین رکھتے تھے کہ وہ اس کے اثرات سے براہ ِ راست متاثر نہیں ہوں گے ۔ اس تخریبی کارروائی کے بعد اُنہیں اچانک احساس ہوا کہ مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے حقیقی خطرے لاحق ہے۔ امریکی سرزمین پر اہم ترین مقامات کو نشانہ بنانے کا عمل اتنا ہنگامہ خیز تھا کہ آج پندرہ سال بعد بھی بہت سے امریکی اس صدمے کی کیفیت سے نہیں نکل سکے ہیں کہ کیاکوئی قلعہ نما امریکی دفاع کے اندر بھی ضرب لگا سکتا ہے ؟گیارہ ستمبر کو پیش آنے والے واقعات نے امریکہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل کردیا۔
اگرچہ ہر سال گن فائر سے تیس ہزار کے قریب امریکی شہری ہلاک ہوجاتے ہیں، لیکن کوشش کے باوجود صدر اوباما آتشیں اسلحہ رکھنے کے قوانین کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے ۔ وہ جرائم پیشہ افراد اور غیر متوازن شخصیت کے مالک افراد کو خود کار ہتھیار خریدنے سے روکنے کے لیے قوانین بنانا چاہتے تھے ۔ اس کے باوجود امریکی کسی جنونی قاتل کی فائرنگ، جو امریکہ معاشرے کا ایک جانا پہچانا پہلو بن چکی ہے، سے ہونے والی ہلاکتوں کی نسبت دہشت گردی سے کہیں زیادہ خائف ہیں۔ اب وہ اتنے محتاط ہوچکے ہیں کہ مسلح محافظوں کے ساتھ تربیت یافتہ کتے بھی ٹرینوں میں گشت کرتے ہیں کہ کہیں اُن کا ٹرانسپورٹ سسٹم دہشت گردی کا نشانہ نہ بن جائے ۔ اُنھوں نے اپنی سماجی اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سخت قوانین وضع کرنے کے لیے بہت کڑا داخلی سکیورٹی سسٹم قائم کیا ہے تاکہ جہادی دہشت گردی کو وار کرنے کوئی موقع نہ ملے ۔ دی اکانومسٹ کے ایک حالیہ پول سروے کے مطابق77 فیصد امریکی، جو خبریں سنتے ہیں، کو یقین ہے کہ داعش امریکی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاست بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر خطرے جگاتے ہوئے ایسے پرحماقت تصورات کو مہمیز دیتے رہتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ٹرمپ نے حالیہ دنوں کہا ہے ۔۔۔''اگر امریکیوں نے دہشت گردی پر جلد ہی سخت موقف نہ اپنایا تو بہت جلدہم سے یہ ملک چھن جائے گا،یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ ‘‘خوف کی اس طرح آبیاری اُس ملک میں کی جارہی ہے جس کا نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے حملوں میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے ۔ فرانس میں پیرس اور نائس میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد انتہائی شدید رد ِعمل دکھائی دیا ہے ۔ تاہم بہت سے اقدامات ملک کو محفوظ بنانے کی بجائے ایک مذاق بن کررہ گئے ہیں۔ مسلم خواتین کو ایک مخصوص لبادہ پہن کر پیراکی کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے بہت سے شہروں کے میئروں نے مسلمان عورتوں کو سماجی دھارے سے الگ کردیا ہے ۔ برطانیہ، جو دہشت گردی کے خلاف دوٹوک پالیسی رکھتا ہے ، نے تارکین ِوطن کے حوالے سے بھی واضح پالیسی بنائی ہے ۔ جب ایک جج نے حالیہ دنوں ایک انتہا پسند مسلمان انجم چوہدری کو پانچ سال قید کی سزا سنائی توکچھ لبرل آوازوں نے اس فیصلے پر سوالات اٹھائے ۔ انجم چوہدری پر داعش سے روابط رکھنے کا الزام تھا۔ وہ برطانیہ کے نوجوانوں کو شام جاکر لڑنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ ٹی وی پرہونے والے کچھ پروگراموں میں اس سے بہت سے سوالات پوچھے گئے ، لیکن اُس نے بہت احتیاط کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشدد کا پرچار نہیں کرتا۔ اگرچہ اس کی قید پر کوئی آنسو نہیں بہا ہے ، لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ اُس نے بہرحال کوئی قانون شکنی نہیں کی تھی۔
اگرچہ زیادہ تر ممالک نے اپنی اپنی پہنچ اور اسطاعت اوراپنے داخلی قوانین اور سیاسی ماحول کے مطابق دہشت گردی سے لاحق خطرے کاتدارک کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن پاکستان ، جسے جہادی تنظیموں سے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑااور اس کے ساٹھ ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوگئے اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا، نیشنل ایکشن پلان پر بھی عمل نہ کرسکا۔ اس کے لیے سیاسی عزم درکار تھا، لیکن یہ چیز اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں دکھائی نہیں دی۔ بہت سے ممالک نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف پیدا ہونے والے ماحول اور چلنے والی مہم سے فائدہ اٹھا کر اپنے مقامی قوم پرست علیحدگی پسندوں یا سیاسی مخالفوں کو بھی دہشت گرد قرار دے ڈالا ہے ۔ روس نے اس سے فائدہ اٹھا کر چیچن مسلمان علیحدگی پسندوں کا خاتمہ کردیا، انڈیا نے کشمیریوں کو دبانے کے لیے مہم تیز کردی، ترکی نے اس سے فائدہ اٹھا کر کرد آبادی پر بمباری کو ایک معمول بنا لیا۔
اس طرح نائن الیون کے بعد صدر بش کی شروع کردہ جنگ آج پندرہ سال بعد بھی جاری ہے ۔ اگر چہ داعش کے قبضے سے چھینا ہوا علاقہ نکل رہا ہے ، اس کی 'اپیل‘ بھی دم توڑرہی ہے ، لیکن یہ ابھی بھی محدود سوچ اور ناقص تعلیم رکھنے والے مسلم نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دے کر دنیا کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے ۔ اس کا پیغام انٹرنیٹ اور دیگر میڈیا ذرائع کے ذریعے مسلمان نوجوانوں تک پہنچ رہا ہے ۔ بہت سے نوجوان، جو مغربی دنیا میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، صرف اس لیے اس کا پیغام قبول کرلیتے ہیں کہ وہ مغربی معاشروں ضم ہوکر مہذب اطوار اپنانے میں ناکام رہے ۔ خطرناک بات یہ ہے کہ داعش کو حملے کرنے کیے لیے تنظیمی نیٹ ورک کی ضرورت نہیں۔نائس میں تقریب میں شامل شہریوں پر ٹرک حملے سے ہونے والی چھیاسی ہلاکتوں سے یہ بات ظاہرہوتی ہے ۔