تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-09-2016

جی نہیں‘ملک اس طرح نہیں چلتے

جی نہیں، ملک اس طرح نہیں چلتے۔ ایک دن پھر دھماکہ ہو گا اور ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار ساری سیاسی قیادت کوڑے دان میں ڈال دی جائے گی۔ آخر ایک پوری قوم کو مستقل طور پر کیسے فریب دیا جا سکتا ہے؟
سب سے اچھا تبصرہ اینکر فریحہ ادریس نے کیا ہے: پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اس کے وابستگان کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کرنی چاہیے‘ جس سے ان کے ادارے پہ حرف آئے۔
یہ ایک باہمی جھگڑا تھا۔جی ٹی روڈ پر چراٹ جاتے ہوئے ایس ایس جی سے وابستہ دونوں کپتانوں ہی نے جارحیت کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ پولیس افسروں نے بھی۔ ان کا ذاتی اسلحہ چھین لیا۔ گاڑی کی چابیاں نکال لیں۔ ایک باقاعدہ تحقیق ہی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ زیادتی کس نے کی۔ یہ بات سمجھ میں نہ آ سکی کہ سوشل میڈیا پر طوفان اٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔ کس طرح یہ طے کر لیا گیا کہ فوجی افسر ہی قصور وار ہیں۔ رات گئے‘ سینئر فوجی افسروں نے مداخلت کی۔ پولیس کے ایک ڈی آئی جی تشریف لائے۔ اٹک قلعے میں وہ مل بیٹھے اور مصالحت ہو گئی۔ تصاویر موجود ہیں کہ اکٹھے انہوں نے چائے پی اور جھگڑا کرنے والے گلے ملے۔ معلوم نہیں‘ اس کے بعد ایف آئی آر کیوں درج کرائی گئی۔ چلئے ہو گئی مگر اسے سول ملٹری تنازعہ کیوں بنا دیا گیا۔ ایک بھارت نواز‘ حکومت نواز میڈیا گروپ کے لوگ اتنے پُرجوش کیوں ہوئے۔ فوجی حلقوں کا کہنا ہے کہ نون لیگ کا میڈیا سیل ملوث ہے۔ آئی ایس پی آر نے بیان جاری کر دیا تھا کہ تحقیقات ہوگی۔ ضابطے کی کارروائی ہو گی۔ اس کے باوجود ہنگامہ آرائی کا مطلب کیا ؟ کوئی معشوق ہے اس پردہِ زنگاری میں؟
طبائع میں ہیجان ہے۔ بظاہر اب یہ ایک ایسی قوم ہے‘ جس کی کوئی سمت اور کوئی منزل نہیں۔ اظہار میں دلیل کی بجائے برہمی کا غلبہ رہتا ہے۔ اپوزیشن کا طرز عمل یہی ہے اور حکومت کا بھی۔ علامہ طاہر القادری ‘ عمران خان نواز شریف کو للکارتے ہیں تو جواب میں طلال چوہدری ‘ رانا ثناء اللہ‘ دانیال عزیز اور پرویز رشید گنوارپن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
رانا صاحب کا بیان دلچسپ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون پہ طاہرالقادری پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں۔ ارے بھائی ‘ ایک حاملہ خاتون سمیت چودہ انسان قتل کر دیئے گئے۔ کیا اس پر احتجاج نہ ہو؟ممکن ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف نے قتل عام کا حکم نہ دیاہو‘ غلطی تو مگر انہی کی ہے۔ منہاج القرآن کے سامنے حفاظتی انتظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے لاہور کی پوری پولیس کیوں چڑھا دی گئی۔ گلّو بٹ ایسے شخص کو کس نے مامور کیا کہ پولیس کی نگرانی میں گاڑیوں کے شیشے توڑتا رہے؟ اس ہولناک سانحے کی تسلی بخش تحقیقات کیوں نہیں ہوتی؟ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ شائع کیوں نہیں کی جاتی؟ شریف خاندان کا خیال اگر یہ ہے کہ اس خونیں باب کو ملک فراموش کردے گا، تومعاف کیجئے گا، وہ ایک عظیم حماقت کا شکار ہیں۔ اس بے دردی سے بہایا جانے والا خون کبھی بھلایا نہیں جاتا اور نتائج پیدا کرکے رہتا ہے۔ ع
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
خدا کی دنیا علت و معلول کی دنیا ہے۔ جلد یا بدیر ہر واقعہ اپنے اثرات جنم دیتا ہے۔2013ء کا دھرنا ناکام ہونے کے بعد، علامہ طاہرالقادری کا سیاسی قد کاٹھ بہت چھوٹا سا رہ گیا تھا۔ اس واقعے نے اس کی پارٹی کو جلا بخشی، وگرنہ ذہنی طور پر وہ دو دنیائوں میں بٹے ہوئے آدمی ہیں۔ موصوف کی ترجیح ان کا ذاتی فروغ ہے۔ چندہ، کھالیں اورحشمت و وجاہت کا حصول۔ طاقت کے نشے میں شہباز شریف حکومت نے انہیں ایک ہوّا بنا دیا۔
