تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     19-09-2016

بھارت کے دو ہمسائے۔۔۔۔نئی پہل

نیپال اور افغانستان کے لیڈر بھارت کے دورے پر ہیں۔ یہ دونوں بھارت کے ہمسایہ ملک ہیں۔ دونوں زمین سے گھرے ہوئے ہیں۔ نیپال کے وزیراعظم پشپ کمل دہل پرچنڈ اور افغانستان کے صدراشرف غنی بھارت اس لیے آئے کہ انہوں نے دوسرے طور طریقے آزما کر دیکھ لیے ہیں۔ پرچنڈ نے مائو وادی ہونے کے ناطے اپنے گزشتہ کام کاج کے دور میں چین کے ساتھ دوستانہ مزاج بھِڑانے کی کافی کوششیں کی تھیں۔ اسی طرح انہوں نے نیپال کے چیف آف آرمی کے ساتھ بھی مٹھ بھیڑ کر لی تھی۔ وہ تب بھارت آئے تھے لیکن بھارت نیپال تعلقات کو کوئی نئی اونچائی نہیں دے پائے تھے ۔ ان سے پہلے وزیراعظم کے پی اولی نے چین کے ساتھ ضرورت سے زیادہ گہرائی بڑھانے کی کوشش کی ۔ آئین میں مدھیسیوں کے خلاف کوئی مطمئن کرنے والا حل انہوں نے نہیں نکالا۔ بھارت نیپال تعلقات میں حد بندی کے سبب نئے تنائوپیدا ہو گئے۔ نیپال زلزلے میں بھارت کے ذریعے کی گئی زبردست مدد کی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔ مائو وادیوں کی فکر بڑھتی گئی۔ اس ساری حقیقت میں پرچنڈ اب ایک نئی صورت میں ابھرے ہیں۔ انہوں نے اپنی پچھلی غلطیوں کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے مودی کی تعریف کی ہے اور بھارت کے ساتھ نیپال کے تعلقات کوجائز اہمیت دی ہے۔ پرچنڈ کے اس دورہِ بھارت کو اتنا بامعنی مانا جا رہا ہے کہ چین کو فکر ہونے لگی ہے لیکن نیپال کا کوئی بھی لیڈر بھارت کا مذاق نہیں اڑا سکتا۔
اب یہی بات اشرف غنی کو بھی سمجھ میں آ گئی ہے۔ دو برس پہلے اقتدار میں آتے ہی وہ پاکستان کی جانب لپکے تھے۔ وہ پاکستانی فوج کو پٹانے کی خاطر خود راولپنڈی بھی چلے گئے۔کوئی غیر ملکی صدر کسی ملک کے فوجی سربراہ سے ملنے جائے ‘ یہ عجوبہ ہی ہے لیکن اس سب کے باوجود غنی ناامید ہو گئے۔ طالبان سے ان کی بات پروان نہیں چڑھی۔ دہشت گردی کی وارداتیں جوں کی توں ہو رہی ہیں۔ پاکستان، افغان تاجروں کو اپنا مال بھارت لے جانے دیتا ہے لیکن اتنے اڑنگے لگاتا ہے کہ غنی کو کہنا پڑا کہ وہ پاکستانی مال کو وسطی ایشیا نہیں جانے دیںگے،افغانستان کے راستے روک دیںگے۔ ابھی پاکستان کی طرف سے بیان آیا ہے، غنی اب یہ بھی چاہتے ہیں کہ جرنج دلارام راستہ کھلے اور چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے بھارت افغان تجارت بڑھے۔ اس سے بھی زیادہ مدد انہیں فوج میں چاہیے تاکہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کر سکیں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئر نگ کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔کشمیر ‘بلوچستان اور گلگت کے معاملے اتنا رنگ پکڑ رہے ہیں کہ مستقبل میں بھارت پاک تعلقات میں بہتری کی گنجائش کم ہی دِکھتی ہے۔
انگریزی مہارانی، ہندی نوکرانی
بھارت سرکار کو یوم ہندی مناتے مناتے 66 برس ہو گئے لیکن کوئی وزیر اعظم ہمیں بتائے کہ سرکاری کام کاج یا عوامی زندگی میں ہندی کیا 6 انچ بھی آگے بڑھی؟اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے لیڈر نوکر شاہوںکے نوکر ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں۔ انتخابات کے دوران وہ نوکروں سے بھی زیادہ دُم ہلاتے ہیں لیکن وہ جوں ہی چنائو جیت کر کرسی میں بیٹھتے ہیں نوکرشاہوںکی نوکری بچانے لگتے ہیں۔ بھارت کے نوکر شاہ ہمارے دائم حکمران ہیں۔ ان کی زبان انگریزی ہے۔ ملک کے قانون انگریزی میں بنتے ہیں‘ عدالتیں اپنے فیصلے انگریزی میں دیتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی کام انگریزی میں ہوتے ہیں‘ انگریزی کے بغیر آپ کو کوئی اچھی نوکری نہیںمل سکتی۔کیا ہم اپنے لیڈروں اور سرکار سے توقع رکھیں کہ یوم ہندی پر انہیں کچھ شرم آئے گی اور انگریزی کے سرعام استعمال پر وہ روک لگائیں گے؟
یوم ہندی کوکامیاب بنانے کے لیے انگریزی کے عام استعمال پر پابندی کیوں ہے؟ اس لیے نہیں کہ ہمیں انگریزی سے نفرت ہے۔کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو کسی بیرونی زبان یا انگریزی سے نفرت کرے گا۔کوئی اپنی مرضی سے کتنی بھی غیر ملکی زبانیں پڑھیں‘ اتنا ہی اچھا! میں نے انگریزی کے علاوہ روسی‘ جرمن اور فارسی پڑھی لیکن اپنی بین الاقوامی سیاست کی پی ایچ ڈی کی تحقیقی کتاب ہندی میں لکھی۔ پچاس برس پہلے ملک میں ہنگامہ ہو گیا۔ پارلیمنٹ ٹھپ ہو گئی ‘ کیونکہ دماغی غلامی کا ماحول پھیلا ہوا تھا۔ آج بھی وہی حال ہے۔ اس حال کو بدلیں کیسے؟
