تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     16-09-2016

سیاسی جماعتوں کی اصلاح

سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدارکا فقدان ہمارے نظام کی ایک دائمی خامی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر مخصوص شخصیات کی اجارہ داری رکھنے والی یہ جماعتیں اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ہرسال الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پتہ چلتا ہے کہ رجسٹرڈ جماعتوں کی اکثریت نے قانون میں درج طریق ِ کار کے مطابق اپنے اکائونٹس جمع نہیں کرائے ہیں۔ اسی طرح منتخب شدہ افراد بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔ امسال بھی صرف آٹھ سیاسی جماعتوں نے ڈیڈلائن، انتیس اگست 2016ء تک اپنے سالانہ گوشوارے جمع کرائے ۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق یہ جماعتیں عوامی مسلم لیگ پاکستان، اسلامی تحریک پاکستان، جماعت اہل حدیث پاکستان، پاکستان مسلم لیگ (جے)، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان تحریک انسانیت، جماعت ِاسلامی پاکستان اور پاکستان وومین مسلم لیگ ہیں۔ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے قانون کی پیروی نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تین سو پچیس پارٹیوں کو قانون کی پاسداری نہ کرنے پر نوٹس بھیجا ہے ۔ کسی چارٹرڈ اکائونٹینٹ سے تصدیق کردہ ا کائونٹس، جس میں ان کی آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع اوراثاثوں کی تفصیل درج ہو، کوجمع نہ کرانا پولیٹیکل پارٹیز آرڈر اینڈرولز 2002 ء کی خلاف ورزی ہے ۔ اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والی جماعت وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے حق سے محروم ہوجاتی ہے ؛ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس قانون کو کبھی بھی نافذ نہیں کیا۔ 
ہماری سرکردہ سیاسی جماعتیںاپنی صفوں میں جمہوریت متعارف کرانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنے منشور کے مطابق داخلی طور پر انتخابات بھی نہیں کراتیں ، حالانکہ قانون اُنہیں ایساکرنے کا پابند کرتا ہے ۔ کوئی سیاسی جماعت بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کی زحمت نہیں کرتی ، اور نہ ہی اپنی آمدنی اور اخراجات اور فنڈز کی تفصیل اور عطیات فراہم کرنے والوں کے ناموں سے آگاہ کرتی ہے ۔ جو چیز صورت ِحال کو مزید تکلیف دہ بنادیتی ہے وہ متعلقہ اداروں، جیسا کہ ای سی پی اور ایف بی آر‘ کا سیاسی جماعتوں کی جانب سے قانون کی پامالی سے اغماض برتنا ہے ۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کا رول نمبر4 کہتا ہے۔۔۔ ''ہر سیاسی جماعت فارم نمبر ایک میں درج طریق ِکار کے مطابق اپنا اکائونٹ بنائے گی۔ اس میں آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع اور اثا ثوں کی تفصیل مالی سال (جولائی تا جون) ختم ہونے سے ساٹھ دن پہلے ایک مستند سٹیٹمنٹ ، جس کی کسی چارٹرڈ اکائونٹینٹ نے تصدیق کی ہو اور جس پر پارٹی قائد کے دستخط موجود ہوں، الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے۔ اس سٹیٹمنٹ کے ہمراہ ایک سرٹیفکیٹ بھی ہو جس میں پارٹی قائد کے دستخط کے ساتھ یہ تصدیق کی گئی ہو کہ اس کی جماعت کسی ایسے ذرائع سے فنڈز نہیں لے گی جسے قانون ممنوع قرار دیتا ہے ‘‘۔
رجسٹر ڈ سیاسی جماعتوں کی اکثریت پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے رول نمبر4 کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اس قاعدے کا مقصد رائے دہندگان، سیاسی کارکنوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو سیاسی جماعتو ں کے مالیاتی امور کی شفافیت سے باخبررکھنا ہوتا ہے، لیکن الیکشن کمیشن اس کے نفاذ کی زحمت نہیں کرتا۔ 1976 Representation of People Act کا سیکشن 42A اور سینیٹ الیکشن ایکٹ 1975ء کا سیکشن 25Aمنتخب شدہ نمائندوں کو پابند کرتے ہیں کہ کہ وہ مالی سال کے ختم ہونے سے قبل اپنے اثاثے اور اُن کی تفصیل جمع کرائیں۔ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں وہ نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ان قوانین کا نفاذ انتہائی غیر تسلی بخش ہے ۔ ہرسال الیکشن کمیشن آف پاکستان کئی ایک ارکان کی رکنیت معطل کرتا ہے ، لیکن جب وہ اپنے اثاثے ظاہر کردیتے ہیں تو تاخیر پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی۔ 
اس کے علاوہ ایسا کوئی میکنزم موجو د نہیں جس کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر کے پاس جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیل کی تصدیق کی جاسکے کہ آیا ارکان اپنی درست آمدن اور اثاثے ظاہر کررہے ہیں ، یا کیا اُن کی بیان کردہ آمدن اُن کے شاہانہ طرز ِ زندگی سے مطابقت رکھتی ہے ؟ نیب نے بھی کبھی قانون سازوںکے اعلان کردہ اثاثوں کی چھان بین کی زحمت نہیں کی کہ اتنی معمولی آمدنی ظاہر کرنے والے اتنی عالیشان زندگی کیونکر بسر کرسکتے ہیں؟ اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں اکثر ارکان اپنی آمدن صرف وہی ظاہر کرتے ہیں جو اُنہیں سرکاری طور پر مشاہرہ ملتا ہے ، حالانکہ اُن کی پرتعیش زندگی، غیر ملکی دورے، مہنگی گاڑیاں، ملازموں کی فوج اور دیگر مہنگے لوازمات کوئی اور ہی کہانی سنارہے ہوتے ہیں۔ 
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتیں۔ ایف بی آر نے کبھی انہیں نوٹس بھیجنے کی زحمت یا جسارت نہیں کی ۔ انڈیا میںانکم ٹیکس ایکٹ 1961ء کے سیکشن 13A کے تحت یہ سیاسی جماعتوں پر ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی پابندی ہے ۔ چیف الیکشن کمیشن آف انڈیاسنٹرل بورڈآف ڈائریکٹ ٹیکسز سے سیاسی جماعتوں کے اکائونٹس کی جانچ کرنے کا کہتا ہے ؛ تاہم پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں ای سی پی، ایف بی آر اور نیب اس اہم معاملے سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہاں پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے کہ وہ اربوں روپے مالیت کا کالا دھن نہایت آسانی سے سفید کرلیں۔ تمام عوامی عہدے رکھنے والوں اور ان کے زیر ِ کفالت افراد‘ جو اس قانون سے استفادہ کرتے ہوئے دولت کے ڈھیر لگاچکے ہیں، کو ریاست کو دھوکہ دینے کی پاداش میں نااہل قرار دیا جانا چاہیے ؛ تاہم ای سی پی، ایف بی آر اور نیب کے پاس ایک بھی ایسا کیس نہیں بھجوایا جاتا‘ حتیٰ کہ پاناما پیپرز کے بعد بھی کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا ۔ ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی قرار دیا جائے تاکہ شہری اُن کے مالیاتی امور کو جانچ سکیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو غیر نفع بخش اداروں کے طور پر چلایا جاتا ہے ، جن کا واحد مقصد عوامی فلاح ہوتی ہے ۔ دنیا میں سیاست سے پیسہ کمانے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ 
ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھاری سرمایہ کاری کرکے مزید نفع کمانے والے بڑے ناموں کے اثر سے بچایا جائے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ عوام اپنے اپنے نظریات اور مقاصد کے مطابق سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیار کریں ۔ ان کے مالی تعاون سے سیاسی جماعتیں ''بھاری بھرکم فنانسر‘‘ کے اثرات سے نکل سکتی ہیں‘ لیکن عوام کی سیاسی، جمہوری اور انتخابی عمل میں موثر شمولیت اُسی وقت ممکن ہوگی جب وہ سیاسی جماعتوںکے مالی امور کی بابت پر اعتماد ہوں گے؛ چنانچہ سیاسی جماعتوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے مالی امور کو شفاف رکھتے ہوئے عوام کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ اس سے نہ صرف وہ اپنی ساکھ بہتر بنائیں گی بلکہ فنانسر کی بلیک میلنگ سے بھی بچ جائیں گی۔ عوامی تعاون آہستہ آہستہ شخصیت پرستی کو کمزور کرکے حقیقی جمہوریت کو فروغ دے گا؛ چنانچہ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی، تو وہ زیادہ معقول اور شفاف رویہ اپنائے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved