تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     18-09-2016

خوشی اور غم

انسان کی زندگی اتار چڑھاؤ اور نشیب وفراز سے عبارت ہے۔کبھی زندگی میں خوشی اور کبھی غم آتے ہیں۔ عیدین کے تہوار، شادی بیاہ کی تقریبات، کسی امتحان میں کامیاب ہونا یا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اولاد کا ملنا یہ تمام کے تمام خوشی کے مواقع ہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی عزیز کی جدائی، والدین کا انتقال، کاروباری اعتبار سے کسی بحران کا شکار ہو جانا یا اچانک زندگی میں کسی بیماری یا پریشانی کا آجانا یہ تمام کے تمام غم کے لمحات ہوتے ہیں۔ انسان خوشی اور غـم کے دوران اکثر وبیشتر افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے اور بہت سے ایسے اعمال کوکرنا شروع کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ نہیں ہوتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے کاموں کے کرنے سے روکا ہوتا ہے۔ 
دنیا کی زندگی درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔انسان کو اس بات کو اپنے ذہن نشین کرنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی خوشی اور غم کے ایام کو اس کی زندگی میں لانے والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 140 میں ارشاد فرمایا ''ہم ان دنوںکو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ یعنی زندگی میں آنے والی تمام تکالیف اور خوشیاںدرحقیقت مالک کائنات کی طرف سے ہوتی ہیں۔ خوشی اور غم کے موقع پر اپنے نفس کی پیروی کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرنا ہی حقیقی کامیابی ہے ۔ اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خوشی کے موقع پر کیے جانے والے ناپسندیدہ اعمال درجہ ذیل ہیں:
1۔ غرور اور تکبر 2۔ اسراف و تبذیر 3۔ لغویات کا ارتکاب 4۔ فحش گوئی اور زبان کا غلط استعمال 5۔ فواحش اور منکرات کا ارتکاب 
یہ تمام اعمال اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا سبب بنتے ہیں اور قرآن وسنت میں ان کی زبردست مذمت کی گئی ہے۔ غرور اور گھمنڈ کے ارتکاب کی وجہ سے ابلیس اللہ تبارک وتعالیٰ کی لعنتوں کانشانہ بنا اور اپنے تمام اعمال کو ضائع کر بیٹھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں سے متانت اور وقار کے طلب گار ہیں۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 37 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''اور زمین میں اکڑ کر نہ چل‘ کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کوپہنچ سکتا ہے۔‘‘ 
مال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے اور اس کو غلط طریقے سے خرچ کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر26اور 27میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اوررشتہ داروں ،مسکینوں اور مسافروں کا حق اداکرتے رہو اور اسراف او ربے جا خرچ سے بچو۔بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا جو جنت الفردوس کے وارث ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر3 میں فردوس کے وارثوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ‘‘احادیث مبارکہ میں بھی لغویات سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ''آدمی کے اسلام کی خوبی ہے کہ ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے کام کی نہیں ہیں۔ ‘‘ خوشی کے موقع پر زبان کو بے لگام چھوڑ دینا بھی کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ غیبت کرنے، بہتان طرازی کرنے اور لذت حاصل کرنے کے لیے فحش گوئی کر نے کو شریعت اسلامیہ میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ سنن ترمذی ہی میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجات کس چیز میں ہے؟ آپ نے فرمایااپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھ اور اپنے لیے اپنے گھر کو کافی سمجھ اور اپنی غلطیوں پر رویا کر۔‘‘یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ انسان جب اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے تو درحقیقت وہ نجات کی بجائے تباہی کے راستے پر چل رہا ہوتا ہے۔ 
اسلام نے فواحش اور منکرات کی ہر اعتبار سے مذمت کی ہے۔ انسان کو ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کی پاسداری کرنی 
چاہیے۔ سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ سے اس طرح حیا کرو جس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول ہم اللہ کا حیا کرتے ہیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا یہ مراد نہیں ہے ۔اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تو اپنے سر اور اس میں جوکچھ ہے اس کی حفاظت کر‘ پیٹ اور جس چیز کو یہ جمع کرتا ہے اس کی حفاظت کر اور موت اور موت کے بعد والے حالات کو یاد رکھ۔ 
قرآن مجید کی سورہ نور میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان مردوں کو اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھنے اور پاکدامنی کے تحفظ کا حکم دیا۔ اسی طرح مومنہ عورتوں کو اپنی نگاہوں کو جھکانے اور پاکدامنی کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ پردے داری کا التزام کرنے کا بھی حکم دیا۔ ان تمام کاموں کو شادی بیاہ کی تقریبات، عیدین کے تہوار اوردیگر خوشی کے موقعوں پر یاد رکھنا چاہیے اور انسان کو کسی بھی حالت میں اپنی حقیقت ، اصلیت اور حیثیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیدا کیا اور وہ بارگاہ الٰہی میں اپنے اعمال کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جب ہم غم اور تکلیف کے موقع پر ہونے والی کیفیات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پریشانی کے موقع پر کیا 
جانے والے ایک برا عمل بے صبری کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے۔ اسی پریشانی کے موقع پرکیا جانے والا دوسرا برا عمل تقدیر اور اللہ 
تبارک وتعالیٰ کے فیصلوں پر گلہ شکوہ کرنا ہوتا ہے۔ پریشانی کے موقع پر کیا جانے والاایک اور برا عمل مایوسی اور ناامیدی کا اظہار کرنا ہے۔ انسان کو اس بات کو ہمہ وقت
اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پریشانی اور تکلیف کے ایام درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی 
طرف سے آتے ہیںاور اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو دور کرنے پرپوری طرح قادر ہے۔ صبر کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر155 اور 156 میں ارشاد فرمایا ''اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کیا کریں گے کچھ خوف سے ، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے کہ جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اورہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ‘‘ اسی سورہ کی آیت نمبر157 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںکہ '' ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اوریہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘انسان کو پریشانی کے دوران اس حقیقت کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ انسان کی زندگی میں آتا ہے در حقیقت وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور انسان کی زندگی میں آنے والے غم اور پریشانیاں در حقیقت پہلے ہی سے مکتوب ہوتے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 51میںارشاد فرماتے ہیں کہ'' کہہ دیجئے کہ ہمیں کوئی گزند پہنچ نہیں سکتا سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ رکھا ہے وہ ہمارا کارسازہے، مومنوں کو تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘کئی مرتبہ انسان کو مصیبت کے دوران مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور وہ بعض اوقات رحمت الٰہی سے نا امید بھی ہو جاتا ہے۔ یہی نا امیدی کئی مرتبہ انسان کو کفر تک بھی لے جاتی ہے۔ حضرت یعقوب ؑکو، حضرت یوسف ؑاور جناب بنیامین ؑکی جدائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے بالکل بھی مایوس نہ ہوئے اور آپ نے جہاں پر یہ ارشاد فرمایا کہ میں اپنی پریشانی اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں۔ وہیں پر آپ نے اپنے بچوں کو جو نصیحت کی اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یوسف کی آیت نمبر187 میں یوں بیان فرمایا '' میرے بچو! تم جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقینا اپنے رب سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں۔‘‘ چنانچہ انسان کو غم کے موقع پر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اور اچھے مستقبل کے حوالے سے اپنی امیدوں کو اللہ سے وابستہ کیے رکھنا چاہیے۔
خوشی اور غم کے موقع اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچ کر انسان دنیا وآخرت کی کامیابی اورکامرانیوں کو سمیٹ سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں خوشی اور غم کے ایام کو اپنی رضا کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved