تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-09-2016

ابرار احمدکی تازہ نظمیں

یاد گرد
تمہیں دیکھا تھا میں نے... جب مہ و سال تمنا سے نکل کر... تم... یہاں آرام کرنے... کچھ حسابِ عمرِ رفتہ کرنے آئے تھے... کہ جب... آسایشوں کے دن تھے... فرصت سے بھری راتیں... تمہارے پائوں کے نیچے‘ یہاں... خوشبو کا رستہ تھا... جہاں تم‘ اپنے اُجلے پن کو اوڑھے...خوش خرامی کررہے تھے... تمہیں دیکھا تھا میں نے... سامنے... اُس بنچ پر... بے چین‘تنہائی کے جھرمٹ میں... کہیں کچھ سوچتے... نم ناک آنکھوں سے... درختوں کی طرف تم دیکھتے... دیکھے چلے جاتے... بہت حیرت سے میں کہتا کبھی تم سے... کہ اب ایسا بھی کیا آخر...؟سو پھر اک روز تم... اُٹھ کر کہیں کو چل دیے تھے... اپنے آنسو پونچھ کر... تکتے ہوئے... ہم سب کے چہروں کو... ادھر میں آج... اس دہلیز پر بیٹھا ہوا... گنتا ہوں سنگِ میل... رستوں کے کنارے سوچتا ... جانے کدھر کو جا نکلتا ہوں...
فراموشی
مجھے آواز دیتی ہے... کوئی بارش ہے... مرے اطراف میں... اک خامشی‘کانٹے اگاتی ہے... مری ان جلتی آنکھوں میں... جو مجھ کو...آج... یوں حیران ہو کر دیکھتے ہیں... انہیں اب کیا کہوں... تم... ٹھیک روتے تھے...
میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں
میں تمہارے ساتھ...بہت دور تک چل سکتا ہوں...اور زمیں کے ہر اس ٹکڑے پر...اپنا دل بچھا سکتا ہوں... جہاں سے گزرنے کا تم ارادہ کرو... بند دروازے پر...کھڑا رہ سکتا ہوں... تمہاری آہٹ کے نمودار ہو جانے تک...بادلوں کو کھینچ کر...تمہارے دلان تک لا سکتا ہوں... اگر تم چاہو...تمہارا پانی بھر سکتا ہوں... اور کاندھوں پر بٹھا کر پوری دنیا گھما سکتا ہوں...ننگے پائوں انگاروں پر چل سکتا ہوں... ناچ کردکھا سکتا ہوں... خفّت کے بغیر... کہ مجھے ناچنا نہیں آتا... ہنس سکتا ہوں... خوشی کی عدم موجودگی میں بھی... میں تمہارے دکھوں کو بدل سکتا ہوں... اپنی بچی کھچی خوشیوں کے ساتھ... تھام سکتا ہوں... تمہارے آنسوئوں کو... اپنے سینے کے تلاطم میں... تمہاری بے چینی کو... اپنی بے خواب راتوں میں... جگہ دے سکتا ہوں... آرام کر سکتی ہے تمہاری تھکن... میرے وجود کی دکھن کے اندر...میں سن سکتا ہوں... آہنی زنجیروں کی آوازیں... اور شناخت کر سکتا ہوں... تمہاری اذیت کو... بغیر کسی کوشش کے... گزر سکتا ہوں... بے اعتنائی کی کٹھن راتوں... اورلاتعلقی کے دشوار دنوں سے... مسکراتے ہوئے... ویسے... میں تمہاری دیواروں سے ٹکرا کر گر بھی سکتا ہوں... اور تم سے منہ موڑ کر... کسی ویران ٹیلے کی اوٹ میں آنسو بہاتے ہوئے... معدوم بھی ہو سکتا ہوں... تم سے کچھ کہے بغیر... میں... تمہاری خواب گاہ کی مہک میں... سانس روکے...کھڑا رہ سکتا ہوں... تمہاری ریشمی نیند کے ٹوٹ جانے تک...لبریز کر سکتا ہوں‘تمہارے دل کو... خوشی یا پھر تاسّف سے...دے سکتا ہوں... تمہاری دکھتی آنکھوں کو... تعلق اور ٹھنڈک میں لپٹے خواب... اگر تم چاہو... میں تمہارے ہونٹوں میں... رنگ بھر 
سکتا ہوں... تمہاری مٹی پر... پھول کھلا سکتا ہوں... میں جذب کر سکتا ہوں... تمہاری تمکنت کو... اپنی خاکساری میں... چل سکتا ہوں تمہارے ساتھ... جب...دنیا میں... کوئی بھی اس کے لیے تیار نہ ہو... اور ابدی خاموشی چھا جانے سے پہلے... آسمان کے کناروں... اور زمین کی حدوں تک... تمہاری راہ دیکھ سکتا ہوں... اور اگر تم ایسا نہ چاہو...
کسی موہوم کی مہک
دھند ہے‘دھند میں ہاتھوں کا پتا چلتا نہیں... لمس کوئی مرے کاندھے پہ دھرا رہتا ہے... سرگراں پھرتی ہے‘چکراتی ہے... ایک انجان مہک... میرے ہر خواب کی راہداری میں... گنگناہٹ سی کوئی... ساتھ اپنے لیے پھرتی ہے مجھے... کتنی راتوں سے گزرتا ہوں... اس اک رات کی سرشاری میں...جس نے مجھ پر کبھی... اسرار طلب کھولنا ہے... تیر کوئی مرے پہلو میں اترنا ہے کہیں... اک پرندہ ہے جسے... میرے ہونٹوں پہ کبھی بولنا ہے... ایک بادل ہے جسے'میری جلتی ہوئی مٹی پہ... برسنا ہے کہیں... ایک دیوار ہے جس سے میں نے... اپنے اس گھومتے سر کو... کبھی ٹکرانا ہے... تو تکلّم میرا'لکنت میری... تو میری تشنہ لبی میری لگن...تو زمیں پر مرے ہونے کا سبب میرا گمان... تو وہ ایک نغمہ نو... جس کو ترستی ہے سماعت میری... تو وہ لمحہ جو مرے بس میں نہیں... میں جو رنجیدہ ہوں' تو رنج میرا... تو مرے دل کی دکھن' میری تھکن... میں تیری سمت ہما وقت رواں...دھند ہے... دھندمیں رستے کا پتا چلتا نہیں... آنکھ بھرتی ہے' چھلک جاتی ہے... ڈھونڈتا ہوں تجھے اس بے سروسامانی میں... ڈوبتا اور ابھرتا چلا جاتا ہوں... میں دن رات کی طغیانی میں... تو مرے پاس نہیں'دور نہیں... تو وہ معلوم جو معلوم نہیں... اے کہ وہ تو!... کسی موہوم ستارے کی طرح... کہیں موجود اگر ہے بھی... تو موجود نہیں...
سارہ کی پوٹلی
سارہ ہنستی‘بال بناتی... میک اپ کرتی ہے... چھوٹے چھوٹے پیروں میں پمپی پہنے... ادھر اُدھر لہراتی ہے... گرتی‘اٹھتی‘ بھاگتی ہے... اپنے اجلے پن پر...اپنے ہونے پر...اتراتی ہے... ہر پہلی کو سالگرہ کا کیک منگا کر...جھومتی‘ناچتی‘ مشروبات اڑاتی...شور مچاتی ہے...اپنے اچھے‘ پیارے بھائیوں سے لڑتی ہے... رعب جماتی ہے... اور کہیں جاتی ہے... اک پوٹلی میں... اپنی پیاری ہنسی‘ کھلونے...باربی ڈول اور سرخی پائوڈر...کنگھی اور فراک کے ساتھ... مجھے بھی ٹھونس کے لے جاتی ہے!... اب وہ تھوڑی سیانی ہے... سب کچھ جاننے کی خواہش میں... سنجیدہ سی رہتی ہے... سمجھتی ہے‘ سمجھاتی ہے' دور کی کوڑی لاتی ہے... کھلتی ہے مہکاتی ہے... فالتو خرچ پہ کڑھتی ‘ ڈانٹ پلاتی ہے... میرے تھکے ہوئے سر کو سہلاتی... زندہ رہنے پر اکساتی ہے...سارے میں پھیلی رہتی ہے... سینے کے بے پایاں پن میں... ہنسی کی گونج ہے... چاہت سے خالی دنیا کی خاموشی میں... نغمۂ جاں ہے... زندگی بھری محبت کی کومل دھڑکن ہے...
جب اک روز...میں اس سے دور چلا جائوں گا... اس کے دل میں آنسو... روشن آنکھوں میں... کسی ستارے کی صورت میں چمکوں گا... سب سے چھپ کر... وہ گرہوں میں الجھی پوٹلی کھولے گی... اپنے کھوئے ہوئے بچپن کو... میری محبت اور پاگل پن کو ٹٹولے گی... دیر تلک اور دور تلک... ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے گی... جانے کیا کیا سوچے گی...''ابھی ابھی تو یہیں کہیں تھے... اس گدڑی‘اس دل کے اندر...ڈول کی نیلی آنکھوں میں ان کی پرچھائیں پڑتی ہے... دیواروں سے... ابھی تو ان کی باتوں کی آوازسنائی دیتی ہے... ابھی تو ان کی باس آتی ہے... یہاں وہاں سے... میں نے خود اپنی سانسوں سے گرہ لگا کر رکھا تھا... ہوا اڑا کر لے گئی ان کو... یا پھر مجھ سے چھپے ہوئے ہیں... کوئی بتائو... کہاں پہ ڈھونڈوں... جانے کدھر کو نکل گئے ہیں‘‘
آج کا مطلع
اِک اور ہی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved