تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-09-2016

عمران خاں کی حالتِ زار اور خانہ پُری

نام نہاد اپوزیشن نے عمران خاں کی جو حالت کر رکھی ہے وہ قابل رحم تو ہے ہی‘ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق‘ میڈیا میں بھی اس غریب کی خوب گت بنائی جا رہی ہے۔ کوئی اس کے طریق کار میں کیڑے ڈال رہا ہے، کوئی اس کے ساتھیوں پر تبرّا بھیجنے میں مصروف ہے تو کوئی اسے غیر سنجیدہ قرار دے کر اس کا مضحکہ اڑا رہا ہے۔ اس پر حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ ایسا ہونا ہی تھا کہ یہ سب کھیل ہی پیسے کا ہے۔ مرحوم بے نظیر بھٹو یہ کہنے کے لیے ریکارڈ پر موجود ہیں کہ اگر ہم پیسہ نہ بنائیں تو مدمقابل کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
چنانچہ یہ پیسہ ہر طرف سے اور ہر ذریعے سے اکٹھا کیا گیا اور اسے اس قدر اور اس طرح پھیلا دیا گیا کہ یہ ہن ہر جگہ برسنے لگا ہے۔ اور کرپشن کے اس پیسے کے خلاف آواز اٹھا کر عمران خاں باقاعدہ کالی بھیڑ قرار پا چکے ہیں کہ اس حکومت میں جن دوستوں کا حلوہ مانڈہ لگا ہوا ہے وہ چاہتے ہیں کہ عمران خاں کو اس جگہ ماریں جہاں پانی نہ ملے۔
سیدھی سی بات ہے کہ جو کرپشن کے خلاف نہیں ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا وہ اس بہتی گنگا میں خود ڈبکیاں لگا رہا ہے۔ یہ نہیں کہ کچھ لوگوں کو عمران خاں کی شکل پسند نہیں ہے ‘ وہ اس لیے اس کا ساتھ نہیں دے رہے جبکہ اصلاً وہ 
کرپشن کے حق میں نہیں ہیں‘ کیونکہ اگر ایسا ہے تو وہ عمران خاں کو ایک طرف کر دیں اور کرپشن کے خلاف اس کی جگہ کسی اور کو کھڑا کر دیں یا خود میدان میں نکل آئیں۔ لیکن ایسا ہو گا کبھی نہیں کہ یہاں پانی سب کا مرتا ہے۔ عمران خاں کے ساتھ اگر کچھ آدمی ایسے ہیں بھی کہ ان پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے تو وہ فرشتے کہاں سے لائے؟ کیا فرشتے اس ملک میں کہیں موجود بھی ہیں؟ اور اگر کچھ لوگ عمران خاں کی صفائی ستھرائی دیکھ کر اور اپنی پارٹی چھوڑ کر اس کے ساتھ آ ہی ملے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے یاطعن و تشنیع سے کام لینے کی؟ کچھ تو خوفِ خدا سے کام لیا جائے!
اگر اس کے طریق کار پر اختلاف ہے تو آپ اگر واقعی کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو خود اس سے مل کر اس کے طریق کار کو درست کیوں نہیں کر دیتے؟ خالی تماشا دیکھنا تو بہت آسان کام ہے اور مین میخ تو ہر کوئی نکال سکتا ہے۔
سو‘ عمران خاں کی کسی ممکنہ شکست پر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ کوئی الیکشن یا کُشتی نہیں لڑ رہا جس میں اسے شکست بھی ہو سکتی ہے۔ وہ تو ایک مہم پر نکلا ہے جس کے خاردار اور دشوار گزار راستوں کا اسے اچھی طرح سے علم بھی ہے۔ اور اگر کرپشن کے خاتمے تک اس کی مہم جاری رہتی ہے تو اس کی شکست کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اور اس سے تو آپ بھی اتفاق کریں گے کہ ملک کا سب سے بڑے ناسور کے خلاف یہ جنگ وہ تنہا لڑ رہا ہے اور آپ کئی طریقوں سے اس کی اور اس بدنصیب ملک کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔
اور اگر عمران خاں کو منظر سے ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو کوئی سر پھرا آگے بڑھ کر اس جھنڈے کو تھام لے گا کیونکہ اگر ملک کی تمام تر کلیدی شخصیات کرپشن کی دہائی دے رہی ہیں تو یہ معاملہ ختم ہو سکتا ہے نہ ٹھنڈا کیونکہ لوگ بھی اب اچھی طرح سے جان چکے ہیں اور جس کے لیے انہیں عمران خاں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ یہ سرطان خود ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے اس لیے‘ یہ بات اگر چل نکلی ہے تو کسی منطقی انجام کو پہنچے بغیر رُک نہیں سکتی۔ اس کے آگے بند باندھنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی‘ وہ ٹوٹ کر رہے گا۔
عوام یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ یہ انہی کا قطرہ قطرہ نچوڑا ہوا خون ہے جس سے بیرون ملک بھڑولے بھرے جا رہے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ روز بروز غریب سے غریب تر اور حکمران امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور نت نئے ٹیکس لگا کر ان کا کچومر الگ نکالا جا رہا ہے اور یہ بھی کہ ان کی زندگی اس قدر مشکل نہ ہوتی اگر ان کے ساتھ یہ واردات نہ کی گئی ہوتی وہ اس سے بے خبر نہیں ہیں کہ ان کے پیدا ہونے والے ہر بچے تک کو لاکھوں کا مقروض کیا جا رہا ہے اور دو وقت کی رو ٹی کے لیے انہیں اپنے بچوں تک کو فروخت کرنا پڑ رہا ہے اور یہ کہ اس کھلی ڈکیتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے ان کے سروں پر آئی ہوئی مصیبتیں ٹل سکتی ہیں۔ سو‘ اللہ میاں کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔
اور‘اب خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل:
اِس گلستاں سے گزرنے کے لیے
کب سے تیار ہوں مرنے کے لیے
ایک سیڑھی مجھے درکار ہے بس
آسمانوں سے اُترنے کے لیے
پاٹ آیا ہوں سمندر کتنے
پائوں اس خاک پہ دھرنے کے لیے
تُند اک موج ہوا ہے تو بھی
میں بھی یکسو ہوں بکھرنے کے لیے
دیکھ کر تُجھ کو چلا جائوں گا
نہیں آیا ہوں ٹھہرنے کے لیے
کوئی سمجھائے اُنہیں بھی جا کر
کام ہوتے نہیں کرنے کے لیے
جو سُنا ہی نہیں‘ کرنے کو بیاں
جو کیا ہی نہیں‘ بھرنے کے لیے
مطمئن رہیے کہ اِس طرح ابھی
اور بگڑوں گا سُدھرنے کے لیے
سبزہ گاہ اتنی بڑی ہے یہ‘ظفرؔ
کہیں چُگنے‘ کہیں چرنے کے لیے 
آج کا مطلع
اِسی جہاں میں ہوں لیکن جہاں نہیں میرا
زمیں کسی کی ہے، اور آسماں نہیں میرا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved