''عیدالاضحی کے دن اونٹ‘ بیل اور بکرے کس لئے بنتے سنورتے ہیں‘‘؟
''ذبح ہونے کے لئے‘‘۔
''اسی دن بیوٹی پارلرز میں خواتین کس لئے بنتی سنورتی ہیں‘‘؟
''ذبح کرنے کے لئے‘‘۔
میں کئی دنوں سے ہر ٹی وی چینل پر بکرے‘ اونٹ‘ بیل اور دنبے مسلسل دیکھ رہا ہوں۔ وہ سارے پروگرام جن میں سیاست دان لفظی کشتیاں لڑ کے ناظرین کو تفریح فراہم کرتے ہیں‘ عید کے دنوں میں وہ شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی کمی بہت محسوس کی جاتی ہے۔ قربانی کے دن صرف چند ہوتے ہیں۔ عید کے تیسرے دن آخری قربانیاں کر دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ سارے ٹیلی ویژن چینلز‘ قربان ہونے والوں کو سال بھر کے لئے فراموش کرکے میدان سیاست دانوں کے حوالے کر دیں گے۔ سچی بات ہے سال بھر ایک دوسرے کو ناخن اور پنجے مار کے‘ صرف سیاست دان ہی لہولہان کر سکتے ہیں۔ قصائیوں کو چھریاں پھیرنے کے لئے صرف تین دن ملتے ہیں۔ یہ سیاست دان ہی ہیں جو پورا سال ایک دوسرے کی گردنوں پر چھریاں پھیرتے رہتے ہیں اور پھر بھی نہیں اکتاتے۔ ہر پارٹی نے ٹی وی کے دنگلوں میں‘ مظاہرہ فن میں کمالات دکھانے کے لئے گفتار کے غازی رکھے ہوئے ہیں۔ بعض پارٹیوں میں ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی ہے اور بعض ایسی ہیں‘ جو چھوٹی ہونے کے باوجود‘ بڑی بڑی پارٹیوں پر چھائی رہتی ہیں۔ ایم کیو ایم محض چند اضلاع کی پارٹی ہے اور وہ بھی دو تین شہروں تک محدود‘ مگر اس کے پاس گفتار کے غازیوں کی تعداد تمام سیاسی پارٹیوں کی اجتماعی قوت سے بھی زیادہ ہے۔
کبھی غور کرکے دیکھئے تو پتہ چلے گا کہ ایم کیو ایم ہر شہر میں نہیں پائی جاتی۔ صرف دو شہر ایسے ہیں جہاں ایم کیو ایم کے منتخب غازی پائے جاتے ہیں‘ لیکن گفتار کے یہ غازی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہماری قومی زبان اردو ہے لیکن اسے صرف چند لاکھ لوگوں نے گھر کی لونڈی بنا کر رکھا ہے۔ سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور بلوچوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اردو ان کے گھر کی لونڈی نہیں‘ جس کی خدمات سے وہ مباحثوں اور مذاکروں میں فائدہ اٹھا سکیں۔آدھا مقابلہ تو یہ زبان کی وجہ سے ہار جاتے ہیں۔ اگر ٹی وی کے ٹاک شوز میں گفتار کے مقابلوں کا جائزہ لیا جائے تو قریباً ہر ٹاک شو میں ایم کیو ایم کا نمائندہ ضرور ملے گا۔ صرف ٹی وی دیکھ کر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی طاقت کا اندازہ کیا جائے تو سب سے بڑی پارٹی ایم کیو ایم نکلے گی۔ اگر اس کے اراکین کی خطیبانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر پارٹیوں کی طاقت کا موازنہ کیا جائے تو ایم کیو ایم سرفہرست ہو گی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کا نمبر آئے گا۔ اس پارٹی نے ابھی تک اپنی پوری خطیبانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ورنہ اس شعبے میں وہ ایم کیو ایم سے بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ عمران خان نے ابھی تک قومی اسمبلی میں زورِ خطابت سے کام نہیں لیا۔ ابتدا میں تو یوں لگتا تھا کہ یا وہ فنِ تقریر سے آشنا نہیں یا ایوان میں کسی دوسرے کو اپنا مدمقابل ہی نہیں سمجھتے جس کے سامنے وہ اپنی قوت گفتار کا مظاہرہ کریں۔ قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن میں انہوں نے پہلی مرتبہ پورے انہماک کے ساتھ تقریر کی تو سارے ماہرین اور مبصرین کا متفقہ فیصلہ تھا کہ پارلیمانی خطابت میں عمران خان سب سے بہتر ہیں۔ کاش! موجودہ پارلیمنٹ کے مباحثوں میں تمام پارٹیوں کے سربراہ حصہ لیتے تو پتہ چل جاتا کہ بڑی بڑی پارٹیوں کے سربراہ‘ جو لیڈر بنے بیٹھے ہیں‘ اگر انہیں پارلیمنٹ میں قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا پڑے تو ہر پاکستانی کا سر جھک جائے گا۔ کہاں ہماری بیس کروڑ کی قوم؟ اور کہاں طاقتِ اظہار کا یہ افلاس؟
عیدالاضحی کے حوالے سے بکروں‘ بیلوں اور اونٹوں کے بعد ٹیلی ویژن پر سب سے زیادہ خواتین دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تو میں شروع میں عرض کر چکا ہوں کہ بکرے اور دنبے اس لئے سجائے جاتے ہیں کہ انہیں ذبح ہونا ہے اور خواتین اس لئے بنتی سنورتی ہیں کہ وہ ذبح کرتی ہیں۔ یہ تمیز روا نہیں رکھی جاتی کہ ذبح ہونے والا کون ہے؟ عموماً یہ اعزاز شوہروں کو حاصل ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ بکرے اور دنبے‘ ذبح ہوتے وقت‘ تڑپتے اور بلبلاتے ہیں لیکن شوہر بڑی شان سے ذبح ہوتے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر قربان ہونے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔ خوشی سے۔ محبت سے۔ بے تابی سے۔ دنبے اور بکرے بن ٹھن کر شان بے نیازی کے ساتھ اس لئے نکلتے ہیں کہ انہیں اپنے انجام کی خبر نہیں ہوتی۔ گلے پہ چھری پھر جاتی ہے لیکن وہ سمجھ نہیں سکتے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس کے برعکس‘ شوہر سب کچھ جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا گزرے گی؟ اس کے باوجود وہ قربان ہونے کے لئے بے تاب رہتے ہیں اور ان سے زیادہ چھری پھیرنے والی بیگمات بے تاب ہوتی ہیں۔
دنبوں اور بکروں کے بعد عیدالاضحی کا سب سے اہم کردار قصائی ہوتا ہے۔ عام دنوں میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسے خود ہی بکرے خرید کر ذبح کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے بعد دکان پر گوشت سجا کر تھوڑا تھوڑا کرکے بیچنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر اسے فی بکرا‘ ہزار‘ ڈیڑھ ہزار روپے نفع ملتا ہے۔ عید کے دن قصائی پاکستان میں سب سے زیادہ کمیاب چیز ہوتی ہے۔ بعض حالات میں تو قصائی کی قدر و قیمت محبوب سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہ نخرے دکھاتا ہے۔ بھاری قیمت وصول کرتا ہے۔ طویل انتظار کراتا ہے۔ صبر کا امتحان لیتا ہے۔ اور جب انتظار کی طاقت باقی نہیں رہتی‘ تب کہیں آ کر اپنی جھلک
دکھلاتا ہے۔ اور بکرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے‘ دس مرتبہ احسان جتاتا ہے کہ وہ کیسی کیسی مشکلات کو عبور کرتا ہوا‘ گاہک کا بکرا ذبح کرنے آیا ہے۔ چند سال پہلے تک قصائی اور بکرا‘ دونوں ہی اپنا اپنا کام وقت پر کیا کرتے تھے۔ بکرے کا کام ذبح ہونا تھا۔ وہ آرام سے اپنی چار ٹانگیں قصائی کے سپرد کرکے‘ اپنا گلا چھری کے آگے رکھ دیتا تھا۔ نہ قربانی کرنے والے کو تکلیف‘ نہ قصائی کو زحمت‘ اور نہ بکرے کو انتظار کی تکلیف۔ سب اپنے اپنے وقت پر اپنا اپنا کام کرتے۔ مولوی حضرات اور فلاحی ادارے‘ بکروں کی کھالیں جمع کرتے اور عیدالاضحی کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاتے۔ لیکن چند سال پہلے سندھ میں ایک سیاسی پارٹی نے کھالوں میں اپنا حصہ لینا شروع کیا اور پھر تمام کھالوں پر قبضہ کر لیا۔ حد یہ ہے کہ جماعت اسلامی جو کھالیں جمع کرنے کی سب سے زیادہ مہارت رکھنے والی جماعت تھی‘ وہ بھی نئی پارٹی یعنی ایم کیو ایم کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی۔ آہستہ آہستہ راز کھلا کہ عیدالاضحی کے تہوار میں سب سے طاقتور چیز تو کھالیں ہیں۔ جو زیادہ کھالیں لے گیا‘ وہ عیدالاضحی کا فاتح ٹھہرا۔
جماعت اسلامی کھالیں جمع کرنے کے ان گنت مقاصد بیان کیا کرتی تھی۔ وہ شفاخانے چلاتی۔ مدارس میں بچوں کو پڑھاتی۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتی۔ یتیموں اور بیوائوں کی دیکھ بھال کرتی۔ لیکن ایم کیو ایم نے تو کمال کر دیا۔ وہ بھی کھالیں جمع کرنے کی وجہ یہی بتاتی کہ اس کی آمدنی سے فلاحی کام کئے جائیں گے۔ لیکن جو فلاحی کام وہ کیا کرتی اس کی تفصیل جان کر تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایدھی کے کارکن اپنے فلاحی کاموں میں مُردوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے مُردے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ انہیں بے کفن چھوڑ دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ ان کے مُردہ جسم بدبو چھوڑ کر آپ کا سکون برباد کر سکتے ہیں۔ شاید اسی خوف سے سارے فلاحی ادارے انہیں جلدی سے کفن دے کر تدفین کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم تو اپنے فلاحی شعبے سے کفن بھی نہیں دیتی۔ محض بوری سے مُردے کو چلتا کر دیتی ہے۔ ایم کیو ایم کے نئے ''بھائی‘‘ فاروق ستار نے اس مرتبہ کھالیں جمع کرنے کا پروگرام بند کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انہیں فلاحی کام بند کرنا پڑیں گے۔ اس سے مُردوں کا بھی بھلا ہو گا۔ انہیں بوری میں بند کرکے دفن ہونے کی بجائے کفن تو نصیب ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ''بھائی‘‘ نئے ''مقتولوں‘‘ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ''بانی بھائی‘‘ کا مقابلہ کرنا فاروق ستار بھائی کے بس کی بات نہیں۔ ''بانی بھائی‘‘ تو اپنے ہدف کا چہرہ دیکھ کر ہی سوچ لیا کرتے تھے کہ اس کے مغز کو کس ترکیب سے بھوننا ہے۔ تازہ تازہ انسانی مغز کو پکانے‘ کھانے کے فن میں ''بانی بھائی‘‘ سے زیادہ مہارت کسی کو حاصل نہیں۔ عید سے پہلا دن ختم ہونے کو ہے۔ کالم بھی ختم ہو رہا ہے۔ قربانی کے بکرے کی آخری رات بھی ختم ہو رہی ہے۔ جو چیز کبھی آئی ہی نہیں‘ وہ کیا ختم ہو گی۔ اگر کبھی ہمارے ملک میں آئی ہوتی تو میں لکھتا کہ پاکستانی جمہوریت بھی رخصت ہونے والی ہے۔ میں بھی رخصت چاہوں گا۔