امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ میں ہونے والی ایک حالیہ سماعت کے دوران بحث کا فوکس اس موضوع پر تھا کہ کیا پاکستان کو دی جانے والی امداد معطل کر دی جائے یا نہیں۔ چند دن پہلے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک نمائندے نے اس بات کی تردید کی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اپنی پست ترین سطح پر ہیں۔ ہم سب واشنگٹن میں ہونے والی ایسی گفتگو پہلے بھی سن چکے ہیں، اور بلاشبہ آئندہ بھی سنتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار ہیں، اور ان میں بہتری یا استحکام آنے کے کوئی شواہد دکھائی نہیں دیتے۔
جب امریکی ہم سے قبائلی علاقوں میں پناہ لینے والے انتہا پسندوں کے خلاف مزید کارروائی، ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کر رہے تھے تو ہم نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ اب ہمارا اصرار ہے کہ 'ہم انتہا پسندوں کے خلاف اس جنگ میں پہلے ہی ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں، اسے سراہا جائے‘ تو امریکی ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ گویا تعلقات کی جہت یہ ہے کہ فریقین اپنی اپنی کہتے ہیں لیکن دوسرے کی سننے کو تیار نہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک ایک دوسرے کا اتحادی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت لین دین پر ہی مبنی تھی۔ پاک امریکی تعلقات کے ابتدائی دور میں ہم سوویت مخالف اتحاد کا حصہ بنے تھے۔ اس کے عوض پاکستان کے دفاعی اداروں کو جدید ہتھیار فراہم کیے گئے۔
درحقیقت ہماری فوجی قیادت سرد جنگ اور اس کے نتائج کی بابت زیادہ فکرمند نہ تھی، اسے صرف بھارت کے مقابلے میں عسکری برتری حاصل کرنے کی فکر تھی۔ اور چونکہ بھارت کی فورسز عددی اعتبار سے ہم سے بہت زیادہ تھیں، اس لیے صرف جدید ہتھیار ہی اس عددی برتری کا توڑ کر سکتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک تھری سٹار جنرل نے مجھے بتایا کہ ہم نے سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شرکت کس طرح کی۔ ان جنرل صاحب کے مطابق پچاس کی دہائی کے وسط میں جنرل ایوب خان انقرہ کے دورے پر گئے‘ جہاں اُنہیں امریکہ کے فراہم کردہ جدید ہتھیار دیکھنے کو ملے۔ وہ ہتھیار، خاص طور پر پیٹن ٹینک دیکھ کر ایوب خان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اُن کے ترک ہم منصب نے اُن سے کہا کہ اگر وہ پاکستانی فورسز کے لیے یہ ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ امریکی معاہدوں میں شریک ہو جائیں؛ تاہم ہمارا امریکہ کی طرف جھکائو ایوب خان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے کہیں پہلے کا ہے۔ بانی ٔ پاکستان، محمد علی جناحؒ اور پہلے وزیر اعظم پاکستان، نوابزادہ لیاقت علی خان، دونوں برطانوی سکولوں کے تعلیم یافتہ تھے۔ نہرو کے برطانیہ کے ساتھ روابط کے باوجود کانگرس ایک بائیں بازو کی جماعت تھی‘ جس نے عشروں تک نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔
آج بہت سے افراد کی خواہش ہے کہ کاش، پاکستان مغربی دنیا کے ساتھ معاہدوں میں شریک نہ ہوتا۔ وہ آزادی کے بعد ماسکو کی بجائے واشنگٹن کے دورے کو ترجیح دینے پر وزیر اعظم لیاقت علی خان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں؛ تاہم الزام لگانے والے یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ اُس وقت جنگ (دوسری جنگ عظیم) نے سوویت یونین کو تباہ کر ڈالا تھا اور وہ ہمیں اُس طرح کی امداد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا‘ جیسی ہمیں امریکہ سے ملی۔ واشنگٹن کی طرف سے ملنے والی فوجی اور مالی امداد کا ایک جائزہ چشم کشا ہو گا۔ 1951ء سے لے کر 2011ء کے وسط تک پاکستان کو 31 بلین ڈالر ملے، لیکن اگر ملنے والے ان فنڈز، خاص طور پر جو عسکری مقاصد کے لیے ملے، کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان میں سے بیشتر کو طویل عرصے کے لیے معطل بھی کر دیا گیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد معطل کر دی گئی تھی۔ یہ امداد 1983ء میں اُس وقت بحال ہوئی جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی اور یوں پاکستان واشنگٹن کی آنکھ کا تارا بن گیا۔
بہت سے پاکستانی اس سارے طویل عرصے میں امداد کی معطلی کو دوست کی طرف سے عین وقت پر دغا دینے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ فوج بھی جنگ کے دوران ہونے والی فاش غلطیوں پر امریکہ کو مورد الزام ٹھہراتی تھی کہ اس نے ضرورت کے وقت منہ پھیر لیا‘ لیکن حقیقت، اگر ہم اس کا سامنا کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، یہ تھی کہ امریکی ہتھیار سوویت جارحیت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے فراہم کیے گئے تھے۔ ان کا ہمسائے کے ساتھ جنگ میں استعمال امریکی منشا کے خلاف تھا۔ ہم پر لگنے والی پابندیوں کی ایک اور وجہ ہمارا ایٹمی پروگرام تھا۔ جس دوران ہم کہوٹہ پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی میں لگے ہوئے تھے تو امریکہ نے جان بوجھ کر چشم پوشی کی کیونکہ افغانستان میں سوویت فورسز کے خلاف گوریلا جنگ جاری تھی اور ہم اس جنگ میں اہم ترین کھلاڑی تھے؛ تاہم جب سوویت فورسز انخلا کر گئیں تو امریکہ نے پہلی ہی فرصت میں ہم پر پابندیاں عائد کر دیں‘ حتیٰ کہ اُن ایف سولہ طیاروں کی فراہمی بھی روک لی گئی جن کی ہم ادائیگی کر چکے تھے۔
پاک امریکہ تعلقات کو پیہم برہم کرنے والا تیسرا عامل پاکستان کا انسانی حقوق کا تشویشناک ریکارڈ اور فوجی مداخلتیں تھیں۔ اس کی وجہ سے میڈیا اور جمہوری حلقے پاکستان کو ہدف تنقید بناتے رہے‘ اور حالیہ برسوں میں ہم پر الزام رہا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے خطرے کا تدارک کرنے کے لیے ہم نے امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور حقانی نیٹ ورک کو اپنے قبائلی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے؛ چنانچہ ہمیں بھی امریکہ میں دہرے رویے رکھنے والا ناقابل اعتبار دوست سمجھا جاتا ہے جو اربوں ڈالر تو ڈکار جاتا ہے لیکن امریکہ کے دشمنوں کو اپنی سرزمین پر پناہ فراہم کرتا ہے۔
تاہم اس تاثر میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور ہمارے سکیورٹی خدشات یکساں خطوط پر استوار نہیں ہیں۔ پاکستان کو تشویش ہے کہ امریکہ کے بعد کابل نئی دہلی کے قریب ہوتے ہوئے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر دے گا۔ یقینا نئی دہلی پاکستان کو گھیرے میں لینے کی کوشش میں ہے۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان کو افغانستان میں ایسے طاقتور دھڑوں کی حمایت درکار ہے جو نئی دہلی کو وہاں پائوں نہ جمانے دیں۔ یقینا آپ بمباری کرکے دوست نہیں بنا سکتے ہیں۔ یہ ہیں تو اتار چڑھائو، الزامات اور خدشات اور توقعات کا پورا نہ ہونا، جن کی وجہ سے ہم پاک امریکہ تعلقات کو اس لیول پر دیکھ رہے ہیں‘ لیکن چونکہ ہمارا اور امریکیوں کا سکیورٹی کے علاوہ کوئی مشترکہ مفاد نہیں، اس لیے آنے والے وقت میں بھارت امریکہ تعلقات مضبوط ہوتے جائیں گے، جبکہ پاک امریکہ تعلقات موجودہ سطح سے بھی نیچے چلے جائیں گے۔