تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     12-09-2016

قربانی

قربانی الہامی تہذیب کا ایک مظہر ہے جس نے آدم ؑکے پہلے بیٹوں کے ہاں ظہور کیا اور ان کا آخری بیٹا بھی اسی طرح اس کا گواہ ہوگا۔ آدمؑ کے ایک دوسرے بیٹے ابراہیمؑ نے اس روایت کو وہ شکوہ بخشا کہ چاند سورج کی روشنی تو ماند پڑ سکتی ہے، اس روایت کی نہیں۔
الہامی روایت کیا ہے؟ یہ انسان کو یاد دلاتی ہے کہ وہ کسی ارتقائی عمل کی ٹھوکریں کھاتا کھاتا، اس روپ میں نمودار نہیں ہوا۔ وہ چرند پرندکی طرح، اس دھرتی پر جبلتوں کا اسیرایک بے معنی وجود نہیں ہے۔ اس کا ایک خالق ہے۔ وہ ایک علیم و بصیر ہستی کا شاہکار ہے۔ اس نے بالاہتمام اسے تراشا اور سنوارا۔ پھرخالق نے اپنی اس تخلیق کے قلب میں اپنا شعور الہام کر دیا۔ اس کے وجود میں ایک چراغ روشن کر دیا۔ اس کی روشنی میں وہ جان سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کا بندہ ہے۔ ساری کائنات اس کی غلام ہے لیکن وہ خود اپنے مالک کا غلام ہے۔ اسی غلامی میں اس کی عظمت پوشیدہ ہے۔ وہ اس احساس کے ساتھ جیتا ہے تواس کے من میں اجالا ہوتا ہے اور اس کے گردو پیش بھی۔ من کا اجالا تہذیب ِ نفس کی راہیں روشن کر تا ہے۔ یہ اس کے اردگرد پھیلتا ہے تو ایک تہذیب کو جنم دیتا ہے۔ قربانی اسی تہذیب کا جوہر، انسانوں کی طرف سے بندگی کا اعلان ہے۔
قرآن مجید نے بتایا کہ ہر امت کے لیے قربانی ہے۔ (الحج 34:22) آدم کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے خدا کے حضور میں قربانی پیش کی۔ ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی رد کر دی گئی۔ بائبل کی شہادت پر اعتبار کریں تو اس دور میں آسمان سے ایک آگ اترتی تھی جس کی قربانی قبول ہوتی، اسے جلا دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا معیار بتا دیا کہ تمہارا گوشت اور خون اس کو نہیں پہنچتا، یہ تقویٰ ہے جو قبول کیا جاتا ہے۔کوئی چیز جب رواج اور تہذیب بنتی ہے تو نسل در نسل تعامل، اس کے ظاہر کو زندہ رکھتا ہے، مگر وہ لوگ کم ہوتے ہیں جو اس کے جوہر پر نظر رکھتے ہیں۔ الہامی تہذیب کا جوہر کیاہے؟ ہم خدا کے بندے ہیں۔ زندگی اس کی عطا ہے اور ہمیں صبر اور شکر کے امتحان میںڈالا گیا ہے۔ ہم نے اسی احساس میں جینا اور اسی میں مر نا ہے۔ 
عالم کے پروردگار نے اپنے آخری پیغمبر ﷺ کو مخاطب کیا اور ایک لف و نشر مرتب کر دیا: ''آپ اعلان کر دیجیے: میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا، رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ نماز کو زندگی اور قربانی کوموت کے سامنے رکھا۔ میں اپنی جان کی نذر کے طور پر ایک جانور خدا کے حضور میں پیش کر تا ہوں۔ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے اور رسول ابراہیم ؑ نے اس حقیقت کو آ خری درجے میں مشہود کردیا۔ ایک بیٹے کی دعا مانگی۔ بیٹا عطا ہوا تو اسے خدا کے حضور میں قربان کرنے کا حکم دیاگیا۔ باپ بیٹے، دونوں نے سر ِ تسلیم جھکا دیا۔ آسمان سے آنے والی ایک صدا کوہ ودمن میں گونج اٹھی: ہم نے (اسماعیل) کو ایک ذبحِ عظیم کے عوض چھڑا لیا‘‘۔(الصافات۳۷:۱۰۷) قربانی وہی ذبحِ عظیم ہے جو مسلم تمدن کا حصہ بن کر قیامت کی صبح تک زندہ رہے گی۔گویا آسمان سے آنے والی صدا اسی طرح گونجتی رہے گی۔
تہذیب علامتوں سے زندہ رہتی ہے۔ اسے سود و زیاں کے پیمانے سے نہیں ناپا جاتا۔ ہر علامت کو عقل کے ترازو پر نہیں تولا جاتا۔ عقل کا اپنا مطالبہ بھی یہی ہے۔ انسانی عقل اسے ایک تہذیبی وجود سمجھتی ہے۔ رسم و رواج کو وہ تہذیب کا ایک ناگزیر حصہ مانتی ہے۔ وہ یہ سوال نہیں اٹھاتی کہ ہولی کے تہوار میں رنگ کیوں ہوتے ہیں؟ اس سے تو لباس آلودہ ہو جاتا ہے۔ لوگ بسنت پر پیسہ کیوں خرچ کرتے ہیں؟ میلوں ٹھیلوں پہ فضول خرچی کیوں؟ عقل ایسے سوالوں کو بد ذوقی قرار دیتی ہے۔ اگر دیگر تہذیبوں اور الہامی روایتوں کے ان مظاہرکواسراف نہیں سمجھا جاتا اور ان کے متبادل تجویز نہیں کیے جاتے تو قربانی کے وقت یہ سوال کیوں اٹھنے لگتے ہیں؟ 