اب وہ لوٹ گئے ہیں اور غالباً اس ادراک کے بعد کہ کہیں سے بھی کمک پہنچنے کی کوئی امید نہیں۔ اگست 2014ء کے دھرنے میں بھی وہ مغالطے کا شکار تھے۔ بیچارہ علامہ شیزوفرینیا، خبط عظمت کا شکار ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو اپنی ایک ہم جماعت کو اس نے لکھا تھا کہ، ایک دن وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے پائے کا آدمی بن کر ابھرے گا۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تب سید کا طوطی بولتا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، نوجوانوں کی سب سے موثر تنظیم تھی۔ بعدازاں آیت اللہ خمینی ان کا رول ماڈل ہوگئے۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریاضت اور شعبدہ بازی سے، جذباتی استحصال سے، ملکوں اور معاشروں پر سوار ہوا جا سکتا ہے۔بعض اعلیٰ اخلاقی صفات کے باوجود آخری تجزیے میں امام خمینی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی ناکام رہے۔ خود پسندی کے مارے طاہرالقادری کیونکر کوئی کارنامہ انجام دیتے۔
اسی پہلو کو عمران خان نے نظرانداز کیا۔ اس لئے کہ وہ خود بھی ایک بہت بڑی انا رکھتے ہیں۔ کبھی اس کا ادراک بھی وہ کرلیتے ہیں۔ آخری بار جب تفصیل کے ساتھ، کپتان سے میری بات ہوئی تو یکایک اس نے کہا: اپنی انا کی قربانی دیئے بغیر، آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ بجا ارشاد، اس کے لیے مگر خوشامدیوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ جو آپ کو بتاتے رہتے ہیں کہ آپ دوسروں سے بہت بڑے، بلند اور برگزیدہ ہیں۔ یہ ایک پیہم ریاضت ہے۔ سیدنا عمر ابن خطابؓ کو دیکھا گیا کہ پانی کی مشک اٹھائے، مدینہ کی گلیوں میں بھاگ رہے ہیں۔ پوچھا گیاتوارشاد کیا:میرا نفس مجھے فریب دینے پر آمادہ تھا۔ کپتان خود علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوتا تو نتیجہ شاید مختلف ہوتا۔ دونوں جید آدمی اتنا تو کر نہیں سکتے کہ عام مسافروں کے ساتھ اکانومی کلاس میں سفر کریں۔ رہائش کے لیے انہیں عالی شان مکانات اور سفر کے لیے شاندار گاڑیاں درکار ہیں۔ نفی ٔذات کا کیا سوال۔ 
اپوزیشن کی بے سمتی اور بے حکمتی سے مایوسی عام ہے۔ لوگ باگ سوال کرتے ہیں کہ کیا شریف خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلط ہو چکا۔ آنے والی نسلیں کیا مریم نوازوں اور حمزہ شہبازوں کے رحم و کرم پر ہوں گی؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کی کم کوشی کا مطلب یہ نہیں کہ قدرت کاملہ کے قوانین بدل گئے۔ شریف خاندان منہ کے بل گرے گا اور بہت بری طرح۔ اقتدار اور پیسے کی پوجا کرنے والی طاقت خود شکن ہوا کرتی ہے۔ قرآن کریم قرار دیتا ہے: ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھی ہے۔ نون لیگ بھی ایک دن قبرستان میں جا سوئے گی۔ قصیدہ خواں نئے آقا ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ 2018ء کے الیکشن میں فتح کے شادیانے وہ بجا سکیں گے۔ فرض کیجیے، ایسا ہو بھی جائے تو ان کی شکلیں دیکھ دیکھ کر لوگ اکتا جائیں گے۔ ان کے عزائم اور ان کی پالیسیاں ایسی نہیں کہ ملک ان سے سمجھوتہ کر سکے۔
ملک بھر کے شفاخانے اور سکول ویران پڑے ہیں اور اپنے گھر کے گرد 70کروڑ روپے سے چار دیواری انہوں نے تعمیر کر لی۔ قوم کے جذبات کا احترام اتنا ہے کہ کم از کم چالیس بھارتیوں کو اپنی فیکٹری میں انہوں نے چھپائے رکھا۔ عدالت کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، وزیر اعظم اپنی ایک ذاتی شوگر مل‘اب دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو اللہ نے آنکھیں عطا کی ہوتیں تو معاملے کو عدالت میں لے جاتی۔ آئندہ الیکشن کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے پر وہ تلے ہیں۔ چند روز قبل، تیرہ ارب روپے لاہور کے کمشنر کو منتقل کئے گئے کہ نون لیگ کے نوعدد ارکان قومی اسمبلی کی صوابدید سے خرچ کر دیئے جائیں۔ اگلے سال کے ضمنی بجٹ میں، یہ دکھائی دیں گے۔ ظاہر ہے کہ افراتفری میں خرچ کی گئی رقوم کا ایک حصہ ہڑپ لیا جائے گا۔ معلوم نہیں یہ شریف خاندان کو نصیب ہو گا یا پارلیمنٹ کے معزز ارکان کو۔ ادھر تحریکِ انصاف کا حال یہ ہے کہ وہ رائے ونڈ روڈ پر چند ہزار مظاہرین جمع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو اس کی وسعتوں میں حقیرہو جائیں گے۔ خیر، اس کا حال بعد میں لکھوں گا، اس شاہراہ کا جائزہ لینے کے بعد۔
جی نہیں، ملک اس طرح نہیں چلتے۔ ایک دن پھر دھماکہ ہو گا اور ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار ساری سیاسی قیادت کوڑے دان میں ڈال دی جائے گی۔ آخرایک پوری قوم کو مستقبل طور پر کیسے فریب دیا جا سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved