گزشتہ پینتیس سال سے مفتیٔ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ خطبۂ حج دے رہے تھے ،اس سال علالت اور ضُعف کی وجہ سے وہ یہ اعزاز حاصل نہ کرسکے ۔اس سال ابتدا میں اُن کی جگہ شیخ صالح بن حُمید کا نام آیا ،لیکن پھر کسی وجہ سے تبدیلی کردی گئی اورآخرِ کارشیخ عبدالرحمن السُدیس نے خطبۂ حج دیااور یومِ عرفہ کومسجد نمرہ میں امامت کے فرائض انجام دیے۔اُن کے بیان کے مطابق سعودی عرب کے حجاج کے علاوہ اِس سال تقریباً دو سو ممالک کے پندرہ لاکھ حُجّاجِ کرام نے فریضۂ حج ادا کیا ۔
خطبۂ حج دراصل سیدالمرسلین خاتم النبیین سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کے خطبۂ حجۃ الوداع کا توارُث وتسلسل ہے ،جو آپ ﷺ نے آج سے 1426سال پہلے دس ہجری کومیدانِ عرفات میں اپنی ناقۂ مبارکہ قُصویٰ پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا تھا اور آپ کے سامنے حاضر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی ۔یہ خطبہ معراج النبی ﷺ کے واقعے کے طرح حدیثِ مبارک کی کسی ایک کتاب میں پوری ترتیب کے ساتھ مَروی( Narrated) نہیں ہے ،بلکہ یہ متفرق طور پرکئی کتبِ احادیث میں مذکور ہے ۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخِ اسلامی کے سربراہ وسابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس ڈاکٹر نثار احمد نے بڑی محنت سے حوالہ جات کے ساتھ اس خطبے کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے اور یہ کاوش بلاشبہ قابلِ تحسین ہے ۔در اصل یہ خطبات رسول اللہ ﷺ نے متفرق مقامات اور مواقع پر ارشاد فرمائے تھے ۔
ملّتِ ابراہیمی کے توارُث کے طور پر چار مہینے حُرمت والے چلے آرہے تھے ،ان مہینوں میں جنگ وجدال ممنوع تھا ، ان کا ذکر سورۂ توبہ آیت:36میں موجود ہے ۔لیکن کفارِ مکہ اپنی من پسند ترجیحات کے تحت ان مہینوں کی ترتیب میں رد وبدل یعنی تقدیم اور تاخیر کرلیا کرتے تھے ،جسے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ''نَسی ئ‘‘سے تعبیر فرمایا۔مگر جب ختم المرسلین ﷺ حجۃ الوداع میں تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:''اے لوگو!(مہینوں کو مؤخر کرنا)محض کفر میں زیادتی ہے،اس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے ،وہ (قریش) کسی مہینے کو ایک سال حلال قرار دیتے ہیں اور اُسی کو دوسرے سال حرام قرار دیتے ہیں ،تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کرلیں،سو جس کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو حلال کرلیں، (التوبہ:37)‘‘۔اوربے شک(ترتیب میں ان کی تقدیم وتاخیرکے باوجود) زمانہ گھوم پھر کر اُسی ترتیب کے مطابق آچکا ہے ، جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن سے چلی آرہی تھی ،سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہے ،اُن میں سے چار حرمت والے ہیں،اِن میں سے تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرّم متواتر ہیں اور (چوتھا) رجبِ مُضَر ہے جو جُمادی الثّانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے،(سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد فِیْ سِیْرَۃِ خَیْرِ الْعِبَاد، ج: 8، ص: 483)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کا خطبہ تاریخِ انسانیت میں اسلامی عقائد ،انسانی جان ،مال و آبرو کی حرمت ،حقوقِ انسانی ،حقوقِ نسواں ، زیردست طبقات کے حقوق اور اسلامی احکام کا ایک جامع منشور ہے ۔بعد کے ادوار میں1215ء میں کنگ جون آف انگلینڈ کا جاری کردہ میگنا کارٹا،فرانس کا اعلانِ حقوقِ انسانی وباشندگان 1789ء ،نوشتۂ حقوقِ امریکہ 1791ء اور 1948میں اقوامِ متحدہ کا جاری کردہ عالمی منشور برائے حقوقِ انسانی سب اسی خطبۂ حجۃ الوداع کا ناتمام توارُث اور تسلسل ہے ۔اُس سے پہلے حقوقِ انسانی کی کوئی جامع مقامی یا عالمی دستاویز تاریخ میں ثابت نہیں ہے ۔
اِس سال1437ہجری کے حج کے موقع پر امام الحج نے جو خطبہ ارشاد فرمایا ،اُس کا ایک حصہ خطبے کے روایتی اجزا پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دہشت گردی کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کو کسی مذہب کے ساتھ نہ جوڑاجائے ۔اِس سے ہم سو فیصد متفق ہیں ،کیونکہ عہدِ حاضر میں دہشت گردی کا سارا ملبہ اسلام پر ڈال دیا گیا ہے اور امریکا اور اہلِ مغرب کی نظر میں مسلمان اور دہشت گردی ہم معنیٰ سمجھ لیے گئے ہیں ،اِلَّا ماَ شَائَ اللّٰہ۔ہمارے نزدیک دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت کے ساتھ ساتھ اُس کے اسباب کا تعیُّن کر کے اُن کا اِزالہ بھی ضروری ہے ۔اس وقت عالمی سطح پر جو بھی اِقدامات کیے جارہے ہیں ،اُن کی حیثیت دافعِ درد (Pain Killer)اور سکون آور (Tranquilizer)دوائوںسے سُن کرنے کی سی ہے ،یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی کوششوں کے باوجود مَنظر میر تقی میر کے الفاظ میں کچھ یوں ہے:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا !اِس بیماریِ دل نے، آخر کام تمام کیا
امام الحج نے حکمرانوں کو عوام کے حقوق کی جانب متوجہ کیا ،لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ سارے خطبات اور خطابات محض نظریاتی اور اِطلاقی و عمومی (Generalized)ہوتے ہیں ،برسرِ زمین موجود حقائق پر اُن کی تطبیق نہیں کی جاتی ،ورنہ میں نے گزشتہ سال بھی لکھا تھا کہ سعودی عرب میں ''کفیل ‘‘کا ادارہ عہدِ قدیم کی غلامی کی جدید شکل ہے اور آج بھی اخباری اطلاعات کے مطابق سینکڑوں یا ہزاروں مزدور سعودی عرب میں کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں اور اُن کو گزشتہ ایک سال یا کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں ۔امام الحج کو اُن مظلومین کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی ،لیکن نہ ہوسکی۔دراصل خطبۂ حج کی اصل حیثیت عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں آج کل صدرِ امریکا کے ''اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس‘‘کے مشابہ تھی اور یہ خطبہ سربراہِ ریاست ومملُکت اپنی حکومت کی پالیسی کے طور پر جاری کرتا تھا، جب کہ آج اس کی حیثیت محض واعظانہ اور اَخلاقیات کے درس کی حد تک رہ گئی ہے ۔
امام الحج نے اپنے خطبۂ مبارکہ میں قبلۂ اول، فلسطین ،شام ،یمن ،عراق وغیرہ کے مسلمانوں کا ذکر کیا ، لیکن تقریباً دو ماہ سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوستان کی سات لاکھ افواج نے محصور کر رکھا ہے ،کرفیو کی حالت میں ہیں ، کاروبارِ زندگی معطّل ہے ،جمعۃ المبارک اور عید کی نماز بھی بعض مقامات پر ادا نہیں کی جاسکی،بڑی تعداد میں نوجوانوں کو چھَرے داربندوقوں کا نشانہ بناکر ان کے چہرے زخمی کردیے گئے ،وہ بینائی سے محروم کردیے گئے ،ایک سو سے زائد افراد جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں ۔لیکن امام الحج نے ان مظلومین کو اپنی دعائوں میں بھی یاد نہیں کیا ،ان کے دل پر کیا گزری ہوگی ۔جہادِ افغانستان کے زمانے میں حرمینِ طیبین کے خطبات اور حج کے خطبات میں افغانستان کے مجاہدین کے حق میں اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے تسلسل کے ساتھ دعائیں مانگی جاتی تھیں ، لیکن وقت کے ساتھ ترجیحات اور پسند وناپسند کے پیمانے بدل جاتے ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کا رسوخ اور سیاسی دبائو حاوی ہوچکا ہے۔
امام الحج نے بجا طور پر علماء کو اُن کی ذمے داریوں کی طرف متوجہ کیا اور اِفراط وتفریط سے بچتے ہوئے توسط واعتدال کی راہ اختیار کرنے کی تعلیم دی اور بتایا کہ نہ تو دین میں غیر ضروری شدت ہونی چاہیے اور نہ ہی بے جا رعایت ونرمی ہونی چاہیے ،جسے قرآنِ کریم میں مُداہَنَت سے تعبیر کیا گیاہے ۔انہوں نے رحمۃ للعالمین ﷺ کے اَخلاقِ کریمانہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اِس ارشادِ مبارک کا حوالہ دیا:''پس یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہی کا فیضان ہے کہ آپ اُن (صحابۂ کرام)کے لیے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُند مزاج اور سخت دل ہوتے ،تو یہ آپ کے اردگرد سے تِتَر بتر ہوجاتے،(آل عمران:159)‘‘۔پس امام الحج اور ائمۂ حرمینِ طیبین کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک خاص مکتبِ فکر کی سرپرستی کی بجائے امت کے تمام مسلّمہ مکاتبِ فکر کے لیے گنجائش پیدا کریں تاکہ حجازِ مقدّس حقیقی معنی میں امت کی اجتماعیت کامرکزقرار پائے۔
امام الحج نے ذرائع اِبلاغ یعنی پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیااور سوشل میڈیا کے ذمے داران کوتاکید اور وصیت کی کہ اپنے فن اور زبان وقلم کی قوت کو دین کے دفاع کے لیے استعمال کرو ،ہرقسم کے تفرِقے سے بچتے ہوئے امت میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرو ، اپنی صلاحیتوں کو امت کے لیے ضُعف کا سبب نہ بنائو بلکہ اِسے امتِ مسلمہ کی طاقت بنائو ۔آج کے دور میں ذرائع ابلاغ ایک ایسی دودھاری تلوار ہے کہ جسے ذمے داری کے ساتھ استعمال کرنا بے حد ضروری ہے ۔انہوں نے نوجوانوں کو اِتباعِ دین کی تلقین کی اورتربیت دینے والوں کواُن کی ذمے داریوں سے آگاہ کیا۔