یہ افراط و تفریط ہے جو عدم توازن پیدا کرتے ہیں۔ رسم مذہبی ہو یا غیر مذہبی جب روایت میں ڈھلتی ہے تواس کا ظاہری پہلو غالب ہو جاتا ہے۔ یہ غلبہ نمائش کی نفسیات کو جنم دیتا ہے۔ پھر ہر کوئی وابستگی کے اظہار میں مبالغہ کرتا ہے۔ یہ اظہار آہستہ آہستہ جوہر اور اصل کی جگہ لے لیتا ہے۔ حج اور عمرہ بڑی نیکیاں اور مسلم تہذیب کے مظاہر ہیں۔ لوگ انہیں نمائش اور اسراف کا مظہر بنا دیتے ہیں جب ہر سال جاتے اور اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ قربانی کا جانور اگر تیس ہزار میں مل سکتا ہے تو وہ تین لاکھ خرچ کرتے ہیں۔ یہ رویہ اللہ تعالیٰ کو مطلوب نہیں ہے۔ قربانی کو بطور روایت زندہ رکھنا مسلم سماج کی ذمہ داری ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر سماجی ذمہ داریوں سے غفلت برتی جائے اورساری توجہ قربانی پر دی جائے۔ اب یہ ہونے لگا ہے کہ ایک گھر میں پانچ افراد ہیں تو سب قربانی دے رہے ہیں۔ خاوند الگ، بیوی الگ۔ 
اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ اللہ کی راہ میں دو لاکھ روپیہ خرچ کر سکتے ہیں تو آپ تیس چالیس ہزارکا بکرا لے لیں اور باقی رقم ضرورت مندوں میں صرف کر دیں۔ اگر آپ کے علم میں کوئی ایسا مریض ہے جو علاج کی استطاعت نہیں رکھتا اور آپ اسے نظرا نداز کرتے ہوئے، تیس ہزار کے بجائے دو لاکھ قربانی کے جانور پر خرچ کر رہے ہیں تو مجھے خدشہ ہے کہ اس پر آپ کی باز پرس بھی ہو سکتی ہے۔ جانور اچھا اور صحت مند ہونا چاہیے۔ اس کا ایک عمومی معیار ہے جو ہم سب جانتے ہیں۔ اگر ہم نے اس کا لحاظ رکھا تو ہمیں مطمئن ہونا چاہیے کہ ہم نے اس روایت کو زندہ رکھا۔ دین ہمیں عبادت کے معاملے میں بھی اعتدال سکھاتا ہے۔ بعض اوقات ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسولؐ سے بڑھ کر دین کی حمیت رکھتے ہیں، معاذ اللہ۔
مذہب کے باب میں ہمارے ہاں فقہی مزاج کا غلبہ ہے۔ یہ مزاج ہر معاملے کو قانون کی نظر سے دیکھتا ہے۔ قانون ایک تنا ہوا رسا ہے۔ معاشرہ ایسے نہیں ہوتا۔ دین معاشرے کے لیے ہوتا اور اس کی حالت اور کیفیت سے خود کو ہم آہنگ کرتا ہے۔ یوں وہ قانون کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ فقہی مزاج ظواہر اور ناپ تول کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ ان باتوں پر یہ غیر ضروری اصرار تھا جس نے فقہی روایت کے خلاف ایک ردِ عمل پیدا کیا۔ اس کا اظہار ہم قربانی کے معاملے میں بھی دیکھتے ہیں۔ لوگ جانور کے ماہ و سال اور دانت تو گنتے ہیں لیکن اس پر بہت کم غور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم کیوں دیا۔ وہ یہ سوال تو اٹھاتے ہیں کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا چاہیے یا نہیں، لیکن یہ سوال نہیں پوچھتے کہ قربانی کے گوشت سے فرج بھرنا جائز ہے یا نہیں؟ 
لوگ جب دین کی روح سے صرفِ نظر کرتے ہیں تو ان کی توجہ گوشت پر زیادہ اوراس کے مقصد پر کم ہوتی ہے۔ پھر قربانی کی عید گوشت خوری کے مقابلے میں بدل جا تی ہے۔ لوگ جانور کا اچھا حصہ اپنے لیے خاص کر لیتے ہیں اورکمتر اللہ کی راہ میں دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم قربانی کا گوشت خود کھائیں، عزیزو اقارب میں بانٹیں اور سماج کے مستحق لوگوں کو بھی دیں۔ دین کی روح بتاتی ہے کہ اس کا سب سے اچھا مصرف، زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دینا ہے۔
قربانی مسلم تہذیب کا ایک مظہر ہے لیکن اصلاً یہ عبادت ہے۔ اجتماعی تعامل ایک عمل کوآپ سے آپ تہذیب بنا دیتا ہے لیکن اسے عبادت بنانا،فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے اسے ذبحِ عظیم میں بدل کر تہذیب بنا دیا۔ آئیے! ہم اس سال اسے عبادت بنادیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved