ہم اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال کی پارکنگ میں کھڑے تھے۔ آسٹریلیا میں مقیم میرے دوست کی بہن شدید بیمار تھی۔ اس کے گردے ناکارہ ہو چکے تھے۔ تب وہ شخص ہمیں نظر آیا۔ ہسپتال کے اندر باہر آتے جاتے ہم نے کئی بار اسے دیکھا تھا۔ اس کا کوئی عزیز یہاں زیرِ علاج تھا۔ اس نے پوچھا کہ ہماری مریضہ کی طبیعت اب کیسی ہے۔ میں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اس کی حالت میں بہتری نہیں آ سکی۔ اس کے گھر والے اب اسے واپس گوجرانوالہ لے جا رہے ہیں۔ اس پر اس شخص نے یہ کہا: سوات سے آگے فلاں مقام پر ایک دربار ہے۔ وہاں مریضوں کو دم کیا جاتا ہے اور یقینی طور پر وہ شفایاب ہو جاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو اس نے وہاں سے شفایاب ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ مریضہ کے اہلِ خانہ کی آنکھوں میں امید جاگی۔ انہوں نے دربار کا پتہ دریافت کیا۔ جب یہ سب ہو چکا تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اس ہسپتال میں کیا کر رہا ہے۔ اس نے یہ کہا: میری بہن کے گردے میں پتھری ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ اپنی بہن کو اس دربار پر نہیں لے کر گیا۔ اِس پر اُس نے بتایا کہ وہ لے گیا تھا لیکن معلوم نہیں کیوں، اس کی بہن کو وہاں سے شفا نہیں مل سکی؛ حالانکہ وہاں سے سبھی کو شفا مل جاتی ہے۔
یہ کوئی واحد مثال نہیں۔ ہر گھر میں ایک آدھ بندہ آپ کو ایسا مل جائے گا جو کسی سنیاسی حکیم ، جوگی ، یونانی دواخانے وغیرہ کا پتہ آپ کو بتائے گا، جہاں سے ہر مریض لازمی طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ آپ کو ایلوپیتھک یعنی انگریزی ادویات کے نقصانات بتائیں گے اور اپنے آزمودہ بابے سے علاج کرانے پر اصرار کریں گے۔ میرے محدود سے علم اور مشاہدے کے مطابق صرف اور صرف ایلوپیتھی ہی وہ طریقہء علاج ہے، جہاں صرف بیماری کی علامات ہی نہیں دریافت نہیں کی جاتیں بلکہ جدید آلات سے ضروری ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ آپ کے خون اور جسم کے خلیات کے نمونے لیے جاتے ہیں۔ لیبارٹری میں ان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان میں کسی بیماری کے جراثیم موجود ہیں یا نہیں۔ مثلاً اگر آپ کو تیز بخار ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تو آپ کے خون کا نمونہ لیا جائے گا۔ اگر اس میں ملیریا کا انکشاف ہوتا ہے تو پھر اسی پر بس نہیں کیا جائے گا بلکہ ڈینگی کا ٹیسٹ بھی کیا جائے گا کیونکہ ملیریا اور ڈینگی دونوں مچھر کے کاٹنے سے ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں یونانی دواخانوں والے اور دیگر حکما حضرات آپ کی نبض پکڑ کر دیکھیں گے، علامات پوچھیں گے اور دوا آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔ مجھے دو بہنوں کا کیس یاد
ہے۔ دونوں کو ایک دو ماہ کے وقفے سے پیٹ میں شدید درد اٹھتا تھا، جس میں وہ تڑپنے لگتیں۔ جب ایک کے ضروری ٹیسٹ ہوئے تو اس کے پتّے میں ریت (Sludge) تھی۔ جو اپنی جگہ سے حرکت کرتی تو درد اٹھتا۔ دوسری کی چھوٹی آنت میں سوزش تھی۔ یہ تو تھا ایلوپیتھک کا طریقہ کار، جس میں ہر بیماری آلات کی مدد سے، ایکس ریز، سی ٹی سکین، الٹراسائونڈ اور ان دیگر شعاعوں کی مدد سے ڈھونڈی جاتی ہے، جن سے جسم کے اندر دیکھا جا سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ کیمرے سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس کے مقابل اگر دوسرے طریقہ ہائے علاج دیکھیں تو وہاں علامات ایک جیسی ہونے کی دیر ہے، وہی دوا ہر ایک کے ہاتھ میں پکڑا دی جاتی ہے‘ اور یہ تو طے شدہ ہے کہ دو بہنوں کی ایک جیسی علامات ہوں تو بیماری بھی ایک ہی ہے۔
میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایک کمتر ذہنی صلاحیت یا پڑھائی میں کم دل لگانے والا طالبِ علم ایلوپیتھک کے امتحان پاس نہیں کر سکتا۔ ٹھیک ٹھاک محنت کرنا پڑتی ہے، راتوں کو جاگنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس میں نے دیکھا ہے کہ دوسرے طریقوں سے علاج کرنے والوں میں نالائق افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ نیز یہ جسم کی بنیادی سائنس اتنی بھی نہیں سمجھتے، جتنی میرے جیسا بندہ جانتا ہے، جو میڈیکل سائنس کا باقاعدہ طالبِ علم بھی نہیں۔ ایلوپیتھک میں بیماری ڈھونڈنے (Diagnose) کرنے کے لیے جو ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، دوسری میڈیکل سائنسز میں اس کا تصور بھی نہیں۔ مثال کے طور پر اگر معدے سے آپ کا کھانا اور معدے کا تیزاب واپس منہ میں آتا رہتا ہے تو حکیم صاحب یہ کہیں گے کہ آپ کے معدے میں تیزابیت ہے‘ آپ یہ کھائیں اور وہ نہ کھائیں۔ اس کے برعکس اگر آپ ایلوپیتھک میں جائیں تو ڈاکٹر آپ کو یہ بتائے گا: گلے میں ایک خوراک کی نالی ہوتی ہے۔ یہ کھانے کو گلے سے معدے تک لے جاتی ہے۔ یہ نالی اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ اگر آپ الٹا لٹک کر بھی کوئی چیز نگلنا چاہیں تو کششِ ثقل کے اثرات کے باوجود آپ اسے نگل سکتے ہیں۔ یہ نالی خوراک کو معدے میں لے جاتی ہے لیکن اس کے بعد معدے میں کھلنے والا اس کا سوراخ تقریباً بند ہو جاتا ہے تاکہ کھانا واپس خوراک کی نالی سے منہ تک نہ آنے پائے۔ اب اگر کھانا واپس آرہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں کوئی خرابی ہے۔ یا تو معدے کا کچھ حصہ خوراک کی نالی میں گھس آیا ہے۔ یا پھر خوراک کی نالی کے عضلات (Muscles) کمزور ہو گئے ہیں۔ تشخیص کے لیے صرف آپ کے معدے میں کیمرہ ڈال کر ہی نہیں دیکھا جائے گا بلکہ خوراک کی نالی میں سنسر ڈال کر اس کی قوت کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
میرے چہرے کی جلد کبھی کبھی سرخ ہو جاتی ہے۔ پھر اس سے خشکی کے سفید ٹکڑے اترنے لگتے ہیں۔ جلد کے ڈاکٹر نے ایک دوا دی، جو مرہم کی طرح آرام دیتی ہے۔ اگر آپ مہینے میں چار پانچ دن لگا لیں تو مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ یہ جدید انسان کے پچاس ہزار سالہ تجربے کا نتیجہ ہے۔ میں نے صرف اور صرف ایلوپیتھک میں دیکھا ہے کہ ہر بیماری کا ماہر الگ ہوتا ہے۔ مثلاً جلد کا الگ، نظامِ انہضام کا الگ، کینسر کا الگ، ہڈیوں کا الگ۔ اس کے برعکس جب لوگ ایک ایسے بابے یا حکیم کے پاس جاتے ہیں، جو پائوں کے ناخن سے لے کر سر کی جلد اور دماغ کے ٹیومر تک ہر چیز کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس جہالت پر بندہ کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے حوالے سے اور بہت سی ضروری چیزوں پر میں ایک کالم مزید لکھوں گا۔