بیرونِ ملک پاکستانی مسلمانوں نے ہم سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ وہ اکثر پاکستان میں اپنی قربانی کرنے کے لیے کسی کو اپنا وکیل بناتے ہیں، بعض اپنے رشتے داروں کو وکیل بناتے ہیں اور اپنے آبائی علاقوں میں قربانی کا اہتمام کرتے ہیںتاکہ وہاں کے غُرباء اور اُن کے رشتے داروں تک قربانی کا گوشت پہنچ جائے۔اِسی طرح بڑی تعداد میں بیرونِ ملک پاکستانی مسلمان دینی ورفاہی اداروں کو قربانی کے لئے اپنا وکیل بناتے ہیں اورقربانی کے لیے پیسے اُن کو بھیج دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحقین اُن کی قربانی کے گوشت اور کھالوں سے مستفید ہوسکیں۔ آج کل مختلف ممالک میں بعض صورتوں میں عیدالاضحی میں ایک یا دودن کی تقدیم یاتاخیرہوجاتی ہے ، توایسی صورتِ حال میں شرعی اعتبار سے قربانی کے صحیح طور پر ادا ہونے کے لیے کن باتوں کی رعایت ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ قربانی کے ایام اور اوقات کے لحاظ سے بیرونِ ملک مقیم صاحبِ قربانی اور مقامِ قربانی میں سے کس کا اعتبار کیا جائے گا؟،کیونکہ قربانی عبادت ہے اورعبادت کو شرعی احکام کے مطابق ادا کیا جانا چاہیے ۔لہٰذا عوام اور رفاہی اداروں کی رہنمائی کے لئے فقہی اصولوں کے مطابق ہم نے مناسب سمجھا کہ اِس مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے ،سطورِ ذیل اس مقصد کے لیے تحریر کی جارہی ہیں:
اس حوالے سے ہماری قدیم کُتبِ فتاویٰ میں صراحت نہیں ہے ،کیونکہ ُاس وقت رَسل ورسائل اور ابلاغ کے ذرائع اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے ۔ اس لئے ہمارے فقہائے متقدمین کے سامنے شہر اوردیہات یا دوشہروں کی مثالیں تھیںاوراُن کے بیان کردہ مسائل اِس صورتِ حال کے مطابق ہیں کہ عید کے دن شہر میں قربانی نمازِ عید کے بعد کرنی ہوگی اور دیہات میں صبح صادق کے بعد بھی کی جاسکتی ہے ۔پس اگرقربانی شہر میں کی جارہی ہے ،تو شہر میں پڑھی جانے والی پہلی نمازِ عیدالاضحی کے بعدہونی چاہئے ،خواہ جس کی قربانی ہورہی ہے ، وہ دیہات میں ہی کیوں نہ ہواوراگر قربانی ایسے دیہات میں ہورہی ہے،جہاں نمازِ عید نہیں ہوتی ،تو دس ذوالحجہ کی طلوعِ فجر کے بعدقربانی کی جاسکتی ہے ،خواہ صاحبِ قربانی شہر میں ہو۔
الغرض اس صورتِ حال میں قربانی کے درست ہونے کے لئے مقامِ ذبح کا اعتبار ہے،صاحبِ قربانی کا اعتبار نہیں ہے ،یہ مسئلہ اس حدتک درست ہے ۔لیکن فی نفسہٖ قربانی کے وجوب ِ ادا کا سبب وقت یعنی صاحبِ قربانی کے لئے ،خواہ وہ کہیں بھی ہو،ایامِ قربانی کاہونا ہے ۔ چنانچہ ہمارے فقہاء کرام نے لکھاہے کہ اگرسات اشخاص نے مل کر قربانی کی ایک گائے خریدی اور 9ذوالحجہ کوایک شریک کا انتقال ہوگیا ،تواگر اس کے ورثاء اجازت دے دیں ، توسب کی قربانی جائز ہوجائے گی ،ورنہ کسی کی بھی جائز نہیں ہوگی۔کیونکہ کسی صاحبِ نصاب مسلمان پر قربانی کا اداکرنا اُس وقت واجب ہوگا ،جب اُس کا ''یوم النحر‘‘ شروع ہوجائے اور 9ذوالحجہ یوم النحرنہیں ہے ۔اب ظاہر ہے کہ اگر صاحبِ قربانی کینیڈا میں ہے، تو اس کے لئے وہاں کے ایامِ نحر معتبر ہوں گے ،پس اگر وہاں عیدالاضحی ہفتے کے دن ہے،توپاکستان میں اس کی قربانی پیرتک ہی ہوسکے گی اوراگر وہاں عیدالاضحی اتوار کوہے ،تویہاں اس کی قربانی منگل تک ہوسکے گی،البتہ قربانی کے وقت کے لئے مقامِ ذبح کا اعتبار ہوگا ۔
تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :'' اورقربانی کا سبب وقت ہے اوروہ ایامِ نحر (قربانی کے دن) ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ رأس (مسلم عاقل وبالغ صاحبِ نصاب کی ذات) ہے اور فتاویٰ ''تتارخانیہ‘‘ میں اسے مقدم رکھا‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
''کسی حکم کا سبب وہ ہوتاہے ،جس پر وہ حکم مرتب ہوتاہے ،جس کے اثر کا ادراک عقل سے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی (عبد) مُکلّف کے کرنے سے ہوتا ہے ، جیسے نماز کے لئے وقت ۔۔آگے چل کر کہا:پھر ثابت ہواکہ سبب وقت ہی ہے ،کیونکہ جس کی طرف حکم کی نسبت ہویاجس کے ساتھ حکم متعلق ہو، وہی سبب ہے ،کیونکہ ایک چیز کی دوسری چیزکی طرف نسبت میں اصل یہ ہے کہ وہ سبب ہو،(ردالمحتار علی الدرالمختار ،جلد9،ص: 379 ) ‘‘ ۔
علامہ علاؤالدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں:ـ ''رہاوجوبِ قربانی کا وقت، تووہ ایام نحر ہیں،پس وقت داخل ہونے سے پہلے قربانی واجب نہیں ہوگی ، کیونکہ واجباتِ مؤقَّتہ(Fixed Time Obligations) مُقررہ وقت سے پہلے واجب نہیں ہوتے ،جیسے نماز ،روزہ وغیرہ ۔اور''ایامِ نحر‘‘ تین ہیں اوروہ ہیں ،دس ذوالحجہ کی طلوع ِ فجر سے بارہ ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک...آگے چل کر لکھتے ہیں: کیونکہ عبادات اورقربانی کا وقت نقل وروایت ہی سے معلوم ہوسکتاہے (یعنی اِس میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے)،(بدائع الصنائع ، جلد 5،ص:97)‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں: ''پس جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے ،اگروہ شہر میں ہے اور قربانی کا جانور دیہات میں یا ایسے مقام پر ہے ،جہاں نماز عید نہیں ہوتی ،اورصاحبِ قربانی نے وہاں کسی شخص کو وکیل بناکرکہاکہ اُس کی طرف سے قربانی کردیں اوراُس نے وہاں طلوعِ فجر کے بعدصاحبِ قربانی کی عید سے پہلے قربانی کردی ،تو اُس کی قربانی اداہوگئی ۔اور اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہے کہ صاحبِ قربانی ایسی جگہ ہے جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی اور اس کی قربانی شہر میں ہے جہاں نمازِ عید ہوتی ہے ،تو اگر اس صورت میں اُس کے وکیل نے اُس کی قربانی شہر میں نمازِعید سے پہلے کردی ،تواُس کی قربانی ادانہیں ہوگی ،کیونکہ قربانی کے جواز کے لئے صاحبِ قربانی کے مقام کا نہیں، بلکہ محلّ قربانی (یعنی جہاں قربانی کی جارہی ہے )کا اعتبار ہے ،امام محمد رحمہ اللہ نے ''نوادر‘‘ میں اسی طرح ذکرکیاہے اورانہوں نے کہا :میں ذبح کے مقام کو دیکھوں گا ،مذبوح عنہُ یعنی صاحبِ قربانی کے مقام کو نہیں دیکھوں گا ۔امام حسن نے امام ابویوسف سے بھی اسی طرح روایت کی ہے ،کیونکہ قربانی کرنا عبادت ہے اور اس کے لئے قربانی کی جگہ کا اعتبار ہوگا ، نہ کہ ''مذبوح عنہ‘‘ کے مقام کا ۔البتہ امام حسن بن زیاد نے کہاہے کہ دونوں جگہوں کے شہر ہونے کی صورت میںقربانی اور صاحبِ قربانی دونوں کے مقامات کا اعتبار کیاجائے کہ دونوں جگہ نماز عید ہوجائے اوراگردوسری جگہ کی عید کا پتانہ چل سکے توزوال تک انتظار کرے تاکہ دونوں جگہ کی نمازِ عیدکا ہونایقینی ہوجائے ، (بدائع الصنائع ، جلد 5،ص:111)‘‘۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اُن کے ذہن میں دونوں مقامات کے بُعد کا اتنا ہی تصور تھا ،مگر اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے اور دونوں مقامات میں بعض صورتوں میں بارہ گھنٹے کا فرق ہوتاہے۔
علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:''اوراگر ایک شخص دیہات میں ہے اور نمازِ عیدالاضحی کے لئے شہر میں آیا اور اپنے گھروالوں کو حکم دیا کہ اس کی قربانی کرلیں ،تو اُن کے لئے جائز ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (یعنی شہر میں نمازِ عید سے پہلے) اس کی قربانی کرلیں (کیونکہ مقامِ ذبح کا اعتبار ہے) ،امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا:میں اس مسئلے میں مقامِ ذبح کو دیکھتاہوں ،نہ کہ ''مذبوح عنہ ‘‘(یعنی صاحبِ قربانی) کو ،''الظّہیریہ‘‘ میں اسی طرح ہے ،امام حسن بن زیاد کا قول اس کے برعکس ہے اور پہلا قول صحیح ہے اور ہم اسی کو بطور مذہب اختیار کرتے ہیں ،''الحاوی للفتاویٰ ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد5،ص:296)‘‘۔
اِن عبارات سے معلوم ہواکہ قربانی کا اصل سبب وقت ہی ہے ،یعنی صاحبِ قربانی کے ایامِ قربانی ہیںاورایامِ قربانی کے تعین کے لئے قربانی کے مقام کا نہیں بلکہ صاحبِ قربانی کا اعتبار ہوگا۔البتہ دن اور رات یانمازعید سے پہلے اوربعد کے لئے قربانی کے مقام کااعتبار ہوگا۔پس خلاصۂ کلام یہ کہ اگریورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ایامِ نحر شروع ہوچکے ہیں،مگر پاکستان میں ابھی ایامِ نحر شروع نہیں ہوئے ،توپاکستان میں اُن کی طرف سے قربانی قبل ازوقت ہونے کی وجہ سے ادانہیں ہوگی اور اگر یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ایامِ نحر گزرچکے ہیں،اگرچہ پاکستان میں ابھی ایامِ نحر باقی ہیں، توپاکستان میں ان کی طرف سے قربانی بعد از وقت ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگی ۔ایامِ نحر گزرنے کے بعد قربانی کے جانورکا صدقہ واجب ہوتاہے ، جانور کا ذبح کرنا صرف ایامِ قربانی کے ساتھ مشروط ہے ۔لہٰذا یورپ ودیگرممالک میں مقیم مسلمانوں کی پاکستان میں قربانی صرف اُس صورت میں جائز ہوگی کہ صاحبِ قربانی جس ملک میں مقیم ہے ،وہاں ابھی ایامِ قربانی جاری ہوں اور جہاں قربانی کی جارہی ہے ،وہاں کے اعتبار سے بھی قربانی کے ایام جاری ہوں اور وقت بھی درست ہو۔اس مسئلہ کوعام کرنا اس لئے ضروری ہے کہ بیرونِ ملک مقیم لوگوں کی قربانی کی عبادت صحیح طورپر اداہو ۔