تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     16-09-2016

جیوے جیوے بلوچستان

''دیکھیے جی بلوچستان کے مسئلے کی جڑیں اس کے اندر نہیں بلکہ پاکستانی سرحدوں سے باہر ہیں، یہاں بھارت کی 'را‘ اور افغانستان کی این ڈی ایس کے علاوہ اسرائیل کی موساد بھی کام کررہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری ان ایجنسیوں کا ہدف ہے ، وہ بے پناہ وسائل سے لیس ہو کر اس پر پل پڑے ہیں‘‘، وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کہہ رہے تھے اور ہم لاہور سے آئے ہوئے صحافی ان کے سامنے بیٹھے ہمہ تن گوش تھے۔ موساد کے متعلق ان کا دعویٰ سن کر مجھ سے رہا نہ گیا اورپوچھا کہ موساد کی پاکستان سے دشمنی تو ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اب تک آپ واحدشخص ہیں جو موساد کی بلوچستان میں موجودگی کی بات کرتے ہیں، آخر اس کے ملوث ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ وزیراعلیٰ ایک لمحے کو رکے، اپنی بڑی بڑی آنکھیں مجھ پر جمائیں اور پھر بولے ، '' میںاس صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوں اور جو بات کہہ رہا ہوں پوری معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ‘‘۔ یہ فقرہ کہہ کر وزیراعلیٰ نے گفتگو آگے بڑھا دی لیکن مجھے موساد کی پاکستان میں کارروائیوں کی نوعیت جان لینے کی بے چینی لگ گئی۔ بعض اوقات کوئی سوال ذہن میں چپک کے رہ جاتا ہے، وزیراعلیٰ سے مل کر باہر نکلے تومیں ذہن میں چپکا ہوا سوال لے کر بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑکے سر ہوگیا کہ اپنے وزیراعلیٰ کی کہی ہوئی بات کی وضاحت کریں۔ انوارالحق؛ بلوچستان کے بارے میں معلومات کی ایک کان ہیں مگر اس کان میں سے کچھ برآمد کرنے کے لیے کان کن جتنی محنت ہی کرنا پڑتی ہے، لہٰذا میرے سوال کی ضرب سے جو نکلا وہ ایک مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔البتہ جواب اگلے روز کہیں اور سے ملا، معلوم ہوا کہ موساد بلوچستان میں بھارتی 'را‘ کے 
ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔اس اشتراکِ عمل میں بھارتیوں نے زمینی خفیہ کاری کے ذریعے معلومات کا حصول اپنے ذمے لے رکھا ہے اور موساد اس مقصد کے لیے انہیں جدید ترین آلات فراہم کررہی ہے، اس کے علاوہ بھارتی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ بھی اسرائیلی ماہرین ہی کرتے ہیں۔ہمارے انٹیلی جنس ادارے اس گٹھ جوڑ کا نہ صرف سراغ لگا چکے ہیں بلکہ اسے تباہ بھی کرچکے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے پندرہ رو ز قبل جب ایک سیمینار میںاس موضوع پر پہلی دفعہ بات کی تھی تو اس وقت تک یہ کام مکمل ہوچکا تھا مگر یہ اندیشہ بدستور باقی ہے کہ یہ گٹھ جوڑ کوئی نیا گل نہ کھلا دے ۔ ویسے بھی پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے بلوچستان کی حیثیت ایک ایسے عالمی چوک کی سی ہونے والی ہے جہاں پاکستان کا ہر دوست اور دشمن دکان حاصل کرنے کے چکر میں پڑا ہے۔ 
غیر ملکی ایجنسیوں کی بلوچستان میں دلچسپی کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے تاریخ میں گریٹ گیم سے ؛جانی جانے والی برطانیہ اور روس کے درمیان ایک صدی پہلے کی آویزش سے جا ملتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد برطانیہ تو یہاں سے نکل گیا لیکن پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کھیل جاری رکھنا پڑا ۔ سفارت کاری کے مہلک حربوں اور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے خوفناک حملوں سے بلوچستان کو بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن یہ کریڈٹ بہرحال پاکستان کی سیاسی قیادت کو دینا پڑے گا کہ اس نے نہ صرف اسے محفوظ رکھا بلکہ گوادر کو عمان سے خرید کر اس کی حدود میں اضافہ بھی کردیا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں گوادر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اس کے حصول کی کوششیں شروع کردی تھیں اور امریکا کے جیوگرافیکل سروے کو یہ کام سونپا تھا کہ وہ اس علاقے کے متعلق تفصیلی رپورٹ تیار کرکے دے۔انیس سو چون میں محمد علی بوگرہ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں یہ رپورٹ مکمل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ گوادر میں گہرے پانی کی بندرگاہ بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں نے اس رپورٹ کے مندرجات کو اس وقت تک پوشیدہ رکھا جب تک فیروز خان نون نے سلطنتِ عمان سے گوادر کی خریداری کا سودا نہ کرلیا۔ 
