کشمیر پر قابض بھارتی فوج کی پیلٹ بندوقوں نے کشمیر کی چودہ سالہ بیٹی انشاء کی آنکھوں کا نور چھین لیا ہے اور صرف ایک انشاء ہی نہیں نہ جانے کشمیر کی کتنی انشائیں اور ان کے کم سن بھائی اور ماں باپ بھارتی جبر و استبداد کا شکار ہو کر آج آنکھوں کی بینائی سے محروم ہسپتالوں میں لیٹے ہوئے ہیں۔۔۔ مولوی فضل اﷲ جسے اب بھارت ، امریکہ اور افغانستان نے اپنی پناہ میں رکھا ہوا ہے اسی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں سوات کی ملالہ زخمی ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے مختاراں مائی کی طرح وہ بھی امریکہ سمیت مغرب کے ہر ملک کی آنکھ کا تارا بن گئی لیکن بھارتی درندوں کے ہاتھوں زندگی بھر کیلئے بینائی سے محروم کشمیر کی چودہ سالہ بیٹی انشاء کا کسی کو نام لینا بھی دشوار ہو رہا ہے ۔ ملالہ پر فائر مولوی فضل اﷲ کے دہشت گردوں نے کیا تھا اس لئے اس کا دکھ ''دنیا کی ہر جمہوریت‘‘ نے محسوس کیا لیکن کشمیر کی انشاء چونکہ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت کے درندوں کی پیلٹ فائرنگ سے اندھی ہوئی ہے اس لئے کوئی اس کا ذکر نہیں کر رہا۔۔۔کیا یہ سمجھ لیا جاے کہ اب ظلم و جبر بھی قوموں اور مذہب میں بٹنے لگا ہے؟۔اقوام عالم کے زندہ لوگوں کو یاد ہو گا کہ کسی وقت پاکستان میں حکومت مخالفین کے خلاف مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے تیز آنسو گیس استعمال ہوئی تھی جس پر امریکہ برطانیہ، جاپان اور پورا مغرب چلا اٹھا تھا لیکن آج ان سب کی زبانیں بند ہیں، ہونٹ کچھ کہتے ہوئے کانپ رہے ہیں۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ کشمیر کی چودہ سالہ انشاء کی آنکھیں صرف بھارت نے نہیں بلکہ وائٹ ہائوس نے چھینی ہیں یا برطانیہ کی 10 ڈائوننگ سٹریٹ میں بیٹھنے والوں نے یا پھر یہ ماسکو میں بیٹھے ہوئے کمیونسٹوں کا کارنامہ ہے لیکن اگر انصاف یہ کہتا ہے کہ یہ سب ایک ہیں اور یہ سب چودہ سالہ معصوم کشمیری بیٹی انشاء کے مجرم ہیں اور ان کے ساتھ وہ سب بھی جو نیو یارک میں اقوام متحدہ کے نام سے بنی ہوئی پتھروں کی عمارت میں براجمان ہیں۔ وہ ظلم جو کشمیر، فلسطین ، لیبیااور شام کے مسلمانوں پر ہو وہ جائز ہے اور اگر ہندوستان میں کوئی پھسل کر بھی گر جائے تو وہ دہشت گردی کی انتہا کہلاتاہے۔ کیا امریکہ، برطانیہ، جرمنی ، فرانس اور کینیڈا کی کسی ایک بھی ماں کا چودہ سالہ انشاء کی ڈوبتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر دل نہیں لرزا؟۔ کیا دنیا کے ان تمام ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کے ترانے گانے والے کسی ایک بھی ملک کی کسی ایک بھی بچی کا اپنی ہم عمر کشمیر کی اس بچی آنکھوں کو بھارتی اسلحہ و بارود کی نذر ہوتے دیکھ کر رونے کو دل نہیں چاہا؟۔کیا دنیا اس قدر کٹھورا ور ظالم ہو چکی ہے؟۔ کیاکتوں سے والہانہ پیار کرنے والوں کو دس دس سال عمر کے بچوں اور چودہ سال کی انشاء کے جسموں کے اندردرجنوں کی تعداد میں پیوست ہونے والے بھارتی پیلٹ گنوں کے وہ چھرے ذرا سا بھی درد پیدا نہیں کر رہے؟۔سوڈان کے دو تین بخرے اور انڈو نیشیا میں اپنے مطلب کے مشرقی تیمورکی تخلیق میں ایک بھی لمحہ ضائع نہ کرنے والوں کو70 سال گزر جانے کے بعد بھی بھارتی فوج کی غلامی میں پابند سلاسل کشمیر یوں کی ابتر زندگیوں کو دیکھتے ہوئے نہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آگ لگتی ہے اور نہ ہی ان کشمیری بچوں پراستعمال کی جانے والی پیلٹ گنوں سے زندگی بھر کیلئے آنکھوں کی بینائی سے محروم کئے جانے پر ان کا دل پسیجتا ہے دور کیا جائیں ہمارے ہی ملک کی فرزانہ باری سمیت ماروی سرمد جیسی بہت سی انسانی حقوق کی چیمپئنزکے منہ سے بھارت کے خلاف کوئی ہلکی سی آواز نکلتی ہے اور نہ ہی عورتوں کے حقوق کے نام پر پاکستان میں آسمان سر پر اٹھا لینے والی درجن کے قریب این جی اوز کی زبان کے تالے کھلتے ہیں اور نہ ہی مختاراں مائی کے نام پر آسمان سر پر اٹھالینے والی لبرل خواتین بھارتی فوج اور اس کے سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ہزاروں کشمیری خواتین کی جبری آبرو ریزی پر پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی لاپتہ افراد کے نام پر اپنی سیا سی اور معاشی دکان چمکانے والوں کو مقبوضہ کشمیر میں اب تک کئے جانے والے سینکڑوں لاپتہ افراد کا احساس ہے۔
بارہ سے بیس سال تک کے وہ نوجوان کشمیری لڑکے اور لڑکیاں جو ابھی سکولوں اور ابتدائی کالجوں میں حصول علم میں مصروف تھے انہیں آج کے ہٹلر نے اپنی پیلٹ گنوں کی بوچھاڑ سے اس جرم میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دیکھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ہے کہ وہ بھی مشرقی تیمور کی طرح کے انسانوں کی طرح آزادی کیوں مانگ رہے ہیں ؟۔ کشمیر یوں کی یہ بھول تھی کہ مشرقی تیمور والوں کو چند ماہ میں مسلم ریا ست انڈونیشیا سے آزادی دلا نے والے ان کی مدد کو بھی آئیں گے لیکن ان کشمیریوںکی مدد کو آنے کی بجائے آزادی کی جنگ لڑنے والے ان کشمیری بچوں کے کچلنے کیلئے امریکہ ، روس، اسرائیل اور یورپی یونین بھارت اسلحہ کے ڈھیر دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ ان سے محکوم کشمیریوں کو اچھی طرح تہہ و تیغ کر سکے۔
گزشتہ ساٹھ دنوں سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے با خبر آزاد میڈیا اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ہر ایک ملک سے جو سوال کر رہا ہے وی سوال فرانس کے ٹی وی چینل نے بھی کیا ہے کہ جولائی سے اب تک جس بچے کی آنکھوں کے سامنے اس کا بھائی، باپ اور ماں قتل کر دیئے جائیں جس کے بھائیوں اور دوستوں کو اس کے سامنے آنکھوں کی بصارت سے محروم کر دیا جائے۔ جس کی بہن کو بھارتی فوجی اٹھا کر لے جائیں، اس بچے کے کانوں میں اپنے پیاروں کی چیخیں اور آنکھوں کے سامنے ہر وقت اندھا بھائی اور بہن نظر آ ئیں گے تو ایسے میں ہر وقت غم و غصے کے پردے میں جنم لینے والے انتقام کی آگ میں جلنے والا ہر دس سے پندرہ سال تک کا نوجوان اپنے خالی اور ویران گھروں میں نہیں بلکہ اس لشکر میں شامل ہونے کو ترجیح دے گا جو اس کے بدلے کی پیاس بجھانے کیلئے ہاتھوں میںAK47 اور گرینیڈ تھمائے گا اور بھارت اس دن سے ڈرے جب یہ بچے خوش کش بننا شروع ہو گئے۔فرنسیسی ٹی وی چینل کے نمائندوں نے ہوٹلوں یا بار رومز میں بیٹھ کر نہیں بلکہ وادی کشمیر میں جگہ جگہ لوگوں سے مل کر اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے افسران سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے چینل کے ذریعے بھارت اور دنیا بھر کو خبردار کرتے ہوئے آنکھوں دیکھے احوال بتاتے ہوئے دنیا بھر کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ۔چینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیر میں1992 ء کی مسلح جدو جہد بھی دنیا نے دیکھی ہے لیکن اس وقت کی اور آج کی جدو جہد میں جو بنیادی فرق ہے کہ آج کے کشمیری نوجوان اپنی آنکھوں کے سامنے بھارتی فوج کا اپنی ماں باپ ، بہنوں اور بھائیوں پر ڈھائی جانے والی قیا مت اور بر بریت دیکھ رہے ہیں اور یہ لڑکے اپنے ذہنوں اور دلوں میں بھارتی فوج سے سوائے انتقام کے ایک اٹھتے ہوئے آتش فشاں کے اور کچھ بھی نہیں سوچ رہے ہوں گے۔
پاکستانی قوم کو مبارک ہو کہ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر زندہ کرنے کیلئے پاکستان نے22 اراکین قومی اسمبلی کو مختلف ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس پر نہ جانے کتنے کروڑ روپیہ خرچ ہو گا اور ایسے ہی ایک رکن قومی اسمبلی سے جب ایک نجی چینل پر دوران گفتگو پوچھا گیا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ کون ہے تو اسے محبوبہ مفتی کے نام کا علم ہی نہیں تھا۔