تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     18-09-2016

کھوکھلے وعدوں کے آٹھ سال

اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے بھر پور کوششیں کر رہی ہے۔وہ عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے ا س عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ ملک کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا دلا کر رہیں گے اور یہ کہ ان کی حکومت کا نصب العین یہی ہے کہ عام آدمی کا معیارِ زندگی بلند کیا جائے ۔ بقول ان کے توانائی، معیشت اور انفراسٹرکچرکے شعبوں میں تمام تر منصوبے عوامی ضروریات کو پیشں نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔وزیر اعظم صاحب، کچھ تو خدا کا خوف کیجئے! اپنے پیش روئوں کی مانند آپ بھی بھی لوگوں کو خالی خولی وعدوں پہ ٹرخا دیتے ہیں۔اس ملک میں لوڈ شیڈنگ کا حالیہ عذاب یکم جنوری سن دو ہزار آٹھ سے شروع ہوا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے اس سال یہ عوام کے لئے نئے سال کا تحفہ تھا۔ ہمارا ملک تاریکی میں گھرگیا تھا، اور عوام کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی تھی۔ وہ وقت ویسے بھی کافی مایوس کن تھا۔چند دن قبل ہی بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا اور ایک مقبول لیڈر کو کھو دینے کے بعد عوام کے اوسان تاحال بحال نہیں ہو پائے تھے۔پھر سردی بھی کڑاکے کی پڑ رہی تھی۔شامیں تاریک، یخ بستہ اور نہایت ملال زدہ معلوم ہوتی تھیں۔ عوام کو لوڈ شیڈنگ کے آغاز اور اوقات سے پیشگی طور پر کیوں باخبر نہیں رکھا گیا؟ اس بارے میں مشرف حکومت نے بہتیرے لولے لنگڑے بہانے گھڑے۔ پھر اپریل 2008ء میں جب پی پی پی کی حکومت آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس حکومت کی اولین ترجیح یہی ہو گی کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر کے عوام کو ریلیف دیا جا ئے۔ تاہم، ہوا کچھ بھی نہیں۔صدر کے طور پر آصف علی زرداری نے جنرل مشرف کی جگہ لی اور انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ توانائی کا بحران جلد از جلد ختم ہو جائے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا!یہاں ہم قارئین کو پی پی پی حکومت میں بجلی و پانی کے وزیر راجہ پرویز اشرف کے مضحکہ خیز وعدے بھی یاد دلانا چاہیں گے۔ ان صاحب کو ویسے بھی بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان آکر بجلی کے پیدواری پلانٹس لگانے کی ترغیب دینے کی بجائے بیرون ممالک میں ذاتی رہائش گاہیں حاصل کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی۔نجی پاورپلانٹس کی تنصیب کے سودوں میں کک بیکس لے کر اس پیسے سے لندن میں پراپرٹی خریدنے کے الزامات ان پہ لگے اور اسی لئے انہیں راجہ رینٹل کا خطاب بھی ملا۔ سپریم کورٹ کے حکم سے جب یوسف رضا گیلانی اپنے عہدے سے برخاست ہوئے تو یہی موصوف ان کی جگہ وزیر اعظم بنا دئیے گئے۔ قسمت نے راجہ اشرف کو ایک موقع دیا تھا کہ عوام کو عمداًبجلی سے محروم کرنے کی جو غلطی انہوں نے کی تھی اس کا کفارہ ادا کر سکیں۔تاہم تبدیلی ان کے کردار میں صرف اسی قدر آئی کہ اب وہ لینے والے کی بجائے دینے والے بن گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ انہیں ''بجلی کا راجہ ‘‘ کہا جانے لگا تھا۔اگر وہ ہماری امیدوں کے مطابق کام کرتے تو کم از کم ان سرمایہ کاروں کو ملک میں واپس وہ لے ہی آتے جنہیں جنرل مشرف نے بھگا دیا ۔ جنرل صاحب نے چند ایک پاور پلانٹس ہتھیانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ہمیں خود ذاتی طور پر ایک ایسے معاملے کی خبر ہے کہ جب ایک سرمایہ کار نے جنرل مشرف کے ہاتھ اپنااچھا خاصا چلتا ہوا پاور پلانٹ بیچنے سے انکار کیا تو ا س کے بعد اپنی جان بچانے کے لئے اسے رات کی تاریکی میں پاکستان سے فرار ہونا پڑا تھا۔ہم ایک اور بزنس مین کو بھی جانتے ہیں جو امریکی سرمایہ کاروں کو لے کر پاکستان آئے تھے اور کاروباری معاہدوں کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اہلکاروں سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ تمام معاملات کے طے ہونے کے بعد جب یہ لوگ امریکہ واپس جانے والے تھے تو آدھی رات کو ہمارے اس وقت کے وزیر ِ داخلہ رحمان ملک ان کے پا س آئے اور ان سے کمیشن کا مطالبہ کر دیا۔ چنانچہ سرمایہ کاروں نے فیصلہ کر لیا کہ بہت ہو گیا ہے اور اب وہ یہاں سے ہمیشہ کے لئے کوچ کر جائیں گے۔ یہ دو مثالیں جو ہم نے بیان کی ہیں یہ اس کرپشن کا محض ایک نمونہ ہے جو جمہوریت سے ورثے کے طور پر ہمیں ملتی ہے۔ہم ایک بار پھر یہی کہیں گے کہ اپنے صدر کی آشیر واد کے ساتھ راجہ پرویز اشرف کے لئے عوام کو گیس اور بجلی کی صور ت میں توانائی کی فراہمی بہت ممکن تھی لیکن اس کے لئے ضروری تھا کہ پہلے وہ اپنی لالچ چھوڑتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے لیڈرز پہلے اپنی جیبوں کو بھرنے اور اپنی اپنی رہائش گاہوں کو مزید آرام دہ بنانے کی ترغیب و تحریک کی مزاحمت کر ہی نہیں سکتے۔وہ اپنے علاقے گوجر خان میں ہیلی پیڈ بنانا چاہتے تھے جو ایک انتہائی غیر معقول بات تھی۔ اپنے داماد کو ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدے پہ تعینات کر کے انہوں نے اپنی اقرباء پروری کا بھی ثبوت دیا تھا۔خوش قسمتی سے نواز لیگ نے اپنی حکومت آتے ہی ان صاحب کو واپس بلا لیا۔ سو پی پی پی کی حکومت توانائی کے بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حکمران اعلیٰ ترین سے لے کر ادنیٰ ترین درجے تک کرپشن سے آلودہ تھے۔آپ کو سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے لئے نواز لیگ کا منشور یاد ہے؟ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ انہوں نے بھی سرفہرست درج کیا تھا۔شریف برادران کا عوام سے یہ وعدہ تھا کہ اگر انہیں ووٹ ملا تو وہ چند ماہ کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ کو ختم کر دیں گے۔ لوگوں نے ان پہ یقین کرتے ہوئے اقتدار میں انہیں ایک اور موقع دے دیا۔آٹھ سالوں سے مختلف حکومتیں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے کھوکھلے وعدے عوام کے ساتھ کرتی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ باقاعدہ تاریخیں بتا کر وعدے کئے جاتے رہے لیکن وہ تاریخیں آ کر گزر بھی گئیں اور کوئی ریلیف کا پہلو عوام کی حدِ نظر میں پھر بھی نہیں آیا۔پی پی پی والے اپنے ذاتی بینک کھاتوں میں زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرنے اور بیرون ممالک میں رہائش گاہیں بنانے کے شوقین تھے لیکن میاں صاحب کو شوق ہے وعدوں کا۔ ایسے وعدے جنہیں وہ کبھی بھی پورا نہیں کر پاتے۔ انہوں نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی باتیں بھی کی تھیں جو کبھی بھی پوری نہیں ہوئیں۔ووٹرز شریف برادران کو اقتدار میں اس امید کے ساتھ لے کر آئے کہ چونکہ وہ خود کاروباری لوگ ہیں اس لئے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے وہ ضرور کچھ کریں گے کیونکہ عوام اور چھوٹے کاروباریوں کی زندگی اسی کی بدولت اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔شریف برادران نے اسٹیل ملز، ائیر لائنز، ریلوے اور بجلی کے شعبوں میں نجکاری اور اشیائے خورونوش کی امدادی قیمتوں کے خاتمے کی پالیسیوں کا پرچار کیا۔ نتیجہ ان کا بھی کچھ نہیں نکلا۔ نواز شریف کی بنائی ہوئی موٹر وے نے لاہور تا اسلام آباد سفر کا دورانیہ دو گھنٹے تک گھٹا دیا ہے۔ کراچی سے پشاور تک براستہ لاہور جو بلٹ ٹرین تجویز کی گئی ہے اس سے بھی کئی ایک مقامی کنٹریکٹر اور بیرونی کمپنیاں مزید مالدار ہو جائیں گے جیسا کہ اس سے پہلے موٹر وے کے ذریعے ہوئی تھیں۔عوام میں سے کم ہی لوگ اس کا ٹکٹ خریدنے کی استطاعت رکھیں گے۔ یہ کہنا بھی ایک مذاق سے کم نہیں کہ نجکاری کی وجہ سے کرپشن میں کمی آئی ہے ۔ اس حکومت نے ٹیکس اصلاحات کے سلسلے میں بھی کوئی کام نہیں کیا۔ ہمارے ملک میں بھی دنیا کے معمول کے مطابق امیر اور مخیر لوگوں کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی کیونکہ ان کا زیادہ تر پیسہ نظر ہی نہیں آتا ۔ ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ کی عالمی ترقیات سے متعلقہ کمیٹی کی ایک تین سالہ پرانی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف سات لاکھ اڑسٹھ ہزار افراد ٹیکس دیتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved