وہ دن آگیا جس کی آرزو کی تھی، گہری اور پختہ عقیدت کے ساتھ انتظار کیا تھا۔ آپ ذبیحے کی منزل سے گزر چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی سُنّت پر عمل کے نتیجے میں قربانی کا جانور اپنی جان نچھاور کرچکا ہے۔ اب گوشت کی تقسیم کا مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ بھی توجہ اور احتیاط دونوں کا طالب ہے۔ ذرا سی لاپروائی ہماری، آپ کی محنت کو ضائع کرسکتی ہے۔ گوشت کو شرعی طریقے کے مطابق ہی تقسیم کرنا ہے ورنہ حقدار محروم رہ جائیں گے اور ہم، آپ اللہ کے سامنے شرمسار ہوں گے۔
قربانی کے جانور کی آپ نے خوب خاطر تواضع کی۔ اُس کی آرزوؤں، امنگوں کا خیال رکھا۔ ناز اُٹھاتے اُٹھاتے آپ کو اُس سے تھوڑا بہت اُنس بھی ہوگیا ہوگا اور اِس اُنس کا خیال آپ کو اُس وقت ہوا ہوگا جب اُس کے گلے پر چُھری پھیری گئی ہوگی۔ تب آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ اللہ کی راہ میں اسماعیل علیہ السلام کو زمین پر لِٹاکر اُس کے گلے پر چُھری پھیرنے کی تیاری کرتے وقت ابراہیم علیہ السلام پر کیا بیتی ہوگی! بس اِس احساس کو نئی زندگی بخشنے کا نام ہی ذبیحہ ہے۔
قربانی کے جانور کی خریداری سے گوشت کی تقسیم تک ہر مرحلہ صرف اور صرف اِخلاص کا طالب ہے۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی صرف اِس بات میں ہے کہ آپ جو کچھ بھی کریں، صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کریں۔ کسی بھی مرحلے پر ریا کاری، دکھاوا آپ کی نیت اور عمل کا حصہ نہ بنے۔ یہ راہ ایسی ہے کہ ایک طرف پہاڑ ہے اور دوسری طرف کھائی۔ ایک طرف جانا ناممکن سا ہے اور دوسری طرف جانے سے صاف بچنا ہے۔ ذبیحے کے معاملے میں اِخلاص کی راہ پر گامزن رہنا اور دکھاوے سے بچنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنا دامن کانٹوں بھری جھاڑی سے بچائے۔
وقت کا کام بدلنا، بلکہ بدلتے رہنا مگر ہمارے لیے تو وقت ایسا بدلا ہے کہ سبھی کچھ بدل کر گزر گیا ہے۔ معاشرے میں خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لوگ ہر معاملے میں نیت کے اِخلاص کو بالائے طاق رکھ کر صرف دکھاوے پر اُتر آئے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ جو معاملات صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے مختص ہیں اُن میں بھی قدم قدم پر دکھاوا ہے، تصنّع ہے۔ یاروں نے اللہ کی رضا کے حصول کا مقصد ایک طرف ہٹاکر صرف نمائش اور تفریح کے عنصر کو تمام اُمور پر فوقیت دینی کی روش اپنالی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کی سُنّت کو ہم نے محض رسم کی منزل میں اٹکا دیا ہے۔ ہر طرف نمود و نمائش کا پھریرا لہرا رہا ہے۔ دکھاوے کی گڈی بہت اونچی اڑ رہی ہے۔ ایسے میں ان کا پریشان ہونا برحق ہے جو پورے جوشِ ایمانی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی کو بھی مقدم رکھتے ہیں۔ ع
خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بند کِدھر جائیں؟
بیشتر معاملات جب محض نمائش تک محدود ہوکر رہ جائیں اور ہر معاملے پر تصنّع کا ملمّع چڑھا ہوا ہو تو ذہن تھک جاتے ہیں، حوصلے مضمحل ہوجاتے ہیں۔ جب ہر طرف دکھاوے کا چلن ہو تو کوئی سادگی، اصلیت اور بے غرضی کی دکان کیوں کھولے؟
پاکستان کے تناظر میں بھی دیکھیے تو یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں یعنی صدیاں نہیں گزریں بلکہ محض ڈھائی تین عشرے قبل بھی زندگی سادہ و آسان تھی۔ لوگ بیشتر معاملات میں اِخلاص کا اظہار کرتے تھے۔ نِیتوں میں خباثت کا گزر ابھی زیادہ نہ ہوا تھا۔ کسی پر کیے جانے والے احسان کا صِلہ پانے کی توقع زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ اعمال کا مدار نِیتوں پر تھا اور نِیتوں میں کھوٹ نہ تھی ... یا تھی بھی تو برائے نام۔
پھر یہ راتوں رات کیا ہوا؟ جی ہاں، راتوں رات! اقوام کی زندگی میں دو تین عشرے دو تین دن ہی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقوام کے مزاج عشروں، بلکہ صدیوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ پھر ایسی کیا مصیبت پڑگئی تھی کہ ہم دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئے۔ زہے نصیب، ہم یہاں بھی ڈنڈی مار گئے! عجلت پسندی ہزار گل کِھلاتی ہے ... اور ہمارے معاملے میں تو اُس نے ایک نیا اور خاصا وسیع و عریض چمن ہی کِھلادیا ہے!
ہم نے جس طور دیگر بہت سے معاملات میں سادگی اور اِخلاص کو دیس نکالا دیا ہے بالکل اُسی طور دینی امور میں بھی سادگی کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ خالص دینی مواقع یعنی تہواروں میں بھی ہمیں سنجیدگی اور سادگی کَھلنے لگی ہے۔ اور اِس کے نتیجے میں خالص ایمانی معاملات بھی ریا کاری اور تفریح پسندی کی نذر ہوتے جارہے ہیں۔ یقیناً وقت آچکا ہے کہ ہم اپنی اِس روش کا جائزہ لے کر اپنا احتساب کریں اور معاملات کو درست کرنے پر انتہائی سنجیدگی سے متوجہ ہوں۔
اگر آپ نے یکم ذوالحج سے اب تک اپنے ماحول پر ذرا سنجیدگی سے نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کی ہو تو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ لوگ کرتے کچھ ہیں اور دکھانا کچھ اور چاہتے ہیں۔ ہر معاملہ کچھ کا کچھ ہوکر رہ گیا ہے۔ قربانی کے جانور کی خریداری سے گوشت کی تقسیم تک تمام معاملات مجموعی طور پر ذاتی پسند و ناپسند کی غلامی اختیار کرچکے ہیں۔
وقت ایسا بدلا ہے کہ ابھی کل تک جو بہت حد تک سیدھی راہ پر چلتے ہوئے زندگی بسر کر رہے تھے وہی لوگ اللہ کی رضا کے حصول کو بنیادی مقصد قرار دے کر آگے بڑھنے کے بجائے صرف اِس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ صرف اپنی اپنی واہ واہ ہو اور کسی کو بُرا بھی نہ لگے۔ گویا اپنا سُکون عزیز ہے اور لوگوں کا خیال ہے مگر اللہ کی خوشنودی کے بارے میں سوچنے کا وقت میسّر نہیں۔
ایک عشرے کے دوران پاکستان بھر میں قربانی کے جانوروں کے انتخاب، خریداری، اُن کی رُو نمائی اور ذبیحے کے بعد گوشت کی تقسیم تک ہر معاملہ کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ مہنگے سے مہنگا جانور خریدنے کے لیے لوگ یوں بے تاب رہا کرتے ہیں جیسے ایسا نہ کر پانے کی صورت میں جہنّم ان کا مقدر ہو رہے گا۔ بہت سے لوگ اُدھار لے کر بھی قربانی کا جانور لاتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کی سہولت میسّر آنے پر بہت سوں نے اب قربانی کا جانور خریدنے کے لیے سُودِ مرکّب والا قرضہ حاصل کرنے سے بھی دریغ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے!
اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر ... ہم نے ذبیحے کی سُنّت میں تفریح کا عنصر بھی اِس حد تک شامل کردیا ہے کہ بعض اوقات شرمندہ ہو جانا لازم ٹھہرتا ہے۔ لوگ ہر معاملے کی طرح اب قربانی کے زمانے میں بھی تفریح کو دیگر تمام امور پر فوقیت دینے لگے ہیں۔ قربانی کے جانور کی خریداری سے ذبیحے تک جتنے معاملات ہیں وہ تماشے کی سی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ بڑی عمر کے جن افراد سے اِس معاملے میں کسی مثبت کردار کی توقع رکھی جانی چاہیے وہ یا تو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں یا پھر تماشے سے محظوظ ہونے والوں میں شامل ہوکر اُن کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنے لگتے ہیں!
ایک عظیم نبوی سُنّت کو ہم نے ذبیحے کے بعد گوشت کی تقسیم تک محدود کرلیا ہے۔ ہمیں خون اور گوشت کی منزل تک رکے رہنے کی روش ترک کرکے آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں بہت کچھ عزیز ہے اور اِس میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو اللہ کو کسی طور گوارا نہیں۔ آج کا دن ہم سے ہر معاملے میں اللہ کی رضا کے آگے سر بسجود رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنے معمولات کا جائزہ لیں اور وہ سب کچھ اپنانے اور کرنے کی کوشش کریں جو اللہ کو عزیز ہے اور ہر اس عمل سے بچیں جو اللہ کو مطلوب ہے نہ مرغوب۔
آج ہمیں اپنے آپ سے ایک بڑا، وسیع البنیاد عہد کرنا ہے ۔ یہ کہ انا، کھوکھلی مصلحت پسندی، لالچ، حق کی راہ میں متذبذب رہنے کی عادت، ہر فعلِ قبیح کو خیرباد کہنے سے گریز ... سبھی کچھ چھوڑ کر ہم زندگی کو اُس ڈگر پر ڈالیں گے جو اس کائنات اور ہم سمیت تمام جانداروں کا خالق ہے۔ عمل کی پیچیدگی، ہر غیر ضروری اور زیاں کار معاملے کو ترک کرکے صرف اُن معاملات کو اپنانا ہے جو منفعت بخش ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا کے حصول کو بھی ممکن بناتے ہوں۔