یوم ہندی کو سارا ملک انگریزی ہٹائو یوم کے طور پر منائے! انگریزی مٹائو نہیں صرف ہٹائو! انگریزی کا لازمی ہونا ہر جگہ سے ہٹائیں۔ ان سب سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی منظوری ختم کی جائے جو انگریزی کے ذریعے کوئی بھی مضمون پڑھاتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں جو بھی انگریزی بولے‘ اسے کم ازکم چھ ماہ کے لیے معطل کیا جائے۔ سارے قانون ہندی اور ملکی زبانوں میں بنیں اور عدالتی بحث اور فیصلے بھی انہی زبانوں میں ہوں۔ انگریزی کے ٹی وی چینل اور انگریزی اخباروں پر پابندی ہو۔ غیر ملکیوں کے لیے صرف ایک چینل اور ایک اخبار غیر ملکی زبان میں ہو سکتا ہے۔کسی بھی نوکری کے لیے انگریزی لازمی نہ ہو۔ ہر یونیورسٹی میں دنیا کی خاص زبانوں کو سکھانے کا بندوبست ہو تاکہ ہمارے لوگ سفارتی تعلقات ‘ بیرونی تجارت اور تحقیق کے معاملے میں قابل ہوں۔ ملک کا ہر باشندہ عزم کرے کہ وہ اپنے دستخط اپنی زبان یا ہندی میں کرے گا۔ ہم اپنے روزمرہ کے کام کاج ہندی میںکریں۔ بھارت میں جب تک انگریزی کا بول بالا رہے گا یعنی انگریزی مہارانی بنی رہے گی تب تک آپ کی ہندی نوکرانی بنی رہے گی ۔ 
اکھلیش کی شان میں چار چاند 
اتر پردیش کی سیاست کے بارے میں لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ کا ردعمل کیا ہے؟ کون جیت رہا ہے اور کو ن ہار رہا ہے؟ کسے فائدہ ہوگا اور کسے نقصان؟ کیا سماج وادی پارٹی اپنے کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے؟
اگر واقعات کی گہرائی میں نہ جائیں اور سطحی نظر سے دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ اتر پردیش میں چاچا بھتیجے کی لڑائی سماج وادی پارٹی پر جیت کا گرہن لگا سکتی ہے، لیکن تھوڑا اورگہرائی سے سوچیں تو لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ اکھلیش اور ان کے چاچا شوپال یادو کے بیچ چل رہے دنگل سے آخر کار سپا کا ہی فائدہ ہوگا۔کیسے ہوگا؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے گزشتہ تین چار دنوں سے ٹی وی چینلوں اور اخباروں پر اکھلیش اور شوپال چھائے ہوئے ہیں۔ ملائم سنگھ کے الگ الگ پوزیشن والے جتنے بھی فوٹو دکھائی پڑے ہیں ‘گزشتہ تین چار برسوں میں نہیں دکھے۔ صوبائی لیڈروںکو بھارت میں زبردست پرچار مل رہا ہے۔ اپنے ملک کے سب سے بڑے وزیر پرچار نریندر مودی کے لیے یہ بے چینی کا سبب ہو سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اتر پردیش کا چنائو اگر سپا جیتے گی تو وہ صرف اکھلیش کے کارناموں کی وجہ سے جیتے گی۔ اکھلیش پر نہ ہی کوئی بدعنوانی کا الزام لگا‘نہ ہی اکڑ پن کا ‘نہ ہی بے ادبی کا اور نہ ہی اس کی غلط بیانی کا! اس سارے دنگل سے اکھلیش یعنی وزیر اعلیٰ کی شان میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ سرکار کے چیف سیکرٹری کو برخاست کرنا ‘شوپال سے ذمہ داری چھین لینا یعنی اپنے والی پر اتر آنا اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ اکھلیش نے ملک کو ایک ہی جھٹکے میں بتا دیا کہ اتر پردیش کا وزیراعلیٰ کون ہے۔ اس وقت دیگر پارٹیوں کے پاس اکھلیش جیسا صاف کردار کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ جہاں تک یادو خاندان میں اندرونی تنازع کاسوال ہے‘ یہ تو یادو خاندان کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن یہاں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو سپریم ہیں۔ شوپال یادو چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے سبھی باتیں مانیںگے۔کوئی ضروری نہیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے ہر لفظ کی فرمانبرداری کرے اور سپا کو جیت دلوانے میں جی جان سے لگ جائے۔ اس دنگل میں اکھلیش چاہے فاتح کے طور پر ابھر رہے ہوں ‘لیکن اگر وہ اپنے چاچا کی جانب با ادب طریقے اور ذاتی طور پر کوشش کریں تو اتر پردیش کے عوام کے دل کو چھو لینے میں انہیں خاص کامیاب ملے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved