بہت سال پہلے پی ٹی وی پر عوامی مسائل اجاگر کرنے کے لئے معروف ڈرامہ چلا جس کا مرکزی کردار ایک گورا تھا۔ اسے پاکستان کے گلی کوچوں میں گھومتا دکھایا جاتا۔ ڈرامہ نگار نے جس مسئلے کو اجاگر کرنا ہوتا وہ اس گورے کو سامنے رکھ کر بڑے دل پذیر انداز میں اس کے منہ سے بات کہلوادیتا: ! What a country۔۔۔۔کیسا ملک ہے؟
یہی بات آج میں برطانیہ کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں: What a country? ۔۔۔ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہتے ہیں لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اسے امّاں امّاں کہنے والے بچوں میں سے کسی کو ممتا ملتی ہے نہ کوئی اس کا لے پالک بیٹا بن پایا۔ اگر کوئی جمہوریت کی ماں سے کچھ سیکھنا چاہے تو اس کے لئے کلاس روم کی بجائے وہ اس نظام کے بڑوںکا طرزِ عمل دیکھ لے۔ اس کی تازہ مثال ایک دعوت نامے کی صورت میں میرے سامنے ہے جس کے مطابق برٹش آرمڈ فورسزکے سربراہ جنرل سر نیکولس پیٹرک کارٹر ایک ڈنر میں مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اس ڈنرکا مقصد برطانیہ میں بسنے والے مختلف النسل شہریوں میں ہم آہنگی کا فروغ ہے۔
دوسری جانب یہ بھی سن لیجئے کہ مانچسٹر اور برمنگھم کے درمیان چھوٹا سا گائوں آتا ہے جس کے نام کے ہجے انگریزی میں خاصے پیچیدہ ہیں۔ مقامی لوگ اس کا مخفف 'سرل‘ بناتے ہیں۔ چند دکانیں اور ایک پاکستانی کا ترکش ریسٹورنٹ اس کی خاص پہچان ہے۔ تقریبات کے لئے دو مناسب ہال نما کارنر مخصوص ہیں۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا دعوت خانہ ہے جس میں کھانا پیش کرنے کا طریقہ بھی انوکھا ہے۔ میزکے سائز کا ایک بڑا سا''تَوّا‘‘ جس پر آٹھ نو قسم کی چیزیں۔۔۔۔ سلاد، ایپاٹائزر، سٹارٹر، مین کورس بیک وقت اکھٹا پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک وارداتیے صاحب تقریب کے عین درمیان میرے پاس تشریف لائے۔ بے تکلفی کے اظہار کے لئے کاندھے پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی بھری مجلس سے علیحدہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعد بولے کہ بہت راز کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے موصوف کو سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔فرمائیے؟ اور اگر بہت خفیہ بات ہے توکان میں کہہ دیجیے۔ بولے آپ نے دیکھا ہر جگہ جنرل راحیل شریف پہنچ جاتا ہے۔کوئٹہ ہسپتال میں جنرل راحیل شریف کے سب سے پہلے پہنچ جانے پر انہیں اعتراض تھا۔ ان کے خیال میں ایسی جگہوں پر آرمی چیف کے جانے سے گلو برانڈ جمہوریت سخت خطرے میں آ چکی ہے۔
یورپ کے وہ ملک جس کے چیف جسٹس، آرمی چیف، وزیراعظم، صدر، چانسلر اور وزیر عہدہ چھوڑنے کے بعد میٹرو ٹرین اور سرخ بس میں کھڑے نظر آتے ہیں، وہ شکر کرتے ہیں ان کی فوج کا سربراہ قومی یکجہتی کے عمل میں حصہ لے۔
آغاز میں ذکر آیا تھا بچوںکا، ان کے لئے مانچسٹر اور اس کا گرد و نواح خاص نہیں خاص الخاص دلچسپیاںرکھتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر تحریریں''صرف بالغوں کے لئے‘‘ ہوتی ہیں۔ سفر نامے بھی خالصتاًََ مردانہ واقع ہوئے ہیں اس لئے ان میں بچوں کی دلچسپی کا داخلہ ممنوع ہے۔ لیکن مانچسٹر سے55,50 منٹ کی ڈرائیو پر ذرا باہر نکلیں تو کئی حیرت کدے بچوں کا استقبال کرتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور اولٹن ٹاور ہے۔ اس ٹاور کے اندر مونو ریل، بجلی سے چلنے والی کیبل کاریں، الیکٹرک موٹر گاڑیاں اور نجانے کیا کیا کچھ ہے۔ اس تھیم پارک کو مکمل دیکھنے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ چاہیے۔۔۔ سات نہیں بلکہ پورے آٹھ دن۔ اولٹن ٹاور کے احاطے میں واقع پرانے نوابوں اور شہزادوںکے محل بھی ہیں جن کے اندرکئی انگلش فلموںکی شوٹنگ ہوئی۔ یہاں ڈرامے بنے اور بچوں کی دلچسپی کے بے شمار شو ریکارڈ ہوئے۔ اولٹن ٹاور میں انٹری گیٹ کے ساتھ ہی دو طرح کے گائیڈ آپ کو ملتے ہیں۔ مردوںکو ہینڈل کرنے کے لئے مرد گائیڈ جبکہ بچوں کی میزبانی اور استقبال کے لئے خوش اخلاق، خوش لباس اور خوش خصال نوجوان خواتین۔ یہاں آکر ہر دوسری تیسری فیملی کے ساتھ جنریشن گیپ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بڑے کیبل کار پر بیٹھنا چاہتے ہیں لیکن بچے مونو ریل پر۔ اولٹن ٹاورکے اندرکئی جگہ انٹری ٹکٹ کے بعد بھی مزید ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں۔ دو جگہ خاص رش دیکھنے کو ملا۔ پہلا ''ایکس -فیکٹر‘‘ جھولے والی جگہ جس میں دو صوفے 40 کے قریب لوگوں کو لفٹ کے ذریعے62 میٹر کی اونچائی پر لے کر جاتے ہیں اور پھر وہ صوفے جس پر سیاح بیٹھے ہوتے ہیں ان کو ''فری فال‘‘ کے انداز میں نیچے پھینکا جاتا ہے۔ اس منظرکا حصہ بننا دل گردے کا کام ہے بلکہ اس گرتے ہوئے صوفے کو دیکھنا بھی۔
یہاں سے ذرا ہٹ کر جنوب مغرب کی جانب وہ محل واقع ہیں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے۔ وہاں ٹکٹ گھر کی لائنیں لگتی ہیں۔ یہ بچوں کا سب سے مشہور اور پسندیدہ مقام ہے۔۔۔۔''چارلی اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری‘‘۔ اس تفریح گاہ کا نام مشہور انگریزی فلم 'چارلی اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ چارلی اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری کے اندر جانے کے لئے ٹکٹ کی لائن بہت لمبی ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ لائن کے ساتھ ساتھ ریسٹورنٹ،کافی شاپ اور پورا بازار بنا یا گیا ہے۔ چارلی اینڈ چاکلیٹ کا ہیرو جونی ڈیپ ہے جو مشہور ِزمانہ فلموں کی سیریز 'پائرٹس آف کیربین‘ میں کیپٹن جیکس سپیروکا کردار ادا کر رہا ہے۔ اندر لے جا کر چاکلیٹ کی بنی ہوئی کشتی میں سفر کرایا جاتا ہے۔ اس دوران چاکلیٹ کا طوفان،چاکلیٹ کازلزلہ، چاکلیٹ کا جزیرہ بلکہ ہوش ربا سیٹ ڈیزائننگ اور ڈیکوریشن کے دیگر شاہکار بھی ہیں۔ ایک طرح سے چارلی کی چاکلیٹ فیکٹری کا یہ سفر بچوں کو فلم کا ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔
مانچسٹرکے اندر سٹی سنٹر کے متوازی '' وِن سلو‘‘ روڈ چلتی ہے۔ دو رویہ شاہراہ سے تھوڑا ہٹ کر''والی رینج‘‘ کا پارک ہے۔ یہ علاقہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں قیامِ پاکستان سے پہلے کے ہندوستانی رئیس رہتے ہیں جن میں مشہور صنعتکار، کچھ والیانِ ریاست اور اب نام کے نواب بھی ہیں۔ پارک کی صفائی کا معیار اور نظم وضبط دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔ صبح کی سیر ،شام کی واک، ہلکی پھلکی ورزش، اولمپکس کی تیاری، ہر طرح کی دوڑنے والی مخلوق یہاں موجود ہوتی ہے۔ لندن ہو یا مانچسٹر، برمنگھم یا ومبلڈن کا علاقہ، کسی پارک، کسی شاہراہ یا کسی بھی شاپنگ سنٹر میں ویک اینڈ پر تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ لیکن کئی ملین لوگوں کے رش میں ایک بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ یہ کہ نہ کوئی کسی خاتون کو ہاتھ لگا سکتا ہے نہ فقرہ کَس سکتا ہے۔کسی کو نظر بھرکر دیکھنا یا لاہورکے بھونٖڈ پورہ کی طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی کوشش کرنا باقاعدہ قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔ اسے سٹوکنگ(Stocking) کہتے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے یہ آزاد دنیا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی خوب جانتے ہیں آزادی سب کے لئے ہے۔ چھڑی گھمانے والا ہو یا چھتری لگا کر چلنے والا، اس کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہو جائے۔ ہاں، البتہ یہاں آ کر ہم جیسوں کو پریشانیاں ضرور لاحق ہوتی ہیں۔ مثلًا آپ پورا ہفتہ سڑکوں پر گھومتے رہیں، آپ کو جوتے پالش نہیں کرنے پڑتے۔ آپ پورا مہینہ بڑی بڑی شاہراہوں یا چھوٹی چھوٹی سٹریٹس میں گاڑی چلاتے رہیں آپ کو غلط اوور ٹیک یا آگے نکلنے کی دوڑ میں ایک دوسرے کی گالیوں کی تواضع دیکھنے کے منظر نہیں ملتے۔ ہم، جنہیں دھول پھانکنے کی پکی عادت ہے، انہیں یہ ہومیو پیتھک سا میٹھا ماحول خالی خالی سا لگتا ہے۔ ویسے ہی جیسے کوئی سٹیل اور پلاسٹک کا بنا ہوا روبوٹ۔
اجنبی کو دیکھ کر مسکرانا روایت ہے لیکن مسکراہٹ شیطانی نہیں ہو سکتی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیںکہ انگلستان میں شیطانوں کی قلت ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے اگر شریف نے غیر شریفانہ نگاہ ڈالی تو آگے بیشک شیطان ہو، شریف کو ہتھکڑی ضرور لگے گی، خواہ وہ چھوٹا شریف ہو یا بڑا۔ عام شریف ہو یا خاص شریف۔ (جاری)