بلوچستان کے معاملے میں تلخ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی سازشوں کا مقابلہ تو پاکستان کی سیاسی حکومتیں بخوبی کرتی رہیں اور کامیاب ہوتی رہیں مگر اندرونی سازشوں کے توڑ میں ناکام رہیں۔ عین اس وقت جب فیروز خان نون کی حکومت پاکستان کا جھنڈا گوادر میںبلند کررہی تھی، سکندر مرزا اورجنرل ایوب خان بلوچستان میں شورش پیدا کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے تاکہ اس فساد کو بہانہ بنا کر دستور کی بساط لپیٹی جاسکے۔ خوش قسمتی سے ملک کی ان دو ہمہ مقتدر شخصیات کو کوئی ایسا بلوچ راہنما نہ مل سکا جو اس سازش میں ان کا آلہء کار بنتا اس لیے انہوں نے ملکی سلامتی کے نام پر ملک کو اپنے زیرِ نگیں کرلیا۔ سازشی ٹولے کے سربراہ جنرل ایوب خان نے گیارہ سال حکومت کی مگر گوادر میں ایک آنے کا ترقیاتی کام نہیں کیا ۔معلوم نہیں کہ ان کے سامنے کبھی گوادر کی ترقی کے لیے کوئی فائل پیش کی گئی یا نہیں لیکن یہ طے ہے کہ انہیں گوادر کے بارے میں سیاسی حکومتوں کے پروگرام کے بارے میں بخوبی علم تھا۔ ان کی اس بے عملی میں بیرونی سازش کا کوئی کردارتھا یا نہیں، اس معاملے میں تاریخ خاموش ہے۔ 
تجربہ بتاتا ہے کہ بلوچستان میں بیرونی سازشیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب پاکستان غیر جمہوری قوتوں کے نرغے میں ہوتا ہے۔ایوب خان کے دور میں بھی یہی ہوا، جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی یہی ہوا اورجب جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی یہی ہوا۔ ہماری سرحدوں سے باہر بیٹھے سازشیوں نے جنرل مشرف کے دور میں ہمیشہ کی طرح اندرونی سیاسی اختلافات کو بڑھا یا مگر اقتدار پر قابض جرنیل ان کی سازش سمجھنے کی بجائے خود اس کا شکار ہوگیا۔ اس نے بار بار پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھانے والے نواب اکبر بگٹی کو دیوار سے لگا کر پہلے غدار بنایا اور پھر قتل کر ڈالا۔ نواب بگٹی کے قتل کے بعد دشمنوں کی تو لاٹری نکل آئی ، کئی وہ لوگ جو دستورِ پاکستان کے تحت حلف اٹھا کر صوبائی وزیر اور اسمبلیوں کے رکن رہے تھے، بندوقیں اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ گئے اور اعلانیہ پاکستان کو توڑنے کے نعرے لگانے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں پاکستان کے ہر حامی کو خون میں نہلا دیا گیا۔ وہ جو کسی سے نہیں ڈرتا تھا، اتنا بھی نہ کرسکا کہ کوہلو، تربت اور اواران میں پاکستان کے جھنڈے کو جلنے سے روک سکے۔
پر ویز مشرف کے بعد پاکستان میں جمہوری حکومت بنی تو صدرآصف علی زرداری نے بلوچستان سے معافی مانگ کر اپنا کام شروع کیا۔ انہوں نے جلتے ہوئے بلوچستان میں کوئی آپریشن کرنے کی بجائے اسے از خود ٹھنڈا ہونے دیا ۔ نواز شریف جب وزیراعظم بنے تو اسی پالیسی کے تسلسل میں انہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت بنوا کر بلوچ علیحدگی پسندوں کو سیاسی طور پر تنہا کردیا ۔ مشرف نے اپنے بے حکمتی سے بلوچستان کو جس آگ میں جھونکا تھا ، جمہوریت کے ٹھنڈے پانی سے بجھنے لگی۔کہیںکہیں کوئی اگر کوئی شرارت کرنے والا رہ گیا تھا توایف سی اور مسلح افواج کی سدرن کمان نے اس کی خبر لے لی۔جمہوریت نے یہاں کے لوگوں کو وہ اعتمادلوٹا دیا کہ وہ خود غیر ملکی سازشیوں کی خبر اپنے اداروں تک پہنچانے لگے، حتٰی کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سرگرمیو ں کی معلومات بھی عوامی ذرائع سے آئی ایس آئی کو ملیں اور اس نے اس بھارتی دہشت گرد کو جا دبوچا اور ایک عالمی سازش کو ناکام بنا دیا۔ 
بلوچستان نے بار بارخود آگ میں جل کر ہمیں سبق دیا ہے کہ اس کے پہاڑوں اور بے آب وادیوں میں بیرونی سازش صرف اسی وقت پنپتی ہے جب ہم اسلام آباد میں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوتے ہیں مگر ہم ہربار یہ سبق فراموش کردیتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved